سقوط ڈھاکہ اوربھارتی قید کی ہوشرباداستان
اردو ڈائجسٹ کے دسمبر 1973ء کے شمارے میں صوبیدار انور حسین کا ایک خط شائع ہوا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ25نومبر 1971ء کو زخمی ہو کر میں ڈھاکہ ہسپتال پہنچ گیا۔ 16دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کا حکم دے دیا۔تو فوج میں صف ماتم بچھ گئی۔ 18جنوری 1972ء کو مجھ سمیت 50زخمیوں کو ریڈ کراس کے ایک ہوائی جہاز کے ذریعے کلکتہ ایسٹرن کمانڈ ہاسپٹل میں پہنچا دیا گیا۔ جب ہمیں کلکتہ کے ڈم ڈم ایئرپورٹ سے ہسپتال میں منتقل کیا جا رہا تھا تو اس وقت وہاں موجود بنگالیوں نے پاکستانیوں کو گالیاں دیں اور ہمارے خلاف نعرے لگائے۔پھر ہمیں سخت پہرے میں ہسپتال کی تیسری منزل کے ایک وارڈ میں منتقل کر دیا گیا اور تامل ناڈو کے سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی جو نہایت بدتمیز تھے۔ 31 جنوری تک ہمیں چارپائی سے ہلنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ 31جنوری کو بذریعہ ٹرین ہوڑہ سے آگرہ روانہ کر دیئے گئے یہ تین دن کا سفر تھا۔دوران سفر ایک چپاتی صبح اور ایک شام کو دال کے ساتھ کھانے کو دی جاتی رہی۔آگرہ چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پر نئی گارد نے ہمیں سخت سردی اور بارش میں ایک گھنٹہ کھڑے رکھا،پھر بسوں میں ٹھونس کر 43 نمبر کیمپ کے ہسپتال میں پہنچا دیا،اس کیمپ میں ہمارے ساتھ نہایت ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ایک ڈاکٹر کیپٹن گپتا فحش گالیا ں دیتا اور مریضوں سے سارا سارا دن مشقت لی جاتی۔رات کے وقت باہر نکل کر پیشاب کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اندر ہی ایک ڈرم رکھ دیا گیا تھا جو صبح تک بھر جاتا اور بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا۔میرے لئے اصل قید 28مئی 1972ء کو اس وقت شروع ہوئی،جب مجھے آگرہ کی سنٹرل جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کر دیاگیا۔چند دن کال کوٹھڑی میں گزارنے کے بعد مجھے دوسرے قیدیوں کے پنجرے میں داخل کردیا گیا۔کال کوٹھڑی جیسا کے نام سے ظاہر ہے، اندھیری کوٹھڑی تھی،جس میں مچھروں، پسوؤں، کھٹملوں اور دوسرے حشرات الارض کی بھرمار تھی۔........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website