جب مغل سلطنت اپنے کامل زوال کی جانب بڑھ رہی تھی تو پنجاب کا صوفی شاعر بلھے شاہ بلبلا اٹھا تھا۔”برا حال ہویا پنجاب دا“ کی دہائی مچانا شروع ہوگیا۔ربّ کریم نے مجھے بلھے شاہ جیسے تخلیقی ذہن سے مالا مال نہیں کیا۔ویسے بھی تنخواہ کا محتاج قلم گھسیٹ ہوں۔ ہر لفظ لکھنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود خبردار کرنے سے باز نہیں رہتا کہ ہم ان دنوں بلھے شاہ کی بیان کردہ ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔محکمہ پولیس میں آئے روز بہتری اور ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے اخبارات میں خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن محکمہ پولیس میں سدھار کے کوئی آثا ر نظر نہیں آرہے ہیں۔ محکمہ پولیس جہاں اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے اور لوٹ مار کی ایسی داستانیں ہیں کہ الامان الحفیظ اگر کسی عام آدمی کے ساتھ کوئی حادثہ، واقعہ، چوری، ڈکیتی، رہزنی ہوجائے تو پولیس کے رویہ کی وجہ سے 80فی صد افراد اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاتے کیونکہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدارکے مصداق اس مظلوم کی داد رسی کے بجائے تھانے میں موجود ڈیوٹی آفیسر اس کی جیب میں بچی جمع پونجی بھی لے مرتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرین کی اکثریت اس زحمت سے اجتناب برتے ہیں اور تھانے میں چوری ڈکیتی رہزنی کی وارداتوں کی ایف آئی آر اور اطلاع کرنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں تیزی،انٹربینک میں ڈالر مزید سستا ہو گیا

پولیس کے تھانے عوام کی داد رسی کے بجائے لوٹ مار میں مصروف ہیں اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے اور عوام کی داد رسی کے لیے خوشنما اعلانات کے سوا کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ محکمہ پولیس اگر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور کسی بھی قسم کا سیاسی دبا? قبول نہ کیا جائے اور مکمل اور شفاف انکوائری کے بعد انہیں ملازمت سے برطرف کیا جائے تاکہ آئندہ کسی اہلکار کو ہمت اور جرات نہ ہوسکے کہ وہ خود قانون کی دھجیاں بکھیرے اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کو پریشان کرے۔یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو گا جب کسی بھی ادارے کے سربراہ کو کام کرنے کا پورا موقع فراہم نہیں کیا جائے جب آپ ایک سال کے دورا ن چار کمانڈر تبدیل کردیں گے تو ادارے کی کارکردگی بھی ان تبادلوں سے مشروط ہو گی دوسری جانب اگر آپ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو کام کرنے کا پورا موقع فراہم کریں تو پھر آپ کو بہتری کے آثار بھی نظر آئیں گے۔انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی شخصیت اور اندازِ ورکنگ کو آپ پسند کریں یا نہیں۔اس حقیقت کو جھٹلانہیں سکتے کہ وہ اس وقت ہمارے مقبول ترین پولیس افسران میں شامل ہیں۔ اپنی مقبولیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ جلد از جلد اس نظام میں پائی جانیوالی خرابیوں کو درست کرنے کے خواہاں ہیں۔

مصنوعی بارش: نم ملاپانی بادلوں پر چھڑکا جاتا ہے: منور صابر

اس وقت بھی اٹک سے کچے کے علاقے ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان تک جرائم کے بہت زیادہ واقعات سامنے آرہے ہیں، لیکن جن اضلاع میں پولیس کی بہتر حکمت عملی اور سخت اقدامات ہیں، وہاں جرائم کی وارداتوں کا تناسب کم اور کہیں انتہائی کم دکھائی دیتا ہے۔ ان میں بہاول پور،ڈیرہ غازی خان،حافظ آباد،نارووال،جہلم، وہاڑی اور دیگر اضلاع شامل ہیں، جہاں جرائم پیشہ عناصر پر پولیس کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے اور اگر بات کی جائے پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہورکی، تو لاہورپولیس نے تو کمال ہی کردیا، جتنا کام پنجاب کے بعض اضلاع سال میں کرتے ہیں، وہ کام لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عمران کشور نے گزشتہ تین ماہ میں کر دکھایا ہے۔ ڈی آئی جی عمران کشور اور ان کی ٹیم نے ڈکیتی قتل،قتل،اندھے قتل،اقدام قتل اور متفرق کرائم میں ملوث 200سے زائد ملزمان کو گزشتہ تین ماہ کے دوران گرفتار کرنے کے ساتھ چالان کیا ہے جبکہ سنگین وارداتوں میں ملوث 2 درجن سے زائد گینگ گرفتار کرکے ان سے کروڑوں روپے مالیت کا لوٹا ہوا سامان برآمد کر کے متاثرین کے حوالے کیا گیا ہے،پتوکی سے سیر کے لیے جانیوالی طالبات کی بس پر فائرنگ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرکے آئی جی پولیس سے شاباش بھی حاصل کی ہے،اسی طرح حال ہی میں بلوچستان کے شہری سکھ یاتری جے رام داس اور نصیر آباد میں نابینہ خاتون سے واردات کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرکے لاکھوں روپے نقدی اور دیگر سامان بھی برآمد کیا گیاہے۔

آسٹریلیا سے ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد افتخار احمد کا قومی ٹیم کو مشورہ

پولیس قانون کی محافظ ہے، اسی لئے خود اس کو قانون پر پوری طرح عامل ہونا چاہئے پنجاب پولیس کے کمانڈ رانسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان انور ان اقدامات پر عمل پیرا ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اب صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں پولیس کے خلاف شکایات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اب سائلین کی درخواستوں پر بروقت کارروائی عمل میں لا نے سے اس کا مورال بلند ہوا ہے۔سسٹم میں بہتری کے آثار دیکھنے کو ملے ہیں۔بدنامی کا باعث بننے والی پولیس آج محافظ نظر آتی ہے یہ سب کچھ کیسے ہوا انہیں فرینڈلی بنانے کے لیے فورس کے کمانڈر ڈاکٹر عثمان انور نے ان کی ویلفیئر پر توجہ دی ہے۔ڈی آئی جی آپریشنزسید علی ناصر،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم کیپٹن ر لیاقت ملک،ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش چوہدری اور ایس ایس پی آپریشنز سید علی رضا کی کاوشوں سے پولیس کے امیج کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے جبکہ نئی خاتون چیف ٹریفک آفیسر عمارہ اطہر کے آنے سے ٹریفک سسٹم میں بہتری آنے اور کیپٹن ریٹائرمستنصر فیروز کی خدمات سیف سٹی کے حوالے کرنے سے وہاں بہتری کا امکان ہے۔

لانس نائیک محمد محفوظ شہید کا 52 واں یوم شہادت آج

QOSHE -       پولیس کے نظام کو سدھارنے کی کوشش - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      پولیس کے نظام کو سدھارنے کی کوشش

12 0
18.12.2023

جب مغل سلطنت اپنے کامل زوال کی جانب بڑھ رہی تھی تو پنجاب کا صوفی شاعر بلھے شاہ بلبلا اٹھا تھا۔”برا حال ہویا پنجاب دا“ کی دہائی مچانا شروع ہوگیا۔ربّ کریم نے مجھے بلھے شاہ جیسے تخلیقی ذہن سے مالا مال نہیں کیا۔ویسے بھی تنخواہ کا محتاج قلم گھسیٹ ہوں۔ ہر لفظ لکھنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود خبردار کرنے سے باز نہیں رہتا کہ ہم ان دنوں بلھے شاہ کی بیان کردہ ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔محکمہ پولیس میں آئے روز بہتری اور ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے اخبارات میں خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن محکمہ پولیس میں سدھار کے کوئی آثا ر نظر نہیں آرہے ہیں۔ محکمہ پولیس جہاں اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے اور لوٹ مار کی ایسی داستانیں ہیں کہ الامان الحفیظ اگر کسی عام آدمی کے ساتھ کوئی حادثہ، واقعہ، چوری، ڈکیتی، رہزنی ہوجائے تو پولیس کے رویہ کی وجہ سے 80فی صد افراد اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاتے کیونکہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدارکے مصداق اس مظلوم کی داد رسی کے بجائے تھانے میں موجود ڈیوٹی آفیسر اس کی جیب میں بچی جمع پونجی بھی لے مرتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرین کی اکثریت اس زحمت سے اجتناب برتے ہیں اور تھانے میں چوری ڈکیتی رہزنی کی وارداتوں کی ایف آئی آر اور اطلاع کرنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔

سٹاک مارکیٹ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play