مارکسس دانشوروں کا کہنا ہے کہ سیاست Normative علم نہیں بلکہ Positive علم ہے۔ جس طرح کے قومی معروضی حالات ہوں گے نتائج ایسے ہی برآمد ہوں گے۔ البتہ سیاست دانوں کے اعمال اور افعال اس میں تحریکی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں سیاستدان حالات کے بعد دوسرا اہم کردار ہوتے ہیں اگر وہ حالات کا صحیح ادراک نہ کر سکیں اور اپنے مفادات اور معروضی تجزیہ کو زمینی حقیقتوں کے مقابل اولیت دیں تو نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہوتے ہیں۔ 1977-1971ء اور 1980ء پاکستان کی تاریخ میں زمینی حقیقتوں کو فراموش کرنے کی المناک مثالیں ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کو قبول نہ کیا گیا۔ 1977ء میں آئین توڑا گیا اور 1980ء میں افغانستان کی جنگ میں شرکت کے نتائج ہمارے قومی وجود کو گھن کی طرح کھا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے 2013ء کے انتخابات کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک وزیراعظم کو تا حیات نا اہل کیا گیا۔ اسے سزا سنائی گئی اور صرف چند سال بعد اس کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی اسے ملک سے باہر بھیجا گیا۔2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والا بھی نہ صرف اپنی آئینی مدت نہ پوری کر سکا بلکہ اب سو سے زائد مقدمات بھگت رہا ہے اور جیل میں ہے۔ اس کی پارٹی کے لوگوں کی اکثریت جو کسی اشارے پر اس کی جماعت میں شامل تھی، اب اسی اشارے پر اس کا ساتھ نہ صرف چھوڑ چکی ہے بلکہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دے رہی ہے،جس وزیراعظم کو تا حیات نا اہل قرار دے کر جیل کی سلاختوں میں بھیجا گیا آج وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ملک میں نئے سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے واپسی پر نہ جیل کا دروازہ دیکھا اور نہ ہی کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے تسلسل کا سامنا کیا اب وہ ایک آزاد اور ریاست کی پسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں۔

پیٹرول سیکٹر پر ٹیکسز بہت زیادہ ہیں،60 روپے فی لیٹر پیٹرول لیوی پر نظرثانی کی ضرورت ہے،وزیر توانائی

یہ ہمارے ملک کے احتسابی اور قانونی نظام کی ایک تصویر ہے۔ جو ہمارے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کی جھلک بھی دکھاتی ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اطلاق ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک اپنے امیدوار کا حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعلان تو نہیں کیا۔ لیکن کسی حد تک انتخابی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے سندھ سے جلسوں کا آغاز کیا اور پھر صوبہ سرحد کے شہر ایبٹ آباد اور دیر میں واضع طور پر کہا کہ اب بزرگوں کو سیاست سے علیحدہ ہونا چاہئے۔ آرام کریں اور مدرسوں میں بچوں کو پڑھائیں اور یہ چوتھی بار جو وزیر اعظم بننے کا بھوت سوار ہوا ہے اس سے نجات حاصل کریں۔ بلاول کا اشارہ صرف میاں نوازشریف یا مولانا فضل الرحمن کی طرف نہ تھا بلکہ وہ یہ بات اپنے والد سے بھی کہہ رہے تھے۔ ان کے والد نے اگلے ہی روز ایک انٹرویو میں بلاول کو ناتجربہ کار قرار دے دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ابھی وہ زیر تربیت ہے۔ زرداری کو بلاول کے ننھیالی خاندان کا شاید اب تک علم نہ ہو سکا کہ بلاول کا نانا تیس برس کی عمر میں پاکستان کا وزیر قدرتی وسائل تھا اور زندگی کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے سے قبل پاکستان کا وزیر خارجہ تھا۔ بلاول کی والدہ زندگی کے تیسرے عشرے میں پاکستان کی ہی نہیں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن چکی تھی۔ نانا اور ماں اپنی بھرپور جوانیوں میں شہادت کو بھی گلے لگا چکے تھے۔ خیر یہ ”قطع میں آ گئی ہے سخن گسترانہ بات“ ہی سمجھی جائے میرا مطلب واضع ہے کہ جو پس منظر زرداری خاندان کا ہے وہ بھٹو خاندان کا نہیں اور بچے ضروری نہیں کہ ددھیال پر ہی جائیں۔ ننھیال سے بھی مرعوب ہو سکتے ہیں اور بلاول تو ویسے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی جوانی کی تصویر نظر آتا ہے اب سوال یہ اہم ہے کہ آخر بلاول بزرگوں کو سیاست چھوڑنے کا مشورہ کیوں دے رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ ایک نوجوان سیاسی رہنما کی حیثیت سے بلاول کو چالیس برس سیاست کو ملک اور عوام کے لئے نہ صرف بے معنی بلکہ نقصان دہ تصور کرتا ہے۔ اسے ان عوام اور حقیقتوں کا براہ راست علم اور تجربہ ہے جن کے نتیجہ میں یہ ملک کمزور اور اس کے عوام دن بدن تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں

سانحہ اے پی ایس پشاور کے زخم 9 سال بعد بھی تازہ

نہ صرف یہ بلکہ تاریکی کے اندر ان آوازوں کو بھی سن رہا ہے جو اس زنگ آلود سیاسی عمل سے متنفر ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، لیکن آصف علی زرداری اور ان کے کاروباری سیاسی اتحادی اپنے راستے بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنا 56 واں یوم تاسیس کوئٹہ میں منایا، لیکن ان بنیادی مسائل کا ذکر تک نہیں کیا، جن کے سبب آج بلوچستان کے تقریباً ہر گھر میں رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ سب سے بڑے اور سب سے غریب صوبے کے امیر ترین وسائل صوبے کے عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتخابی صف بندی میں ایک مکمل صف کو ہی غائب کر دینے کا عمل جاری ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان چیئرمین بن گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ (ن) لیگ جس نے کبھی شریف خاندان سے باہر جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی اس نے ان انتخابات کو فراڈ قرار دیا ہے۔ سیاست کس طرف جائے گی یہ تو جنوری کے آخری ہفتے میں پتہ چل جائے گا۔ لیکن پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے لئے ایک ”حیرانی“ ابھی باقی ہے اور وہ یہ کہ سردار لطیف خان کھوسہ اور اعتزاز احسن تحریک انصاف میں شامل ہونے پر گہری سوچ بچار کر رہے ہیں۔ نوازشریف اور (ن) لیگ کی مخالفت میں یہ دونوں حضرات کچھ بھی کرسکتے ہیں اور ان کا تحریک انصاف میں جانا آصف علی زرداری کے کھیل کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور موجودہ سیاسی منظر زیادہ پر کشش اور دلچسپ بنا سکتا ہے اگر ایسا ہو گیا تو؟

سردار مہتاب خان عباسی کا مسلم لیگ ن سے راہیں باضابطہ جدا کرنے ، آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ

QOSHE -       کہیں ویسا نہ ہو جائے  - صدیق اظہر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      کہیں ویسا نہ ہو جائے 

18 0
16.12.2023

مارکسس دانشوروں کا کہنا ہے کہ سیاست Normative علم نہیں بلکہ Positive علم ہے۔ جس طرح کے قومی معروضی حالات ہوں گے نتائج ایسے ہی برآمد ہوں گے۔ البتہ سیاست دانوں کے اعمال اور افعال اس میں تحریکی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں سیاستدان حالات کے بعد دوسرا اہم کردار ہوتے ہیں اگر وہ حالات کا صحیح ادراک نہ کر سکیں اور اپنے مفادات اور معروضی تجزیہ کو زمینی حقیقتوں کے مقابل اولیت دیں تو نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہوتے ہیں۔ 1977-1971ء اور 1980ء پاکستان کی تاریخ میں زمینی حقیقتوں کو فراموش کرنے کی المناک مثالیں ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کو قبول نہ کیا گیا۔ 1977ء میں آئین توڑا گیا اور 1980ء میں افغانستان کی جنگ میں شرکت کے نتائج ہمارے قومی وجود کو گھن کی طرح کھا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے 2013ء کے انتخابات کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک وزیراعظم کو تا حیات نا اہل کیا گیا۔ اسے سزا سنائی گئی اور صرف چند سال بعد اس کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی اسے ملک سے باہر بھیجا گیا۔2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والا بھی نہ صرف اپنی آئینی مدت نہ پوری کر سکا بلکہ اب سو سے زائد مقدمات بھگت رہا ہے اور جیل میں ہے۔ اس کی پارٹی کے لوگوں کی اکثریت جو کسی اشارے پر اس کی جماعت میں شامل تھی، اب اسی اشارے پر اس کا ساتھ نہ صرف چھوڑ چکی ہے بلکہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دے رہی ہے،جس وزیراعظم کو تا حیات نا اہل........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play