بھٹو کے ساتھ کیا ہوا!
صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے سے تین روز قبل چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر وچیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق اسلام آباد میں قومی سیاسی رہنماؤں کے اجلا س سے خطاب کر رہے تھے تاریخ 13ستمبر 1977ء تھی۔ انہوں نے بھٹوصاحب کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کرنے کے لئے قتل کا ایک مقدمہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان کے خطاب کے دوران اچانک اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات مسعود نبی نور اچانک نمودار ہوئے دبے پاؤں چلتے ہوئے ضیاالحق کے قریب پہنچے اور فائل کھول کر ان کے سامنے رکھ دی۔یہ ہندوستان کے اچانک حملے جیسی یقینا کوئی بہت بڑی اطلاع ہی ہو سکتی تھی جو اتنے اہم خطاب کے دوران انہیں دی گئی۔ ماحول میں سنسی دوڑ گئی اورسب شرکا کی نظریں فائل پر مرکوز ہوگئیں،ان کا خدشہ اس وقت یقین میں بدل گیا جب فائل پر نظر ڈالنے کے بعد جنرل ضیاالحق نے تقریر جاری رکھنے کی کوشش کی تو وہ ہکلا رہے تھے شاید کوئی بہت بڑا بم پھٹا تھا۔ان کے لئے بھٹو صاحب کی ضمانت سے بڑا اور کون سا بم ہوسکتا تھا جو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس کے ایم اے صمدانی نے منظور کرلی تھی، فائل میں یہی اطلاع تھی۔یہ کہانی میں نے مرحومہ بیگم نصرت بھٹو کی زبانی سنی جو اس اجلاس میں شریک تھیں۔جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی کا تعلق ہندوستان کی ریاست حیدر آباد دکن سے تھا۔ ایک دیانتدار اور بااصول شخص تھے جن کی لاہورہائیکورٹ میں بہت اچھی شہرت تھی۔ہر کوئی ان کا نام عزت و احترام سے لیا کرتا تھا جبکہ چیف جسٹس مولوی مشتاق کا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ ان کا تعلق ضیاالحق کے آبائی شہر جالندھر سے تھا اور ضیاالحق کے کہنے پر انہوں نے مقدمہ اپنی عدالت میں منگوا لیا تھا جبکہ جسٹس صمدانی کا تبادلہ بطور سیکرٹری قانوں اسلام آباد کر دیا گیا۔ مقدمے کے مولوی مشتاق کی عدالت میں بھیجے جانے کا مطلب ہی یہی تھا کہ فیصلہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے جس کے برملا اظہار میں بھی مولوی مشتاق نے اس وقت کوئی تامل نہیں کیا جب بیگم نصرت بھٹو پر پولیس لاٹھی چارج کے اگلے دن بھٹو صاحب عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
گوگل سرچ 2023 : شاہ رخ کی ’جوان‘ نے........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website