زندگی میں تضادات کا عمل دخل شروع ہونے سے زندگی کی پوری کی پوری ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔ویسے تو زندگی بڑی ہی خوبصورت چیز ہے۔اوپر سے نظام فطرت اس کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے تو مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس سے انواع واقسام کی چیزیں پیدا ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر اسی زمین کو کھودا جائے تو سونا، چاندی، کاپر جیسی طرح طرح کی دھاتیں برآمد ہوتی ہیں۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو کائنات پوری بقعہ انوار بن جاتی ہے اور زندگی کو کھل کر کھیلنے کا پورا موقعہ دیا جاتا ہے۔ پھر رات کالی چادر بن کر زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہوائیں لوریاں دیتی ہیں اور زندگی لمبی تان کر سو جاتی ہے۔ یوں ہر لمحہ اور ہر گھڑی فطرت انسان کی تابعداری میں لگی ہوئی ہے کونسی کونسی بات کریں بات سے بات نکلتی ہے باتیں لا محدود۔ خالق نے مخلوق کے لئے کھلا میدان چھوڑ دیا ہے اور اس سارے کھیل میں انسان کا مرکزی کردار رکھ دیا ہے،جو مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ اول الذکر کی صورت میں دنیا کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے اور موخر الذکر کی صورت میں ہر طرف آگ ہی آگ اور شر ہی شر۔یہ سب دوزخ کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ ترتیب اور ترکیب کی بظاہر شکل سے خیر اور شر کا فیصلہ ہوتا ہے اور فیصلے بھی دو ہوتے ہیں ایک فرش پر ہی ہو جاتا ہے اور دوسرا عرش پر ہوتا ہے اور وہ بھی روز حشر۔ جب ہر چیز بولے گی جب ترازو نصب کئے جائیں گے۔ جب کچھ بھی مخفی نہیں ہو گا۔ جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ جب خونی رشتے ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جائیں گے۔ وہاں صرف ایک ہی رشتہ ہوگا اور وہ ہے عبد اور معبود کا۔ کچھ انسانوں کے سر شرم سے جھک جائیں گے اور بعض کے لئے مخملی قالین بچھائے جائیں گے۔ ان دونوں قسم کے انسانوں کا پروٹوکول قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ شاید قرآن پڑھنے کی ہمارے پاس فرصت نہیں ہے۔ اب تو ویسے بھی گلوبلائزیشن کا دور ہے اور ہمیں کئی قسم کے دورے پڑ گئے ہیں اور ہم مکمل طور پر بے ہوش ہو چکے ہیں ہمیں جب ہوش آئے گا تو پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہو گا اور ہم بے بسی کے عالم میں پانی پانی ہو جائیں گے۔کاش ہمیں کوئی ہلائے جلائے اور ہمارے سر پر کھڑا ہو کر زور زور سے چیخنا شروع کر دے اور بار بار یہ کہے۔ اے انسان ہوش کر ہوش کر ہوش کر۔

پی ایس ایل سیزن9، پی سی بی نے گولڈ کیٹیگری کے تمام کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا

مذکورہ صورتحال کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم یا تو خود آئینہ دیکھیں یا ہمیں آئینہ دکھا دیا جائے۔ بظاہر تو میں دھڑا دھڑ نمازیں پڑھ رہا ہوں اور ثبوت کے طور پر میرے ماتھے پر محراب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر سال میں پورے ایک مہینے کے روزے رکھتا ہوں۔نادار لوگوں کو افطاری بھی کرواتا ہوں۔ شب بیداری بھی میرا معمول ہے۔ ہر سال حج بھی کرتا ہوں بلکہ کئی عمرے بھی ادا کرتا ہوں۔ غریبوں کو اپنے گھر کے سامنے لائن میں لگا لیتا ہوں اور زکوٰۃ تقسیم کرکے اس کی خوب تشہیر بھی کرتا ہوں۔ جب میں یہ سارا کچھ کرتا ہوں تو زاد آخرت تو میں نے تیار کرلیا ہے۔ اب مسئلہ کیا۔ مسئلہ اپنے ہم جنسوں کا ہے،جن کا اور جن کے حقوق کا میں روز تیا پانچا کرتا ہوں۔ والدین کی خدمت کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ بہنوں بھائیوں کا حق کھائے بغیر مہنگائی کے اس دور میں میرا گزارا نہیں ہو رہا ہے۔ میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں اور میرا یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے جب تک میں چوری۔ ٹھگی، ملاوٹ، فراڈ، دھونس دھاندلی، لوٹ کھسوٹ، خون خرابہ، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی، ہیر پھیر وغیرہ وغیرہ نہیں کرتا ہوں۔ سول سروس کی بھی ایک اپنی اہمیت ہے اور میں ایک افسر بن کر پُرآسائش زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے میں عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر نوکری کے میدان میں اُترا ہوں تاکہ میں ٹکا کر من مانی کرسکوں۔ ہر شخص میری بات مانے اور میں کسی ایک کی بھی نہ سنوں بس مطلق العنان۔ کاش میں ایک عالم دین بن جاوں اور اپنے ہی دین کے علماء کے ساتھ سارا سارا دن بحث تمحیص کر کے اپنے مقلدین کی مت ماردوں اور میں ہر مسئلے کو اپنے انداز سے پیش کر کے ایک نئے مسلک کی بنیاد رکھوں تاکہ بہتر فرقوں کا خواب شرمندہئ تعبیر ہو جائے اور اتمام حجت کے لئے میں محفل میلاد میں روح پرور ذکر اذکار بھی کرواوں گا۔ آخرت کی فکر کے لئے تبلیغی مراکز قائم کروں گا اور قوم میں مزید شعور بیدار کرنے کے لئے اپنی قوم کی مقتدر ہستیوں کو متنازعہ بنانے کے لئے حتی المقدور کوشش بھی کروں گا اور ایک نئی خانقاہ کی بنیاد رکھ کر اپنے ورثا کی فیوچر پلاننگ بھی کر جاؤں گا۔ میں ایک سیاستدان بن کر دلفریب نعرے متعارف کراؤں گا حتیٰ کہ یہ غریب عوام مکمل طور پر میرے دام میں آ جائیں گے اور پھر میں ان کو جیسے چاہوں گا ہانکنا شروع کردوں گا میری ترقی کے تمام دروازے کھل جائیں گے، بلکہ میں سارے دروازوں کو پاؤں کی ٹھوکر سے کھولوں گا اور پوری شان وشوکت کے ساتھ کھل کر کھیلوں گا، بلکہ اس سارے کھیل کو چوہے بلی کا کھیل بنا دوں گا۔ اندر باہر آتا جاتا رہوں گا اور ہر لحاظ سے فائدے میں رہوں گا۔ جرائم کی بھی ایک اپنی دنیا ہے یہ دنیا بھی آباد کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے غیروں کے ہاتھوں کھیل کر اپنے آپ کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے دھرتی ماتا کو بیچنا پڑے گا اور یہ کام آنکھیں بند کر کے کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے غیرت نام کی چیز کو مارنا پڑے گا ویسے ضمیر سو جائے تو ہر چیز ہی مر جاتی ہے،بلکہ اندر کا انسان مر جاتا ہے اندر اور باہر کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سود وزیاں ایک طرف حضرت انسان ہم ٹھہرے مسلمان اور صاحب ایمان۔ اس وقت کافروں کی تعداد بھی ہمارے مقابلے میں کم نہیں ہے اس لئے دوزخ کی خانہ پری کے لئے وہ کافی ہیں اور جنت تو ہمیں باپ (آدم) کے ورثے میں ملے گی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا

قارئین کرام! یہ ہیں تضادات اور یہی وجہ ہے کہ ہر طرف فسادات ہی فسادات۔ کہیں ہم اپنوں کو مار رہے ہیں اور کہیں ہمیں غیر مار رہے ہیں ہم ہیں کہ مار کھائے جا رہے ہیں۔ نہ سوچ بچار، نہ مناسب منصوبہ بندی، نہ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی فکر مندی، نہ ماضی کے حالات سے سبق، نہ حال پر گہری نظر اور نہ ہی مستقبل کی پیش بندی۔ نعروں سے جوش آتا ہے، لیکن دشمن کی حربی استعداد دیکھ کر ہوش آجاتا ہے ٹھنڈ پروگرام اور پھر وہیں کے وہیں۔ فوڈ فار تھاٹ۔ آپس میں لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیں۔ عبادات اور معاملات کے فلسفے کو سمجھیں اور اس پر پوری طرح عمل کریں۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھیں اور اس کیلئے ضروری اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ تعلیم کو مالی منفعت کے لئے حاصل نہ کریں،بلکہ دِل کی نفاست اور پاکیزگی کیلئے حاصل کریں۔ جدید سائنسی علوم کے حصول سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مزید مستحکم کر کے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوں۔ بددیانتی اور بدنیتی کے بارے میں گہرا شعور پیدا کریں اور ان کی بیخ کنی کے لئے ممکنہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ انفرادی اور اجتماعی ترقی کے بارے میں ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اتفاق اور اتحاد کا عملی مظاہرہ کریں۔ نعرے لگانا چھوڑ دیں اور کام پر پوری توجہ دے کر کام کام اور کام کی عملی تفسیر پیش کریں۔ دلفریب لاروں سے اجتناب کریں اور ایسے لارے دینے والوں کیلئے اپنے دروازوں پر چک ڈال دیں۔ اپنے من میں پالے ہوئے نفرت، کدورت، بغض، حسد اور تعصب کے بتوں کو باہر لا کر کسی مین چوراہے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاش پاش کر دیں۔ تب جا کے ہمارا دنیائے ہست وبود کی تعمیر و ترقی میں ایک جاندار کردار ادا ہو گا اور ایسا کردار ادا کرنے والوں کا ہی کائنات رنگ و بو میں ایک کردار رکھا گیا ہے۔

پنجاب حکومت نے خدیجہ شاہ کی نظربندی کا حکم واپس لے لیا

QOSHE -        ہم اور تضادات  - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ہم اور تضادات 

12 0
11.12.2023

زندگی میں تضادات کا عمل دخل شروع ہونے سے زندگی کی پوری کی پوری ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔ویسے تو زندگی بڑی ہی خوبصورت چیز ہے۔اوپر سے نظام فطرت اس کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے تو مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس سے انواع واقسام کی چیزیں پیدا ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر اسی زمین کو کھودا جائے تو سونا، چاندی، کاپر جیسی طرح طرح کی دھاتیں برآمد ہوتی ہیں۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو کائنات پوری بقعہ انوار بن جاتی ہے اور زندگی کو کھل کر کھیلنے کا پورا موقعہ دیا جاتا ہے۔ پھر رات کالی چادر بن کر زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہوائیں لوریاں دیتی ہیں اور زندگی لمبی تان کر سو جاتی ہے۔ یوں ہر لمحہ اور ہر گھڑی فطرت انسان کی تابعداری میں لگی ہوئی ہے کونسی کونسی بات کریں بات سے بات نکلتی ہے باتیں لا محدود۔ خالق نے مخلوق کے لئے کھلا میدان چھوڑ دیا ہے اور اس سارے کھیل میں انسان کا مرکزی کردار رکھ دیا ہے،جو مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ اول الذکر کی صورت میں دنیا کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے اور موخر الذکر کی صورت میں ہر طرف آگ ہی آگ اور شر ہی شر۔یہ سب دوزخ کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ ترتیب اور ترکیب کی بظاہر شکل سے خیر اور شر کا فیصلہ ہوتا ہے اور فیصلے بھی دو ہوتے ہیں ایک فرش پر ہی ہو جاتا ہے اور دوسرا عرش پر ہوتا ہے اور وہ بھی روز حشر۔ جب ہر چیز بولے گی جب ترازو نصب کئے جائیں گے۔ جب کچھ بھی مخفی نہیں ہو گا۔ جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ جب خونی رشتے ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جائیں گے۔ وہاں صرف ایک ہی رشتہ ہوگا اور وہ ہے عبد اور معبود کا۔ کچھ انسانوں کے سر شرم سے جھک جائیں گے اور بعض کے لئے مخملی قالین بچھائے جائیں گے۔ ان دونوں قسم کے انسانوں کا پروٹوکول قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ شاید قرآن پڑھنے کی ہمارے پاس فرصت نہیں ہے۔ اب تو ویسے بھی گلوبلائزیشن کا دور ہے اور ہمیں کئی قسم کے دورے پڑ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play