چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ کو شکوہ ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے ایک افسر نے ان کے خطوط کے جواب تک نہیں دیے، یہ بات وہ صدر مملکت کے علم میں بھی لا چکے ہیں، رکن جماعت اسلامی قاری عبدالرزاق مرحوم نے مجھے بتایا: "صحافی نے امیر جماعت سید مودودی رحمہ اللہ سے پوچھا: "کراچی کے ڈپٹی کمشنر نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کو امریکہ سے ڈالر ملتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں"؟ سید مرحوم اپنی روایتی متانت سے بولے : "دیکھیے ! کراچی میں جماعت اسلامی کا اپنا ڈپٹی کمشنر (امیر جماعت اسلامی) موجود ہے . یہ سوال اس سے کیجیے ". جناب چیف جسٹس کی جنبش ابرو پر ہر ریاستی عہدے دار دست بستہ کھڑے گھگھیا رہا ہوتا ہے تو یہ افسر انہیں کیوں نظر انداز کرے گا؟ اس کا جواب ہر تھانیدار کے پاس یوں ہوتا ہے ۔ "ملزم کا کھرا (نقش پا) جرم کے منصوبہ ساز تک لے جاتا ہے ". چیف جسٹس کو چاہیے کہ اس افسر کا سرپرست تلاش کریں جس کے کہے بغیر کوئی افسر اتنی بڑی گستاخی نہیں کر سکتا۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

چیف کے کہنے پر 11دسمبر کو اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ یہ بورڈ یونیورسٹی کی بنیادی حکمت عملی کے مطابق انتظامیہ کو اپنی سوچ (وژن ) دیتا ہے اور سال بعد عمل کی رپورٹ مانگتا ہے ۔ سالہا سال سے جب بورڈ کا اجلاس ہی نہیں ہوا تو کیسا وژن اور کون سی رپورٹ ؟ چاہیے کہ موجودہ اجلاس کا ایک ایجنڈا آئٹم یہ بھی ہو کہ صدر جامعہ، بورڈ کا سامنا کرنے سے کیوں کتراتا ہے جبکہ تینوں مصری صدور جامعہ، ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر انوار صدیقی مرحوم تسلسل سے بورڈ کا اجلاس بلا کر اجتماعی دانش سے استفادہ کرتے رہے ۔ پھر یہ ہوا٬ کہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا/کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا کیا ٹرسٹیز اس نکتے پر غور کریں گے ؟ اور ہاں! درویش صفت صدرجامعہ، زندہ ولی، کنگ فیصل ایوارڈ یافتہ اور20سالہ ضیاع کے بعد یونیورسٹی کی عمارتیں کھڑی کرنے والے ڈاکٹر حسن عبداللطیف شافعی کو دو سال کی تنخواہ اب تک کیوں نہیں دی گئی؟ اس یونیورسٹی کا فارغ التحصیل اور یہیں سے پروفیسر ریٹائر ہو کر میں روز اول سے اسے بنتے بگڑتے دیکھ رہا ہوں۔ اس مقدس ادارے کی ابتدائی اٹھان، زوال اور حالیہ عشرہ انحطاط پر میں گزشتہ دنوں نصف درجن کالم تحریر کر چکا ہوں۔

چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف وزیراعظم ہاؤس طلب

خرابی کی جڑ دراصل یونیورسٹی کے آرڈیننس میں ہے جو انتظامیہ کو بے پناہ اختیارات دے کر اسے احتساب سے کلیتاً محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ خرابی تو پارلیمان ہی دور کر سکتا ہے ۔ لہذا ٹرسٹیز سے کسی موسلادھار باران رحمت کی توقع عبث ہے ، تاوقتیکہ پارلیمان یہ بنیادی خرابی دور نہ کر دے ۔ تاہم بورڈ آف ٹرسٹیز،خصوصاً چیف جسٹس سے ، ہلکے پھلکے ترشح کی توقع یقینا کی جا سکتی ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ دعوہ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی، ادارہ تحقیقات اسلامی اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس اندرون اور بیرون ملک نہ صرف یونیورسٹی بلکہ پورے ملک کی شناخت ہیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جو جامعہ کو دیگر جامعات سے ممیز کرتے ہیں۔ لیکن صدر غلام اسحاق خان مرحوم کے بعد سے انہی چار اداروں پر بھرپور حملے ہو رہے ہیں۔ درآمدی شاہی احکام پر دعوہ اکیڈمی عملاً آج بند ہے ، شریعہ اکیڈمی آکسیجن ٹینٹ میں ہے ، تیسرے ادارے کا حال کم و بیش یہی کچھ ہے ۔ لیکن ادارہ تحقیقات اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر ضیاءالحق اپنے حسن انتظام اور اپنی زیرک شخصیت کے باعث ادارے کو اندرونی بیرونی حملوں سے ابھی تک بچائے ہوئے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے ۔ رہے یونیورسٹی کے تدریسی شعبہ جات تو شریعہ فیکلٹی، فیکلٹی آف اصول الدین اور ایک دو دیگر کے سوا باقی سب کو تواضع سمرقندی پر محمول کر لیجئے ۔ رہے نام باقی خدا کا!

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ نوحہ یونیورسٹی کی بالائی اور اسٹریٹیجک بربادی کا ہے ۔ نچلی اور انتظامی سطح پر یونیورسٹی اتنی بگڑ چکی ہے کہ یا تو اعلیٰ پیمانے کی بھرپور سرجری ہو یا آج ہی سے اصلاح کی خوب کوشش کی جائے ۔ یوں شاید آئندہ کبھی بہتری پیدا ہو جائے ۔ یہاں اپنے 34 سالہ قیام کے دوران جو بربادی میں نے دیکھی اس کے تین عہد ہیں۔ پہلا عہد ایک راجہ خاندان سے معنون ہے جس کے ایک دو بااختیار افسر ابتدا میں کیا بھرتی ہوئے کہ اگلے دو عشروں میں "محکمہ سارا مچھندر ہو گیا"۔ دوسرا عہد عباسی برادری کا ہے جو انہی راجگان سے مل کر طاقت پکڑتی گئی۔ کیا بھائی بیٹے ، کیا چچیرے ممیرے ا_¶ر کیا سالے بہنوئی، یہ دونوں برادریاں بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے انہیں بھرتی کرتی گئیں۔ ایک شخص نے تو اپنا متوقع داماد بھی بھرتی کرایا۔ مرحوم پروفیسر یوسف کاظم فرمایا کرتے تھے کہ یونیورسٹی کے مخفف آئی آئی یو(IIU) کے آگے ایف آر اے (FRA) بھی لگا دیا کرو۔ پوچھا، اس کا مطلب؟ بولے "برائے راجگان و عباسی"۔ تیسرے عہد میں پشتون برادری تھوڑا آگے آئی لیکن زیادہ نہیں۔ کچھ تدریسی بھرتیاں کسی حد تک اس با اختیار برادری کے ہاتھ میں رہیں۔

پاکستان کا اسرائیل سے غزہ پر ظالمانہ اور غیرانسانی حملے روکنے کا مطالبہ

بے پناہ خواہش کے باوجود بھی بورڈ آف ٹرسٹیز شاید کچھ نہ کر سکے ۔ لیکن ایک کام اور وہی ایک کام اگر یہ بورڈ کر سکے تو غنیمت ہوگا۔ تمام بڑی بڑی ملکی عظیم الجثہ جامعات کو گریڈ 20 اور کہیں گریڈ 21 کا ایک رجسٹرار گنتی کے چند ماتحت افسروں کے ذریعے چلاتا ہے ۔ ادھر اسلامی یونیورسٹی کا حال یہ ہے کہ ان گنت نچلی سطح کے ملازمین کے علاوہ ہر تیسرے کمرے میں بی اے پاس فرد ترقی کے بنیادی تربیتی تقاضے پورے کیے بغیر گریڈ 19 اور 20 پر بیٹھا ہے ۔ چوٹی کے سی ایس ایس افسران پر گریڈ 19 سے 20 میں جانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ 4 ماہ کا تربیتی کورس کر چکے ہوں۔ یہی حال مسلح افواج کا ہے ۔ لیکن اسلامی یونیورسٹی کے یہ غیر تربیت یافتہ معمولی بی اے اور بی کام پاس شہزادے گریڈ 21 کا خواب ہی نہیں دیکھ رہے ، تندہی سے اس کے لئے کوشاں بھی ہیں۔

جنگ میں420فوجی ہلاک،2ہزار سے زائد معذور ہوگئے،اسرائیل

بھرتیوں ترقیوں کا اختیار قانوناً یونیورسٹی کے پاس ہوتا ہے لیکن چیف جسٹس کی موجودگی میں بورڈ آف ٹرسٹیز یہ فیصلہ کرے کہ گریڈ 11 اور تمام بالائی بھرتیوں کا اختیار فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو تفویض کیا جاتا ہے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے یونیورسٹی کو ان برادریوں کی آئندہ نسل سے بچایا جا سکتا ہے ۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کل یہی ایک فیصلہ کر دے تو چند سالوں میں اسلامی یونیورسٹی انتظامی نقاہت سے نکل سکتی ہے ۔ بورڈ یہ بھی طے کرے کہ یونیورسٹی کو کتنا انتظامی عملہ اور کتنے افسر درکار ہیں۔ موجودہ افسران تو برقرار رہیں لیکن مزید بھرتیوں اور ترقیوں پر فوری پابندی لگا کر انتظامیہ کی تعداد آئندہ کے لیے نصف سے بھی کم کی جا سکتی ہے ۔ امید ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کا یہ اجلاس ان گزارشات پر یقینا غور کرے گا۔

لرننگ ڈرائیونگ لائسنس ایپ کے ذریعے بنانے کا فیصلہ

QOSHE -   چیف جسٹس سے اسلامی یونیورسٹی کی توقعات - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  چیف جسٹس سے اسلامی یونیورسٹی کی توقعات

10 0
10.12.2023

چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ کو شکوہ ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے ایک افسر نے ان کے خطوط کے جواب تک نہیں دیے، یہ بات وہ صدر مملکت کے علم میں بھی لا چکے ہیں، رکن جماعت اسلامی قاری عبدالرزاق مرحوم نے مجھے بتایا: "صحافی نے امیر جماعت سید مودودی رحمہ اللہ سے پوچھا: "کراچی کے ڈپٹی کمشنر نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کو امریکہ سے ڈالر ملتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں"؟ سید مرحوم اپنی روایتی متانت سے بولے : "دیکھیے ! کراچی میں جماعت اسلامی کا اپنا ڈپٹی کمشنر (امیر جماعت اسلامی) موجود ہے . یہ سوال اس سے کیجیے ". جناب چیف جسٹس کی جنبش ابرو پر ہر ریاستی عہدے دار دست بستہ کھڑے گھگھیا رہا ہوتا ہے تو یہ افسر انہیں کیوں نظر انداز کرے گا؟ اس کا جواب ہر تھانیدار کے پاس یوں ہوتا ہے ۔ "ملزم کا کھرا (نقش پا) جرم کے منصوبہ ساز تک لے جاتا ہے ". چیف جسٹس کو چاہیے کہ اس افسر کا سرپرست تلاش کریں جس کے کہے بغیر کوئی افسر اتنی بڑی گستاخی نہیں کر سکتا۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

چیف کے کہنے پر 11دسمبر کو اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ یہ بورڈ یونیورسٹی کی بنیادی حکمت عملی کے مطابق انتظامیہ کو اپنی سوچ (وژن ) دیتا ہے اور سال بعد عمل کی رپورٹ مانگتا ہے ۔ سالہا سال سے جب بورڈ کا اجلاس ہی نہیں ہوا تو کیسا وژن اور کون سی رپورٹ ؟ چاہیے کہ موجودہ اجلاس کا ایک ایجنڈا آئٹم یہ بھی ہو کہ صدر جامعہ، بورڈ کا سامنا کرنے سے کیوں کتراتا ہے جبکہ تینوں مصری صدور جامعہ، ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر انوار صدیقی مرحوم تسلسل سے بورڈ کا اجلاس بلا کر اجتماعی دانش سے استفادہ کرتے رہے ۔ پھر یہ ہوا٬ کہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا/کہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play