لاہور شہر تہذیبی، ثقافتی، علمی،ادبی اور سیاسی حوالوں سے کئی امتیازات کا حامل ہے، لیکن اب اس کا ایک نیا تعارف سموگ کے حوالے سے دنیا کے سامنے آیا ہے، جس کے سبب یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔یہ پھولوں باغوں اور خوشبوؤں کا شہر ہماری غلط منصوبہ بندی اور بے توجہی کے سبب ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا مسکن بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے ہماری طویل لاپرواہی، کج فہمی اور مسائل سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی عدم صلاحیت عکس ریز ہے۔ اس وقت بھی ہم اس سے نپٹنے کے لئے تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کو روک دینے کا اعلان کر دیتے ہیں، کبھی ماسک کی پابندی کی بات کرنے لگتے ہیں، کبھی مصنوعی بارش برسانے کی نوید سنانے لگتے ہیں اور اس طرح کے جز وقتی اقدامات کر کے سر پر آئی چلتی ٹرین کو ہاتھوں سے روکنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جو اس بدترین آلودگی کا سبب ماضٰی میں بھی بنے اور اب بھی ان کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سب سے اہم معاملہ شہر کی آبادی کا حد سے بہت زیادہ تجاوز ہے، جس کے لئے سرے سے نہ کوئی پلاننگ ماضی میں کی گئی اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لئے اب کوئی خاطرخواہ پیش رفت کی جار ہی ہے۔

اینیمل میں بوبی دیول کے کردار پر ان کی والدہ پرکاش کور کا موقف بھی آگیا

معاشی سرگرمیوں کے مراکز شہر ہمیشہ لوگوں کی توجہ کھینچتے ہیں، جس کے سبب بیشتر آبادی کا رخ ان کی طرف ہو جاتا ہے، یہی کچھ لاہور کے ساتھ بھی ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے صوبے بھر سے ہی نہیں،بلکہ ملک بھر سے لوگ یہاں جمع ہو گئے۔ اس وقت اگر سروے کر کے دیکھا جائے تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے کہ شاید ہی ملک کا کوئی شہر، قصبہ، گاؤں ایسا ہو جس کے رہنے والے یہاں آ کر نہ بس گئے ہوں،بلکہ اس سے بھی آگے جائیں تو سرکاری و نجی اداروں کی سیٹوں پر براجمان لوگوں میں اب شاید ہی کوئی لاہوریا دکھائی دے۔آبادی کا یہ بے ہنگم اور بے جا ہجوم وہ بنیادی اور پہلی وجہ ہے، جس کے ساتھ دراصل دیگر تمام مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ان سب لوگوں کے لئے روزگار کی فراہمی، رہائش کا انتظام اور ذرائع آمد و رفت مل کر بہت سے مسائل کو عرصہ دراز سے جنم دیتے چلے آ رہے ہیں۔دنیا میں شہروں کی آبادی کو ایک خاص حدسے زیادہ بڑھنے نہیں دیا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور ترقیاتی کاموں میں امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے، جس کے سبب ہر بنیادی سہولت ہر ٹاؤن میں مہیا کر دی جاتی ہے، جس کے سبب آبادی کی نقل و حرکت انتہائی ضرورت کے تحت ہی ہوتی ہے۔ بڑے تعلیمی اداروں کا لاہور میں ہونا بھی دوردراز کے طلبا کو اس شہر میں ہجرت پر مجبور کر تا ہے۔اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طلباو طالبات بھی اس شہر میں اپنی تعلیمی ضرورتوں کے لئے آتے ہیں جو دراصل انھیں ان کے قریب ہی میسر آنی چاہئے۔بے انتہا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کیمپسز جن میں داخلے کے لئے محض پیسے ہونا ہی کافی ہے یہاں ہجوم کے اندر ایک اور ہجوم کو شامل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گھروں اور کرائے کی بلڈنگوں میں کھلے ہوئے سکول جن کے پاس نہ تو سکو ل کے تقاضوں کو پورا کرنے والی عمارتیں ہیں نہ بچوں کو دینے کے لئے ٹرانسپورٹ ہے اور یوں صبح دوپہر گاڑیوں کی لگی لمبی قطاریں اور ان سے نکلتا دھواں فضاء کو آلودہ کرتا چلا جا رہا ہے۔

ہراسانی سے تنگ آکر اداکارہ کی خودکشی ، بھارتی اداکار کو گرفتار کرلیاگیا

لاہور کے اردگرد اور اندرون شہر پھیلے ہوئے سبزے اور درختوں کو جس طرح رہائشی سوسائٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے اس نے فضاء میں موجود رہی سہی آکسیجن کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ ہم نے کالونیاں بنا بنا کر مال تو بنا لیا، لیکن اپنا مستقبل اور حال داؤ پر لگا دیا۔ سبزے اور زرعی زمینوں پر بننے والی یہ رہائشی کالونیاں ہماری کم عقلی کا ماتم کر رہی ہیں۔ دنیا میں شہروں کے اندر گاڑیوں کی تعداد کو بھی ایک خاص حد تک رکھا جاتا ہے، لیکن یہاں کوئی حد تجاوز ہے ہی نہیں اور ہم دھڑا دھڑ سڑکوں کو ان سے بھرتے چلے جا رہے ہیں۔اس پر موٹر سائیکلوں، رکشوں اور غیر رجسٹرڈ ٹرانسپورٹ کا ایک بے ہنگم شور ہے جو دراصل لاہور کی اس حالت کا سبب بن رہا ہے۔ ابھی بھی ہم انڈسٹریوں، بھٹوں اور اس طرح کی دیگر ماحولیات کش چیزوں کو شہر سے باہر منتقل نہیں کر پائے۔ اسی طرح ترقیاتی کامو ں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو الگ سے ماحول کو گرد آلود کئے رکھتا ہے۔ لاہور کے اندر اور باہر چاروں اطراف پل اور سڑکیں بننے کا کام جاری ہے جس کو ایک ترتیب اور سلیقے سے کرنے کی ضرورت ہے کہ فضا میں ایک ساتھ ہی ہرطرف گردو غبار کے طوفان جمع نہ ہو سکیں۔ لاہور معاشی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے اور باہر سے آنے والوں کے لئے شہر سے باہر گاڑیوں کی پارکنگ اور وہاں سے اہم تجارتی مراکز کی طرف شٹل سروس شروع کرنے سے ٹریفک کا آدھا بہاؤ تھم سکتا ہے۔ دوسرے علاقو ں سے یہاں آباد ہونے والوں کے لئے ایک نیا شہر قرب وجوار میں ہی آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کو طلبا کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے سے قبل لائسنس نہ دیاجائے۔ نئی کالونیوں اور خصوصا زرعی زمینوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کر دی جائے۔ ہر طرح کی غیر رجسٹرڈ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں رکشوں کو بند کر کے ان کے لئے کسی مناسب کاروبار کا انتظام کر دیا جائے اور وہ کسی تعمیری،عملی اور ہنر وری کے کام میں حصہ لے سکیں۔ہر چندیہ کام مشکل تو ہیں، لیکن مشکل کام بھی قومیں ہی کرتی ہیں انہیں شروع تو کیا جائے ورنہ یہاں آئے دن چھٹیوں کے نوٹس جاری ہوتے رہیں گے اور ہم کیمیکل زدہ بارش برسا کر پھر بارش کے پانی سے دور رہنے کی ہدایات جاری کرنے میں لگ جائیں گے۔خدارا لاہور کو سانس لینے دیں۔۔۔

سوشل میڈیا ٹرول نے گھٹیا تبصرے سے شاہ رخ خان کو بھی غصہ دلا دیا

QOSHE -       لاہور کو سانس لینے دیں  - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      لاہور کو سانس لینے دیں 

7 0
09.12.2023

لاہور شہر تہذیبی، ثقافتی، علمی،ادبی اور سیاسی حوالوں سے کئی امتیازات کا حامل ہے، لیکن اب اس کا ایک نیا تعارف سموگ کے حوالے سے دنیا کے سامنے آیا ہے، جس کے سبب یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔یہ پھولوں باغوں اور خوشبوؤں کا شہر ہماری غلط منصوبہ بندی اور بے توجہی کے سبب ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا مسکن بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے ہماری طویل لاپرواہی، کج فہمی اور مسائل سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی عدم صلاحیت عکس ریز ہے۔ اس وقت بھی ہم اس سے نپٹنے کے لئے تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کو روک دینے کا اعلان کر دیتے ہیں، کبھی ماسک کی پابندی کی بات کرنے لگتے ہیں، کبھی مصنوعی بارش برسانے کی نوید سنانے لگتے ہیں اور اس طرح کے جز وقتی اقدامات کر کے سر پر آئی چلتی ٹرین کو ہاتھوں سے روکنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جو اس بدترین آلودگی کا سبب ماضٰی میں بھی بنے اور اب بھی ان کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سب سے اہم معاملہ شہر کی آبادی کا حد سے بہت زیادہ تجاوز ہے، جس کے لئے سرے سے نہ کوئی پلاننگ ماضی میں کی گئی اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لئے اب کوئی خاطرخواہ پیش رفت کی جار ہی ہے۔

اینیمل میں بوبی دیول کے کردار پر ان کی والدہ پرکاش کور کا موقف بھی آگیا

معاشی سرگرمیوں کے مراکز شہر ہمیشہ لوگوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play