پاکستان کے اکثر مسائل کا سبب اور باعث بیوروکریسی کو قرار دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیے، ہمیشہ ملک کے مفاد میں فیصلے کرنا چاہئیں اور یہ کہ بیوروکریسی کو سیاسی دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ فیصلے کرتے وقت بیوروکریسی کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2018 میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسروں نے وزیر اعظم سے شکایت کی تھی کہ نیب اہلکار انہیں بد عنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کر رہے ہیں، اس معاملے کا اہم نکتہ نیب قانون کے تحت نیب حکام کو ملنے والے اختیارات ہیں جو انہیں کسی بھی سرکاری افسر پر شک ہونے کی صورت میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے، ان کے دفاتر اور گھروں پر چھاپے مارنے سے متعلق ہیں، ان افسروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب افسروں بدعنوانی اور بے قاعدگی میں فرق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نیک نیتی سے کیے گئے بعض فیصلوں کو بھی بد عنوانی کے طور پر لے رہے ہیں جس سے افسروں میں کام کرنے کا شوق ختم ہو رہا ہے۔

چین نے افغان حکومت کو ہمسایہ ممالک سے متعلق اہم مشورہ دے دیا

تب بھی بیوروکریٹس کی ان شکایات کا ازالہ نہیں ہو سکا تھا لیکن اب اس معاملے کو لے کر پنجاب میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کے صوبے کی گورننس پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات قوی ہیں،ایک تو یہ ہوا کہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کے اختیارات محدود کرنے کے حوالے سے ایک آرڈنینس جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اینٹی کرپشن حکام سیکشن 3A کے تحت کسی افسر کے خلاف انفارمیشن یا شکایت مو صول ہونے پر اس کی ابتدائی چھان بین کریں گے جس میں معلومات فراہم کرنے والے شخص کی شناخت اور شکایت میں لگائے گئے الزامات کی سچائی کا جائزہ لیا جائے گا۔ ابتدائی چھان بین کے بعد ڈائریکٹر جنرل انٹی کرپشن فیصلہ کرے گا کہ کریمنل کیس بنتا ہے یا نہیں، اگر ڈی جی یا اینٹی کرپشن حکام ابتدائی انکوائری کے بعد یہ سمجھیں کہ کسی سرکاری ملازم کے خلاف شکایت کی بنیاد پر کریمنل کیس بنتا ہے تو گریڈ 1 سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے ان کے تقرر کرنے والی اتھارٹی سے اجازت لینا ضروری ہو گی۔ آرڈنینس 2023 کے تحت چیف سیکرٹری کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ اپنی تسلی کے لیے کسی بھی کیس کی ابتدائی انکوائری رپورٹ، خواہ وہ زیر التوا ہو یا مکمل ہو چکی ہو، کے درست ہونے، ڈی جی یا دیگر اینٹی کرپشن حکام کی طرف سے دیئے گئے احکامات کی قانونی حیثیت کے بارے میں مناسب احکامات جاری کر سکے،اور اب چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے پنجاب کی بیوروکریسی کو یقین دلایا ہے کہ مستقبل میں کسی افسر کا میڈیا ٹرائل نہیں ہو گا، جبکہ نیک نیتی اور مفاد عامہ کے کیسوں میں افسروں سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی، چیئرمین نیب نے یہ بھی یقین دلایا کہ وہ مستقبل میں بے نامی درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کریں گے تمام کیسز پہلے چیف سیکرٹری کی سطح پر زیر بحث آئیں گے پھر آگے بڑھیں گے۔

پی ٹی آئی اور بانی الیکشن میں حصہ لے سکتےہیں, نگراں وزیراعظم

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنی اعلیٰ اور اہم پیش رفت ہے، مسئلہ یہ تھا کہ اعلیٰ افسروں کو گرفتار پہلے کر لیا جاتا تھا اور ان پر لگنے والے الزامات کی انکوائری بعد میں ہوتی تھی، گرفتاری کے دوران اور دورانِ تفتیش ان کے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا جاتا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہوتا تھا جس سے ان کا ایک منفی امیج عوام میں قائم ہو جاتا تھا، بعد میں تفتیش کے دوران پتا چلتا کہ لگائے گئے الزامات غلط تھے لہٰذا با عزت بَری کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ با عزت برّیت نہیں ہوتی تھی، جھوٹے اور غلط الزامات کے تحت جس طرح ٹرائل کیا جاتا تھا ان سے بَری ہونے والے افسروں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچ چکا ہوتا تھا اس کا ازالہ کہیں سے نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی یہ ممکن تھا۔ماضی میں فواد حسن فواد،احد خان چیمہ،عثمان انوراور کئی دوسرے اعلیٰ افسروں کے ساتھ نیب نے جو سلوک کیا تھا اس نے اس وقت ان افسروں کے کردار کو مشکوک بنا دیا مگر بعد ازاں ان تینوں میں سے کسی پر بھی کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا، کیا کسی نے نیب سے پوچھا کہ اس نے یہ کیوں کیا؟ اب بھی افسروں کی یہ شکایت غلط نہیں ہے کہ اگر کابینہ کی منظوری کے بعد پیسے ملتے ہیں اور پروجیکٹس پر خرچ ہوتے ہیں تو انکوائریاں لگا دی جاتی ہیں، افسروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم حکومت کی طرف سے دیئے گئے فنڈز کو خرچ نہ کریں اور وہ لیپس ہو جائیں تو حکومت نکما کہتی ہے اور خرچ کریں تو نیب انکوائری لگا دیتا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

بیوروکریسی کی زیادہ تر شکایات کا اب ازالہ کر دیا گیا ہے، کسی بیوروکریٹ کے خلاف اعلیٰ اتھارٹی سے اجازت لیے بغیر اور لگائے گئے الزامات کی مکمل انکوائری کے بغیر مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکے گا، اس طرح بیوروکریسی کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر عوام اور وطن کی خدمت کر سکیں،یہ کھلی چھوٹ اچھی بات ہے ایسا ہونا چاہیے تھا کیونکہ کسی افسر کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ہی وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے گا لیکن یہ کھلی چھوٹ اپنے ساتھ بہت سی پابندیاں اور بہت سے فرائض بھی لے کر آئی ہے۔ اب بیوروکریسی کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں رہے تو اعلیٰ افسروں کی کارکردگی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی بہانہ یا جواز کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو گا، ضروری ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے اور اپنے طرز عمل پر بھی نظر ثانی کر ے۔

آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران موسم کیسا رہے گا ؟ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی

شکایات صرف بیوروکریسی کو ہی نہیں عوام کو بھی ہیں کہ بیوروکریٹس کا رویہ عام لوگوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا، اب اس کھلی آزادی کے بعد انہیں لوگوں کے ساتھ اپنا رویہ بہتر بنانے کی بھی ضرورت پیش آئے گی، لوگوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ ان کے کام بروقت اور مناسب انداز میں نہیں کیے جاتے، ان کے کاموں کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، انہیں تنگ کرنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کا وقت ضائع کیا جاتا ہے، انہیں چکر پر چکر لگوائے جاتے ہیں۔

اب اگر بیوروکریٹس کے ہاتھ کھول دیئے گئے ہیں تو انہیں بھی عوام کے لیے اپنے دروازے کھولنے چاہئیں اور تہ دل سے عوام کی خدمت کرنی چاہیے، لوگوں کو بیوروکریسی کی سست روی سے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس سستی اور سست روی کو ختم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، توقع کی جاتی ہے کہ بیوروکریسی کو ملنے والی آزادی اور چھوٹ کے اثرات جب عام لوگوں تک پہنچیں گے تو نہ صرف ان کے کام آسانی سے ہونا شروع ہو جائیں گے بلکہ اس گڈ گورننس کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا جس کا خواب اس ملک کے عوام اور ہمارے سیاست دان اب تک اپنی آنکھوں میں بسائے بیٹھے ہیں۔

شمالی کوریا کے سربراہ کی ملکی خواتین سے ’’رو رو ‘‘ کر زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل

QOSHE -          بیوروکریسی اب اپنا رویہ بدلے - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         بیوروکریسی اب اپنا رویہ بدلے

18 0
07.12.2023

پاکستان کے اکثر مسائل کا سبب اور باعث بیوروکریسی کو قرار دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیے، ہمیشہ ملک کے مفاد میں فیصلے کرنا چاہئیں اور یہ کہ بیوروکریسی کو سیاسی دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ فیصلے کرتے وقت بیوروکریسی کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2018 میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسروں نے وزیر اعظم سے شکایت کی تھی کہ نیب اہلکار انہیں بد عنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کر رہے ہیں، اس معاملے کا اہم نکتہ نیب قانون کے تحت نیب حکام کو ملنے والے اختیارات ہیں جو انہیں کسی بھی سرکاری افسر پر شک ہونے کی صورت میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے، ان کے دفاتر اور گھروں پر چھاپے مارنے سے متعلق ہیں، ان افسروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب افسروں بدعنوانی اور بے قاعدگی میں فرق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نیک نیتی سے کیے گئے بعض فیصلوں کو بھی بد عنوانی کے طور پر لے رہے ہیں جس سے افسروں میں کام کرنے کا شوق ختم ہو رہا ہے۔

چین نے افغان حکومت کو ہمسایہ ممالک سے متعلق اہم مشورہ دے دیا

تب بھی بیوروکریٹس کی ان شکایات کا ازالہ نہیں ہو سکا تھا لیکن اب اس معاملے کو لے کر پنجاب میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کے صوبے کی گورننس پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات قوی ہیں،ایک تو یہ ہوا کہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کے اختیارات محدود کرنے کے حوالے سے ایک آرڈنینس جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اینٹی کرپشن حکام سیکشن 3A کے تحت کسی افسر کے خلاف انفارمیشن یا شکایت مو صول ہونے پر اس کی ابتدائی چھان بین کریں گے جس میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play