دسمبرکے زخم
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو پتہ نہیں کیوں مجھے عرش صدیقی کی ایک آزاد نظم کا یہ حصہ بے طرح یاد آ جاتا ہے:
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جائے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کے کہرے دیواروں میں لرزاں ہیں
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
چین نے افغان حکومت کو ہمسایہ ممالک سے متعلق اہم مشورہ دے دیااسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
دسمبر واقعی ایک رومان آمیز‘ رومان آموز اور رومان پرور مہینہ ہے۔ اس کے شروع ہوتے ہی جسم و جاں کی عجیب حالت ہو جاتی ہے۔ گزرے ہوئے دن یاد آنے لگتے ہیں اور آنے والے وقت کے اندیشے دل میں نئے خدشات پیدا کرنے لگتے ہیں۔ بندہ سوچتا ہے‘ ایک سال اور گزر گیا‘ ایک سال اور بیت گیا‘ زندگی ایک سال اور کم ہو گئی‘ لیکن میں نے اس ایک سال میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ پھر یک لخت خیال آتا ہے کہ پایا کم شاید کھویا زیادہ ہے۔ نئے سال کا نیا دن شروع ہوتا ہے تو دل و دماغ میں ایک نیا جوش ایک نیا ولولہ ہوتا ہے کچھ نیا کر گزرنے کا عزم جواں ہوتا ہے لیکن دسمبر شروع ہوتے ہی پتہ نہیں کیوں ایک یاسیت سی چھا جاتی ہے۔ ایک موہوم سی‘ بے نام سی اداسی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website