دنیا کے سب سے باکمال الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ شام 7 بجے سے رات 12 بجے اس الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے جو دو ماہ چار دن بعد ہونے ہیں۔ اسی الیکٹرانک میڈیا پر یہ بیانیہ بھی ”کچھ“ اینکر پروموٹ کر رہے ہیں کہ ”کیا“ الیکشن 8 فروری کو ہی ہوں گے۔ الیکشن میں ابھی دو ماہ سے زیادہ ہونے کے باوجود صرف پنجاب سے140سیٹوں میں سے125کے حصول کا دعویٰ بظاہر دیوانے کی بڑ لگتا ہے، مگر گزشتہ سوا مہینے میں رونما ہونے والے واقعات یہ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ اب وہی ہوگا جو ”وہ“ چاہیں گے۔ اس کے باوجود نجانے ”انہیں“ اور ان کے ”جوتے“ پہن کر آنے والوں کو اطمینان نہیں ہو رہا، لہٰذا ہر ”رکاوٹ“ کو ہٹانے کے لئے وہ کچھ بھی کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی 53 سالہ جمہوری تاریخ میں نہ دیکھا نہ سنا، ایسا لگتا ہے ہمیں اپنی ”رخصتی“ سے پہلے اس ملک میں اک نئی ”جمہوریت“ دیکھنے کو ملے گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور دنیا کے تمام جمہوری ”کہلانے“ والے ممالک کو ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے۔ پاکستان کی بیشتر (ایک کے سوا) سیاسی جماعتیں کافی عرصہ پہلے ”حکم حاکم مرگ مفاجات“ کو مقدر تسلیم کرکے ”طاقتور“ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہیں، البتہ جمہوریت کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔ 53 سالہ جمہوریت کی سب سے پرانی پارٹی (مسلم لیگ ن سے معذرت ،میں اسے قائد اعظم کی جماعت نہیں سمجھتا یہ میرے نزدیک قائداعظم ثانی کے نام سے پکارے جانے والے ہمارے لیڈر محترم کی مسلم لیگ ہے) دراصل پیپلز پارٹی ہے، جس کے نوجوان لیڈر نے ”نظام سے بغاوت“ کی کوشش کرنے کی غلطی کی ہے اور ان کے ”بزرگ“ انہیں آج کل یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ میری (سوری ہماری) غلطی مت دہراؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔

امیر لڑکا دھوکے باز لڑکی کی محبت میں منلگ بن گیا , گاڑیاں ، بنگلے چھوڑ کر سڑک پر زندگی گزارنے لگا , فقیر لڑکے کی آواز نے سب کے ہوش اُڑا دیے

بلاول بھٹو کو اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی وہ ”غلطی“ یاد رکھنی چاہئے، جس کا کفارہ انہوں نے (لیاقت سٹیڈیم) پنڈی کے باہر سڑک پر ادا کیا تھا۔ ایسا کفارہ جس کی تحقیقات کی ان کے والد محترم بطور صدرِ مملکت بھی جرأت نہیں کر سکے تھے۔ آصف زرداری نے سندھ میں ”کچھ اقدامات“ پر برا فروختہ ہوکر ایک جذباتی بیان داغا تھا۔ ایک ایسا بیان جس کی ان جیسے ”ٹھنڈے یا بہتر الفاظ میں مفاہمت پسند“سیاستدان سے توقع نہیں تھی۔ آصف زرداری کو اس بیان کے بعد دوبئی مقیم ہونا پڑا اور پھر ”ان“ کو ہاتھ پیر جوڑ کر منانا بھی پڑا۔ صدر پی پی پی پی آصف علی زرداری نہیں چاہتے کہ ان کے صاحب زادے ایک خاص حد سے آگے بڑھیں اور ”کیرئیر“ کے آغاز میں ہی انہیں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے، اسی لئے ”بزرگ“ زرداری کو اپنے جوان بیٹے کو سمجھانے کے لئے میدان (معذرت ٹی وی سیٹ) میں اترنا پڑا۔

کیا آپ اتنا رو رو کر کمزور ہو گئے ہیں؟مبینہ غیر شرعی نکاح کیس میں جج کا گواہ سے استفسار

بلاول بھٹو نے جو ”گند ڈالا“ (بلاول بھٹو سے معذرت ) تھا اس نے آصف زرداری کو مجبور کیا کہ وہ کہیں جو وہ نہیں کہنا چاہتے۔ بلاول نے صرف یہی کہا تھا کہ پہلے عمران خان نیازی سلیکٹڈ تھے اب لندن سے آنے والے سلیکٹ کر کے لائے گئے ہیں۔ بلاول نے بس یہی تو کہا تھا کہ پنجاب نگران حکومت غیر جانبدار نہیں ہے اور پنجاب میں ٹرانسفر پوسٹنگ مسلم لیگ(ن) کروا رہی ہے۔ صحیح یا غلط یہ بلاول کی رائے تھی جو اپنے نانا، نانی اور والدہ کا جانشین ہے۔ بلاول زرداری کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے بھی مسائل تھے۔ بلاول کا بزرگوں کو بلکہ تین چار بار حکومت کا مزا لینے والوں کو آرام کرنے اور ایک خاص بزرگ کو مدرسے تک محدود ہونے کے جو مشورے دئیے اس کی بھی تکلیف خاصی محسوس کی گئی۔ بلاول نے ن لیگ کو مہنگائی لیگ اور شوباز شریف کے خطابات بھی دے ڈالے،مگر بلاول بھٹو کے بیانات کا برا منایا گیا۔ آصف زرداری کو ان حالات میں پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل جو برادران کا خیر خواہ ہے پر ایک بڑے اینکر کے سامنے ہاٹ سیٹ سنبھالنا پڑی اور پھر وہ وضاحتیں میں جو بعد میں ان کے لئے سنبھالنا مشکل ہوا کہ ”مخالفین“ نے اپنے ”میڈیا پرسنز“ کے ذریعے وہ”گرد اڑائی“ کہ الامان۔

لاہور میں گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری کا ایک اور سکینڈل سامنے آگیا

ہر ٹی وی چینل پر بزرگ زرداری کے انٹرویو کو بلاول بھٹو کے خلاف چارج شیٹ بنا دیا گیا۔ صدر زرداری نے بھی ”دانستہ یا نا دانستہ“ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ تماشہ لگ گیا۔ صدر زرداری نے بیٹے کے بارے کہا کہ آج کی اولاد تو کہتی ہے ”پاپا یو نو تھنکینگ“۔نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے پنجاب حکومت پر کئے گئے کمنٹس پر بزرگ زرداری نے کہا کہ محسن نقوی آج بھی بیٹا ہی ہے۔

آصف زرداری نے اپنے انٹرویو سے ”ان“ کو راضی تو کر لیا، مگر اپنا اور اپنے بیٹے کا تمسخر خوب اڑوایا۔ آصف زرداری اپنی مفاہمتی پالیسی کے لئے مشہور ہیں، ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ مستقبل میں آنے والی مشکلات کا اندازہ کر لیتے ہیں۔انہوں نے ”مشکل وقت اور آنے والی سختیوں“ کے مدنظر بیٹے کے ساتھ تعلقات خرابی کا منظر نامہ دکھا کر ”وقت گزارا“ ہے۔ اس کی قیمت ان کی پارٹی نے ادا کرنی ہے۔

پی ایس ایل سیزن 9 میں ریکارڈ توڑ غیر ملکی کھلاڑیوں نے رجسٹریشن کروالی ، فہرست سامنے آ گئی

سیاست میں مفاہمت فائدے کے لئے کی جاتی ہے۔ بزرگ زرداری کی مجبوری میں کی گئی مفاہمت کی قیمت کیا سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہوگی۔ یہ وقت بتائے گا۔”ساڈی گل ہو گئی اے“ کہنے والے اس وقت اپنی اور ”ان“ کی تمام تر طاقت اور بزرگ زرداری کے ”بظاہر سرنڈر“ کے باوجود بالکل ”کمفرٹیبل“ نہیں ہیں۔ بلاول ابھی بھی سرنڈر کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ وہ پنجاب میں ”کھلا میدان“ چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے بس مقابلے کی اجازت دے دیں۔بلاول بھٹو کے پی کے میں محنت کر رہے ہیں اس ہفتے شانگلہ، لوئر دیر،کوہاٹ اور پشاور کے جلسوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کچھ الیکٹیبلز شامل کر آئے ہیں لیکن پنجاب میں ن لیگ نزدیک نہیں آنے دے رہی۔ اب تو ن لیگ کے ”پروفیسر“ نے بھی کہہ دیا ہے کہ بلاول پنجاب میں ہمارا مخالف ووٹ چاہ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جان میاں نواز شریف کے ان کیسوں میں اٹکی ہوئی ہے جو ابھی عدالتوں سے ”معاف“ ہونے ہیں۔ معاملات ابھی حل نہیں ہوئے،مگر شور مچایا جا رہا ہے ریزلٹ آگیا ہے۔ مسلم لیگ ن ابھی بلاول کے ”خوف“ سے باہر نہیں نکلی اگر اڈیالہ جیل والے کی جماعت کو بھی موقع مل گیا۔ تو پھر قوم بتائے گی ریزلٹ کیسے بدلے گا۔

لباس تبدیل کرلیں، ثنا جاوید کے ایک ہی لباس پہننے پر ناظرین سیخ پا ہوگئے

QOSHE -     ریزلٹ آ گیا۔۔۔ہم جیت گئے۔۔۔ - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ریزلٹ آ گیا۔۔۔ہم جیت گئے۔۔۔

7 1
05.12.2023

دنیا کے سب سے باکمال الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ شام 7 بجے سے رات 12 بجے اس الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے جو دو ماہ چار دن بعد ہونے ہیں۔ اسی الیکٹرانک میڈیا پر یہ بیانیہ بھی ”کچھ“ اینکر پروموٹ کر رہے ہیں کہ ”کیا“ الیکشن 8 فروری کو ہی ہوں گے۔ الیکشن میں ابھی دو ماہ سے زیادہ ہونے کے باوجود صرف پنجاب سے140سیٹوں میں سے125کے حصول کا دعویٰ بظاہر دیوانے کی بڑ لگتا ہے، مگر گزشتہ سوا مہینے میں رونما ہونے والے واقعات یہ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ اب وہی ہوگا جو ”وہ“ چاہیں گے۔ اس کے باوجود نجانے ”انہیں“ اور ان کے ”جوتے“ پہن کر آنے والوں کو اطمینان نہیں ہو رہا، لہٰذا ہر ”رکاوٹ“ کو ہٹانے کے لئے وہ کچھ بھی کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی 53 سالہ جمہوری تاریخ میں نہ دیکھا نہ سنا، ایسا لگتا ہے ہمیں اپنی ”رخصتی“ سے پہلے اس ملک میں اک نئی ”جمہوریت“ دیکھنے کو ملے گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور دنیا کے تمام جمہوری ”کہلانے“ والے ممالک کو ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے۔ پاکستان کی بیشتر (ایک کے سوا) سیاسی جماعتیں کافی عرصہ پہلے ”حکم حاکم مرگ مفاجات“ کو مقدر تسلیم کرکے ”طاقتور“ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہیں، البتہ جمہوریت کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔ 53 سالہ جمہوریت کی سب سے پرانی پارٹی (مسلم لیگ ن سے معذرت ،میں اسے قائد اعظم کی جماعت نہیں سمجھتا یہ میرے نزدیک قائداعظم ثانی کے نام سے پکارے جانے والے ہمارے لیڈر محترم کی مسلم لیگ ہے) دراصل پیپلز پارٹی ہے، جس کے نوجوان لیڈر نے ”نظام سے بغاوت“ کی کوشش کرنے کی غلطی کی ہے اور ان کے ”بزرگ“ انہیں آج کل یہ سمجھانے میں مصروف........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play