عصر حاضر اور ترجیحات
کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا کوئی خاص مقصد اور غرض و غایت ہوتی ہے۔ بے مقصد کام کرنے والے در بدر ہو جاتے ہیں، بلکہ ایک وقت آنے پر بھولی بسری داستان بن جاتے ہیں۔ داستان کے سارے کردار اسی لئے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ دنیا کی رعنائی اور خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے اللہ تعالی نے اس جہان رنگ و بو میں ہر شخص کا کردار متعین کیا ہے اور اب ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کر کے راہی ملک عدم ہونا ہے۔ تمام ممالک شاید اسی لئے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ متحرک فعال اور ہوش مند افراد اپنے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنا دیتے ہیں اور نالائق، نابکار اور ناہنجار باشندے اپنی دھرتی ماتا کا سودا کرنے کے مکروہ دھندے سے بھی باز نہیں آتے۔ دھندہ کرنے والوں کا تو فطرت بھی محاسبہ کرتی ہے۔ قانون فطرت کی آنکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اب جا بجا پوری دنیا میں کیمرے لگا کر اوپر تحریر کردیا جاتا ہے کہ آپ کو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ ویسے تو انسان کی آنکھ بھی دیکھ رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے انسان نے مصلحت کی عینک لگا لی ہے۔ یہی وجہ ہے ہمیں دھندلا نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ کاش ہم دل کی آنکھ کو کھولنے میں کامیاب ہو جاتے۔ تاہم ہمارے دِلوں کو نیک نیتی کے بائی پاس کی اشد ضرورت ہے اور اس سارے کام کو کرنے کے لئے روحانیت کے ڈاکٹروں کی شدید قلت ہو گئی ہے، بلکہ یہ طبقہ تقریبا ناپید ہو چکا ہے۔ ویسے عطائی معالج آپ کو تھوک کے حساب سے مل جائیں گے، نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ اقبال کا فلسفہ خودی بحث وتمحیص میں مکمل طور پر دب چکا ہے۔ خود آگاہی کے بارے میں آگاہی مہم چلانے کا وقت ہے افسوس ہم فلسفہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website