وطنِ عزیز پاکستان میں شام وسحر مشکل ترین حالات میں معاشرتی امن وامان کے استحکام کیلئے پولیس کی خدمات ملکی وصوبائی اور علاقائی سطح پر قربانیاں اور جدوجہد روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ہزاروں پولیس ملازمین وافسران فرض کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ پولیس فورس نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں میدانِ کارزار میں فرائض کی ادائیگی نہایت جوانمردی اور تندہی سے کرکے عزم وہمت کی لازوال مثالیں رقم کی ہیں۔ مذہبی تہوار ہوں یا خوشی اور غم کی کیفیت، ہنگامی حالات ہو ں یا منتشر جتھوں سے امن کی فضاء کو محفوظ رکھنا ہو پولیس ہمیشہ اگلے مورچوں پر نظر آتی ہے۔ آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ان کی ٹیم جنہوں نے سپاہ کی ویلفیئر کا بیڑہ اٹھایا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس نہایت پروفیشنل، دیانتدار اور کہنہ مشق پولیس آفیسر کے طور پر نہایت مثالی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ محکمہ پولیس میں کمانڈر کا کردار عملی طور پر انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پولیس فورس کا مکمل دارومدار کمانڈر کے گرد گھومتا ہے جس کی بروقت دستیابی ہی امتحانوں سے پار لگاتی ہے۔ دسمبر کی یخ بستہ راتیں ہوں یا جون کی تپتی دوپہریں، ڈاکٹر عثمان انور کاماضی اْن کے پروفیشنلزم اور ماتحت دوست اقدامات کا شاہد ہے۔آئی جی پولیس نے فورس کی سربلندی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں لاہور میں امن وامان کی خراب صورت حال اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح جو کنٹرول ہونے کانام نہیں لے رہی تھی لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کی بہتر حکمت عملی کے پیش نظر اب صورت حال کافی حوصلہ افذا ہ ہے ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق لاہور میں جرائم کی شرح میں 30 سے40فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنا پولیس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن یہاں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پولیس افسران اپنی ذمہ داری سے غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں یہی لاپرواہی جرائم میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آجکل پولیسنگ نظام تو سیف سٹی کیمروں،الیکٹرونک میڈیا، اخبارات اور سو شل میڈیا کی صورت میں گلی محلوں اور دیہات تک رسائی حاصل کر چکا ہے لیکن جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے پولیس نظام میں مؤثر بہتری کی نوید کئی بار سنائی دی گئی مگر ڈھاک کے تین پات پولیس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ پرنالہ اپنی جگہ موجود ہے اور کارکردگی روزبروز گھمبیر صورتحال اختیار کیوں کر جاتی ہے،حقیقت میں پولیس کوہی معاشرے سے جرائم کے خاتمے،امن کے قیام اور قانون کی بالا دستی کے لیے اپنامتعین کردار ادا کرناچاہیے لیکن اس ادارے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گیرائی اور گہرائی پیدا ہوئی ہے،کوئی بھی اور ادارہ اس کی جگہ تو نہیں لے سکا ہاں البتہ سہولت کاری کے لیے ریاست کے مختلف ادارے‘ پولیس کی معاونت کی ذمہ داریاں ضرور نبھاتے ہیں ایک عرصے سے جنگ و جدل کی آماجگاہ بنے پاکستان میں پولیس کی ذمہ داریوں میں معتدبہ اضافہ ہوگیا ہے یہ علیٰحدہ بات ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس قومی ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی، قوانین میں تبدیلی،میرٹ کی بالادستی،تربیت کی مناسب سہولتیں،آزاد ی عمل اور پوسٹنگ اور ٹرانسفرز میں اشرافیہ اوربر سر اقتدار طبقات سے وہ آزادی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی معاشرے کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے اور اسی المیے کی طرف میڈیا گاہے بگاہے حکومت کی توجہ دلاتا رہتا ہے۔پولیس کا مورال اس قدر گر چکا ہے کہ آج بھی جب کوئی بڑا سانحہ پیش آجائے تو امن قائم رکھنے کے لیے رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں کا سہارا لینا پڑاتا ہے۔پولیس ایکٹ 1861ء میں تبدیلی وقت کا تقاضا ہے تا کہ محکمہ کو انتظامی لحاظ سے خود مختار اور فعال بنایا جاسکے کیونکہ ڈیڑھ صدی پرانے ایکٹ کے ذریعے آج کے جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ہماری خواہش ہے کہ پولیس کو فورس کی بجائے دیگر آزاد قوموں کی طرح پاکستان میں بھی خدمت گارادارہ بنایا جائے۔پنجاب میں پہلی بار اس فورس کو خدمت گار ادارہ بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے درجنوں سہولت سنٹر اور خدمت مرکز قائم کردیے گئے ہیں۔چینی وفد جو پاکستان کے دورے پر ہے آئی جی آفس میں آمد کے وقت انہوں نے پنجاب پولیس کی طرف سے مختلف پراجیکٹس پر مامورچینی ماہرین کو بہترین سیکورٹی فراہم کرنے پرپنجاب پولیس کے اقدامات کو سراہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس چوبیس گھنٹے اس ادارے کی سربلندی کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں کبھی وہ آئی جی آفس آنے والے مختلف وفود سے ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں،کبھی وہ کچہ آپریشن میں جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اگلے مورچوں پر خود کھڑے نظر آتے ہیں۔وہ ہر ہفتے پولیس ملازمین کی ویلفیئر کے لیے بھی فنڈز کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔آئی جی پولیس کی ہدایت پر ہی ٹریفک کے نظام کو موثر بنانے کا سوچا گیا ہے آج چھٹی کے روز بھی سیکڑوں افراد آپ کو خدمت مراکز میں اپنے ڈرائیونگ لائسنس بنواتے نظرآرہے ہیں یہ سب ان کی سوچوں کا کمال ہے ایک رپورٹ کے مطابق لاہور سمیت صوبہ بھر میں ہیلمٹ نہ پہننے اوربغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں کے خلاف 22لاکھ 65ہزار سے ذائد چالان کیے گئے ہیں جبکہ 12 لاکھ 34ہزار موٹر سائیکلوں کو بند کیا جا چکا ہے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ بے مہار موٹر سائیکل سواروں کو بھی قانون کے تابع بنایا جاسکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے افسران چاہے وہ کسی بھی شعبے سے وابسطہ ہیں اب ان کی نمایاں کارکردگی نے پولیس فورس میں جان ڈال دی ہے۔آج لاہور میں اگر جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے تو اس کا کریڈٹ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عمران کشور اور ان سے جڑے ہوئے افسران کو جاتا ہے۔آج یہ کریڈٹ آرگنائزڈ کرائم کے سربراہ کیپٹن لیاقت ملک کو جاتا ہے آج یہ کریڈٹ ڈی آئی جی آپریشنز سید علی ناصر رضوی کو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر آج یہ کریڈٹ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ اور پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی محنت سے شہر کو امن کا گہوارہ بنایا ہے۔

آئندہ 24 گھنٹوں کے ودران ملک میں موسم کیسا رہے گا ؟

QOSHE -     پولیس کو وسائل دینے کی ضرورت  - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    پولیس کو وسائل دینے کی ضرورت 

10 0
04.12.2023

وطنِ عزیز پاکستان میں شام وسحر مشکل ترین حالات میں معاشرتی امن وامان کے استحکام کیلئے پولیس کی خدمات ملکی وصوبائی اور علاقائی سطح پر قربانیاں اور جدوجہد روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ہزاروں پولیس ملازمین وافسران فرض کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ پولیس فورس نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں میدانِ کارزار میں فرائض کی ادائیگی نہایت جوانمردی اور تندہی سے کرکے عزم وہمت کی لازوال مثالیں رقم کی ہیں۔ مذہبی تہوار ہوں یا خوشی اور غم کی کیفیت، ہنگامی حالات ہو ں یا منتشر جتھوں سے امن کی فضاء کو محفوظ رکھنا ہو پولیس ہمیشہ اگلے مورچوں پر نظر آتی ہے۔ آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ان کی ٹیم جنہوں نے سپاہ کی ویلفیئر کا بیڑہ اٹھایا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس نہایت پروفیشنل، دیانتدار اور کہنہ مشق پولیس آفیسر کے طور پر نہایت مثالی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ محکمہ پولیس میں کمانڈر کا کردار عملی طور پر انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پولیس فورس کا مکمل دارومدار کمانڈر کے گرد گھومتا ہے جس کی بروقت دستیابی ہی امتحانوں سے پار لگاتی ہے۔ دسمبر کی یخ بستہ راتیں ہوں یا جون کی تپتی دوپہریں، ڈاکٹر عثمان انور کاماضی اْن کے پروفیشنلزم اور ماتحت دوست اقدامات کا شاہد ہے۔آئی جی پولیس نے فورس کی سربلندی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں لاہور میں امن وامان کی خراب صورت حال اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح جو کنٹرول ہونے کانام نہیں لے رہی تھی لاہور پولیس کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play