چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ چیف کی تقریبا چھ کروڑ کی دو پرتعیش گاڑیاں نیلام کر کے رقم عوامی نقل و حمل پر خرچ کی جائے گی۔ اس فیصلے کی ستائش نہ کرنا بخل کہلائے گا۔ ملکی وسائل کو بے دردی سے خرچ کرنے کی ”لُو“ چلتے ماحول میں یہ فیصلہ بلاشبہ خنک ہوا کا جھونکا ہے۔ تاہم پائدار قواعد کے بغیر اس کے اثرات اتنے ہی مستعجلانہ ہوں گے جتنے تند و تیز صحرائی بگولوں کے آگے خنک ہوا کے معمولی جھونکے کے ہو سکتے ہیں۔ ہزاروں ٹن لوہا پگھلانے والی دہکتی بھٹی کبھی ڈیڑھ ٹن ایئر کنڈیشنر سے ٹھنڈی ہو پائی ہے؟ چیف جسٹس کے ایسے فیصلوں اور اخلاص نیت کو دیکھوں تو انہیں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کے شانہ بشانہ کھڑا پاتا ہوں۔ صوبہ خیبر میں سراج الحق وزیر خزانہ تھے تو سرکاری دوروں پر وہ عام ویگن میں سفر کرتے تھے۔ لاہور میں ایک دفعہ صوبائی وزرائے خزانہ کا اجتماع ہوا تو وہ پشاور سے عام ویگن میں لاہور گئے۔

سربراہ پلڈاٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو متنازع قرار دیدیا

2014 میں بینک آف خیبر نے اپنی 10 سالہ سالگرہ منائی۔ میں بینک کے شریعہ بورڈ کا رکن تھا۔ ہماری ایک نشست وزیر خزانہ سراج الحق کے ساتھ ہوئی۔ فراغت پا کر ان سے 10 منٹ کی میری اپنی گفتگو ہوئی۔ سراج صاحب سے کئی گزارشات کیں۔ آج کے اس موضوع سے متعلق گزارش کا خلاصہ یہ تھا: " 'بدلنا ہے تو مے بدلو، طریق مے کشی بدلو/ وگرنہ جام و ساغر کے بدل جانے سے کیا ہوگا'. آپ وزیر خزانہ ہیں۔ کابینہ اور افسروں کی مراعات گاڑیوں وغیرہ کی منظوری اسمبلی سے لیں۔ یہ شخصی تقوی ہے۔ ہمیں ایک نیک وزیر خزانہ مل گیا او_¿ر بس! اسمبلی کی بندش نہ لگی تو اگلا وزیر خزانہ اپنے انداز میں وزارت چلائے گا۔ آپ کوئی ٹھوس تبدیلی لائیں تو لائیں ورنہ یہ چمن یوں ہی رہے گا۔۔۔۔" سراج صاحب نے اپنے معاون کو ایک ایک شے لکھوائی لیکن آج ہم سب مرغے کی وہی ایک ٹانگ بھگت رہے ہیں۔ چمن خاکستر تو نہیں ہوا پر بھوبل کا ڈھیر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بدلنا ہے تو مے بدلو۔۔۔۔۔!

زیادہ ٹی ٹونٹی میچز میں کامیابیاں، بھارت نے پاکستان کا ریکارڈ توڑ دیا

اوسط اور پست ذہنی سطح کے افراد کی توجہ ایسی کاسمیٹک ٹریٹمنٹ سے بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگلے چیف جسٹس نے دو کی جگہ اگر ایسی 4 گاڑیاں خرید لیں تو کیا ہمارے لیے آپ کی یہ نیکی یاد کرنا کافی ہوگا؟ بدلنا ہے تو مے بدلو۔۔۔۔۔! چیف کے پاس تقریباً 9 ماہ باقی ہیں۔ یہ مدت اتنی کم نہیں ہے کہ کوئی کام نہ کیا جائے۔ جسٹس جواد خواجہ صرف 26 دن چیف جسٹس رہے اور نفاذ اردو کا آئینی فیصلہ کر کے نام تاریخ میں لکھوا گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ ان کا یہی ایک فیصلہ نافذ کرا دیں تو رہتی دنیا تک وہ بھی یاد رکھے جائیں گے۔ ہم عوام اتنے برے نہیں جتنے ذرائع ابلاغ میں بیان کیے جاتے ہیں۔ یادش بخیر اور جملہ معترضہ! پرسوں ہماری لا فرم صمدانی اینڈ قریشی کے زیر اہتمام "جسٹس صمدانی میموریل لیکچر سیریز" میں جسٹس جواد خواجہ عدلیہ سے یوں شکوہ کر رہے تھے: "ہمارے عہد میں جج بولتے نہیں سنتے تھے۔ آج جج سنتے ہی نہیں، بولتے چلے جاتے ہیں، عدل کیسے ہوگا؟". ہماری 139 / 129 درجہ پر کھڑی عدلیہ کے چیف کیا توجہ کریں گے۔ جسٹس خواجہ نے کوئی انہونی بات تو نہیں کر دی تھی۔

یشال شاہد نے ہانیہ عامر کو جل پری کا خطاب دیدیا

مکرر یہ کہ قاضی فائز عیسیٰ نے واقعتا قابل ستائش، انہونا اور اچھوتا کام کیا ہے۔ اسے ابتدا سمجھ کر میں بات آگے بڑھاتا ہوں۔ چیف کو چاہیے کہ یہ کام وہ پائیدار خطوط پر استوار کریں تاکہ اگلا چیف جسٹس اسے معکوس رخ پر نہ لے جا سکے۔ پانچوں ہائی کورٹوں, وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے ایک ایک جسٹس اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو عدالتی گاڑیوں کے قواعد وضح کرے۔ کمیٹی میں وہی جج ہوں جو بچت والی فکر کے قریب تر ہوں۔ چیف جسٹس، اٹارنی جنرل کو مجوزہ قواعد کے اہم نکات بتا دیں۔ وہ اجلاس سے قبل مسودہ تیار کر لے۔ مجوزہ قواعد ارکان کو اجلاس سے ہفتہ قبل دے دیے جائیں۔ ہفتے بعد اجلاس میں بحث کر کے فوری ابتدائی منظوری لے لی جائے۔ اگلے ہی دن چیف جسٹس یہ قواعد منظور کر کے فورا لاگو کر دیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ اسسٹنٹ کمشنر سوا کروڑ کی گاڑی کیسے استعمال کرتا ہے۔ بدلنا ہے تو مے بدلو طریق مے کشی بدلو۔۔۔۔۔۔!

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

لازم ہو کہ یہ کمیٹی کوئی ذیلی کمیٹی نہ بنائے، نہ اجلاسوں پر اجلاس ہوں۔ بہتر ہے کہ لا سیکرٹری بھی کمیٹی میں ہوں تاکہ آئندہ ان قواعد اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے کو حکومت کے پاس کچھ نہ ہو۔ میری تجویز ہے کہ سول جج اور سینئر سول جج کے لیے 1000cc، ایڈیشنل سیشن جج اور سیشن جج کے لیے 1300cc، ہائی کورٹوں، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے لیے 1600cc کی گاڑی نہایت کافی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے البتہ لازماً وہ شاندار گاڑی ہو جو صدر مملکت اور وزیراعظم کے پاس ہوتی ہے۔ سب ججوں کے لیے صرف ایک گاڑی اور بس کہ ان کی تنخواہ اتنی کافی ہوتی ہے کہ اگر انہیں دوسری گاڑی چاہیے تو وہ اپنے وسائل سے خریدیں۔

مریم نواز سےاختلاف ہے نہ ناراضی، ن لیگ کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا،شاہد خاقان عباسی

چیف جسٹس کے پاس وقت نہایت کم اور مسائل کا انبار ناقابل یقین ہے۔ چاہیے کہ وہ اپنے منصب کے حسب حال صرف غیر معمولی اہمیت کے کاموں میں ہاتھ ڈالیں۔ کتنوں کو ڈانٹ چکے ہیں کہ جج کے نام کے ساتھ صاحب کیوں لکھا ہے۔ ماضی میں کبھی حکم ہوا تھا کہ نام کے ساتھ مسٹر جسٹس لکھا جائے۔ دونوں رویے صحیح ہونے کے باوجود غیر ضروری ہیں۔ پھر ارشاد ہوا، فلاں نام کے ساتھ حافظ کیوں لکھا ہے۔ کروڑوں افراد کے رگ و ریشے میں صدیوں سے گندھی روایات کو کیا لوگ چیف کے کہنے پر ترک کر دیں گے؟ مفتی منیب الرحمن بھی چیخ پڑے: "چیف جسٹس دینی اور غیر ضروری امور میں رائے زنی سے گریز کریں". مزید ارشاد ہوا: "قیامت کے روز بچوں کو ان کی ماو_¿ں کے نام سے پکارا جائے گا". (روز نامہ جنگ 27 ستمبر) معلوم نہیں، چیف جسٹس کے اس فیصلہ کن قول کی بنیاد کیا ہے۔

دہشتگردی کے مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی رہنما گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا

اخلاص نیت، دیانت اور جمہوری مزاج کے باوصف اگر چیف صرف یہی کر سکیں کہ تمام چیف جسٹسوں کے صوابدیدی اختیارات کو عدلیہ کے اپنے قواعد کے تحت منضبط کر دیا جائے تو یہ انقلابی کام ہوگا۔ ورنہ ہمیں نت نئے ثاقب نثار اور بندیال بھگتنا پڑیں گے۔ ضلعی, صوبائی اور وفاقی سطحی اختیارات اور مسائل کے مطابق قواعد وضع کرنے کو کمیٹیاں قائم کریں جو چند ہفتوں میں کام مکمل کر لیں۔ بدلنا ہے تو میے بدلو۔۔۔۔۔ ہر بڑے منصب پر فائز شخص کو وقت موقع دیتا ہے کہ چاہے تو وہ بڑے بڑے فیصلے کر کے روشن اور تابندہ تاریخ اپنے نام کر لے۔ اور چاہے تو اسلامی یونیورسٹی کے گریڈ 21 کے چھوٹے سے افسر سے سینگ لڑا کر تاریخ کے دھند لکے میں چھپ جائے، گرد آلود غبار میں گم ہو جانے۔ وقت بہت کم ہے۔ توقع ہے کہ چیف جسٹس پہلا راستہ اختیار کریں گے کہ ہماری عافیت اسی میں ہے۔ بدلنا ہے تو مے بدلو, طریق مے کشی بدلو۔۔۔۔!

QOSHE -     چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سراج الحق صاحب - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سراج الحق صاحب

12 1
03.12.2023

چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ چیف کی تقریبا چھ کروڑ کی دو پرتعیش گاڑیاں نیلام کر کے رقم عوامی نقل و حمل پر خرچ کی جائے گی۔ اس فیصلے کی ستائش نہ کرنا بخل کہلائے گا۔ ملکی وسائل کو بے دردی سے خرچ کرنے کی ”لُو“ چلتے ماحول میں یہ فیصلہ بلاشبہ خنک ہوا کا جھونکا ہے۔ تاہم پائدار قواعد کے بغیر اس کے اثرات اتنے ہی مستعجلانہ ہوں گے جتنے تند و تیز صحرائی بگولوں کے آگے خنک ہوا کے معمولی جھونکے کے ہو سکتے ہیں۔ ہزاروں ٹن لوہا پگھلانے والی دہکتی بھٹی کبھی ڈیڑھ ٹن ایئر کنڈیشنر سے ٹھنڈی ہو پائی ہے؟ چیف جسٹس کے ایسے فیصلوں اور اخلاص نیت کو دیکھوں تو انہیں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کے شانہ بشانہ کھڑا پاتا ہوں۔ صوبہ خیبر میں سراج الحق وزیر خزانہ تھے تو سرکاری دوروں پر وہ عام ویگن میں سفر کرتے تھے۔ لاہور میں ایک دفعہ صوبائی وزرائے خزانہ کا اجتماع ہوا تو وہ پشاور سے عام ویگن میں لاہور گئے۔

سربراہ پلڈاٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو متنازع قرار دیدیا

2014 میں بینک آف خیبر نے اپنی 10 سالہ سالگرہ منائی۔ میں بینک کے شریعہ بورڈ کا رکن تھا۔ ہماری ایک نشست وزیر خزانہ سراج الحق کے ساتھ ہوئی۔ فراغت پا کر ان سے 10 منٹ کی میری اپنی گفتگو ہوئی۔ سراج صاحب سے کئی گزارشات کیں۔ آج کے اس موضوع سے متعلق گزارش کا خلاصہ یہ تھا: " 'بدلنا ہے تو مے بدلو، طریق مے کشی بدلو/ وگرنہ جام و ساغر کے بدل جانے سے کیا ہوگا'. آپ وزیر خزانہ ہیں۔ کابینہ اور افسروں کی مراعات گاڑیوں وغیرہ کی منظوری اسمبلی سے لیں۔ یہ شخصی تقوی ہے۔ ہمیں ایک نیک وزیر خزانہ مل گیا او_¿ر بس! اسمبلی کی بندش نہ لگی تو اگلا وزیر خزانہ اپنے انداز میں وزارت چلائے گا۔ آپ کوئی ٹھوس تبدیلی لائیں تو لائیں ورنہ یہ چمن........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play