کسی خراب سے خراب یا اچھی سے اچھی سچوایشن کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے، یہ کوئی ہمارے محکموں سے سیکھے۔ احکامات ایک مقصد کے لئے جاری کیے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد کو کسی اور مقصدکے لئے کیا جانے لگتا ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں جو سموگ چھائی ہوئی ہے اس سے بھی عوام الناس کی دل آزاری کا راستہ نکال لیا گیا ہے، جیسے سموگ پیدا کرنے کے ذمہ دار عوام ہی ہوں۔ سموگ پر بات بعد میں کروں گا، پہلے کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف جاری مہم کا ذکر ہو جائے کیونکہ یہ مہم بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اسے بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

چلتی بس سے گرنے والی خاتون چل بسی

پچھلے دنوں ڈیفنس لاہور فیز سیون میں ایک گاڑی کی زد میں آ کر چھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ گاڑی ایک انڈر ایج بچہ چلا رہا تھا۔ اب کوئی کہتا ہے کہ یہ دشمنی تھی، کوئی کہتا ہے ایکسیڈنٹ تھا، لیکن ایک بات واضح ہے کہ کم سن بچے کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا والدین کی فاش غلطی تھی، اس کے بعد پورے پاکستان کی اور سپیشلی لاہور والوں کی بہت زیادہ شامت آ گئی۔ حکم جاری ہوا کہ جو بھی انڈر ایج بچہ گاڑی کی ڈرائیونگ کرتا ہوا نظر آئے اس کے خلاف پرچہ کاٹا جائے اور اسے بند کر دیا جائے۔ اس حکم نامے کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، اس وقت پورے لاہور میں پولیس والوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ جس کو مرضی پکڑ کے بند کر دیتے ہیں اور نہ یہ دیکھتے ہیں بڑا ہے‘ نہ یہ کہ چھوٹا ہے۔اس پکڑ دھکڑ کی آڑ میں کمائی بھی کی جاتی ہو گی۔ٹھیک ہے گاڑی چلانے کے لئے ایک مخصوص عمر کا ہونا اور ڈرائیونگ لائسنس کا حامل ہونا بہت ضروری ہے‘ لیکن جن بالغوں کے پاس لائسنس نہیں ہے‘ ان کو ٹائم ملنا چاہیے۔ میرے خیال میں جو بڑے بغیر لائسنس کے گاڑی چلا رہے ہوں ان کو وارننگ ملنی چاہیے، ہاں بچوں کے معاملے میں ضرور سختی ہونی چاہیے۔ سب سے پہلے تو والدین کو خود سوچنا چاہئے کہ ان کا کم عمر بچہ اگر گاڑی چلائے گا تو اس سے دوسروں زندگیاں ہی خطرے میں نہیں پڑیں گی بلکہ بچے کی اپنی زندگی کو بھی خطرہ لاحق رہے گا،اس لئے والدین کو اپنے نابالغ بچوں کو گاڑی نہیں چلانے دینا چاہئے،لیکن اگر والدین خیال نہ کریں تو پھر ایسے بچوں کو ضرور پکڑنا چاہئے، لیکن یہ نہیں کہ آپ ہر ایک کو پکڑ کے بند کیے جائیں۔ بڑوں کی بات کی جائے تو سب جانتے ہیں کہ لائسنس نہیں بن رہے۔ پاسپورٹس کا بھی شارٹ فال ہے، لوگوں کے پاسپورٹ بھی نہیں بن رہے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن کروائیں تو نہ کارڈ ملتا ہے، نہ ہی نمبر پلیٹیں ملتی ہیں، حالانکہ سب ضرورت مند ایڈوانس پیسے جمع کراتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں، لیکن یہ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے کہ پیسے ایڈوانس لے لئے جاتے ہیں، لیکن کام نہیں ہوتا۔ لائسنسوں کی بات کی جائے توکہنا پڑتا ہے کہ جتنی آبادی ہے اس حساب سے ان کے آفس ہی نہیں ہیں۔ جب کچھ بن ہی نہیں رہا تو لوگ کہاں سے لے کر آئیں لائسنس اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کے کاغذات؟

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے بعد معمولی اضافہ

سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ملک میں جو بھی قانون بنتا ہے اس کا غلط استعمال کیوں شروع ہو جاتا ہے جس ڈیپارٹمنٹ کے لئے بھی قانون بنتا ہے یا کوئی حکم جاری ہوتا ہے اسی میں کھاتے کھل جاتے ہیں، کمائیاں شروع ہو جاتی ہیں، لوگوں کو سہولت تو کوئی نہیں ملتی الٹا پریشان کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ بس ہر طرف، ہر چیز ہی بگڑ چکی ہے۔ پاکستان کے حالات بہت زیادہ دگرگوں ہو چکے ہیں۔ کوئی شعبہ نہیں جس کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ کہنا یہ ہے کہ اس وقت چھوٹے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی بھی جو شامت آئی ہوئی ہے، یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ بچوں کو گاڑی نہیں چلانی چاہیے، یہ طے ہے۔ اس بارے میں پالیسی بھی ٹھیک ہے، لیکن اس روک تھام کی آڑ میں میچور افراد کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹائم ملنا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو ڈرائیونگ لائسنس رجسٹریشن آفس اور پاسپورٹ آفس کی تعداد بڑھانی چاہئے تاکہ لوگوں کو یہ ضروری دستاویزات حاصل کرنے میں پریشانی اور تاخیر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

لاہور میں مالکن نے پیٹرول چھڑک کر ملازمہ کو آگ لگادی

اب بات کر لیتے ہیں سموگ کی۔ سموگ کے حوالے سے بھی پالیسی ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی لائسنسوں کے بارے میں ہے۔ سموگ کے پیدا ہونے کی وجوہات کچھ اور ہیں اور سموگ سے بچنے کے طریقے کچھ اور اختیار کیے جا رہے ہیں۔ اختیار کی گئی پالیسی کا مقصد سموگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا زیادہ ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر سموگ پورے شہر یا پورے صوبے میں پھیلی ہوئی ہے تو سکولوں میں ایک یا دو کے بجائے تین چھٹیاں کرنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ زہریلا دھواں تو گھروں میں بھی اتنا ہی ہے جتنا باہر سڑکوں پر‘ تو گھروں میں رہنے سے سموگ کے اثرات کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یا دکانیں دیر سے کھولنے سے سموگ میں کمی کیسے واقع ہو گی؟

بھارت کی سب سے بڑی کار مینوفیکچرنگ کمپنی ماروتی سوزوکی نے گاڑیوں کے قیمتیں بڑھا دیں

ضرورت یہ ہے کہ ان عوامل پر قابو پایا جائے اور ان اسباب کو ختم کیا جائے جن کی وجہ سے سموگ پیدا ہو رہی ہے اور انسانی صحت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ کیا حکومت نے بڑے شہروں، خصوصاً لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھانے اور اس کو منظم کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے تاکہ لوگ اپنی نجی گاڑیاں باہر سڑکوں پر نہ لائیں، نہ ان سے زہریلا دھواں نکلے اور نہ سموگ کی شدت میں اضافہ ہو؟ یہ جگہ جگہ جو ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں اور ان کی وجہ سے زراعت اور جنگلات کو جو نقصان پہنچ رہا، اس کی طرف کبھی کسی کی توجہ گئی ہے؟ زراعت کا رقبہ کم ہو گا اور جنگلات کٹیں گے تو زہریلی گیسوں کو Purifyکون کرے گا؟ پورے پاکستان میں ہر مین روڈ پر ہاؤسنگ سکیمیں بن گئی ہیں۔ درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ صرف ملتان میں ایک لاکھ سے زیادہ آموں کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں کوئی رہائشی سکیم بنانے کے لئے۔ ظاہر ہے جب اس حساب سے درخت نہیں لگائے جائیں جس رفتار سے کاٹے جا رہے ہیں تو سموگ ہی پیدا ہو گی، اور وہ ہو رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ سموگ کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پایا جائے سارا زور سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مارکیٹوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ کیا خیال ہے اس طرح سموگ کم ہو سکتی ہے؟

امیر کویت کے حوالے سے تشویشناک خبر سامنے آگئی

QOSHE -      سموگ اور پکڑ دھکڑ - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     سموگ اور پکڑ دھکڑ

12 0
30.11.2023

کسی خراب سے خراب یا اچھی سے اچھی سچوایشن کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے، یہ کوئی ہمارے محکموں سے سیکھے۔ احکامات ایک مقصد کے لئے جاری کیے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد کو کسی اور مقصدکے لئے کیا جانے لگتا ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں جو سموگ چھائی ہوئی ہے اس سے بھی عوام الناس کی دل آزاری کا راستہ نکال لیا گیا ہے، جیسے سموگ پیدا کرنے کے ذمہ دار عوام ہی ہوں۔ سموگ پر بات بعد میں کروں گا، پہلے کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف جاری مہم کا ذکر ہو جائے کیونکہ یہ مہم بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اسے بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

چلتی بس سے گرنے والی خاتون چل بسی

پچھلے دنوں ڈیفنس لاہور فیز سیون میں ایک گاڑی کی زد میں آ کر چھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ گاڑی ایک انڈر ایج بچہ چلا رہا تھا۔ اب کوئی کہتا ہے کہ یہ دشمنی تھی، کوئی کہتا ہے ایکسیڈنٹ تھا، لیکن ایک بات واضح ہے کہ کم سن بچے کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا والدین کی فاش غلطی تھی، اس کے بعد پورے پاکستان کی اور سپیشلی لاہور والوں کی بہت زیادہ شامت آ گئی۔ حکم جاری ہوا کہ جو بھی انڈر ایج بچہ گاڑی کی ڈرائیونگ کرتا ہوا نظر آئے اس کے خلاف پرچہ کاٹا جائے اور اسے بند کر دیا جائے۔ اس حکم نامے کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، اس وقت پورے لاہور میں پولیس والوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ جس کو مرضی پکڑ کے بند کر دیتے ہیں اور نہ یہ دیکھتے ہیں بڑا ہے‘ نہ یہ کہ چھوٹا ہے۔اس پکڑ دھکڑ کی آڑ میں کمائی بھی کی جاتی ہو گی۔ٹھیک ہے گاڑی چلانے کے لئے ایک مخصوص عمر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play