ہمارا پیارا شہر لاہور جس میں مغلوں نے عظیم الشان عمارات تو تعمیر کروائیں مگر اس کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے کئی باغات بھی لگوائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی لاہور باغوں کا شہر کہلاتا ہے۔ سیاح جب بھی لاہور آتے ہیں تو لاہوریے دل و جان سے اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہیں اور اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ سیاحوں کو جاتے جاتے جب یہ پتا چلتا ہے کہ ”جنیں لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئیں“ تو وہ خوشی سے باغ باغ ہونے لگتے ہیں کہ شکر ہے ہم نے اپنی زندگی میں اس خوبصورت شہر لاہور کو نہ صرف دیکھا بلکہ یہاں کے کھابوں سے بھی لطف اندوز ہوئے اور پھر وہ یہی یادیں اپنے دل میں لیے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں دہشتگرد گھسے نہ کوئی ایسا دہشتگردانہ واقعہ پیش آیا،چیئرمین پی ٹی آئی کو آج ہی عدالت میں پیش تو کرنا پڑے گا،وکیل سلمان صفدر

شاعر ڈاکٹر فخر عباس نے سچ کہا ہے کہ

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت تاریخی شہر لاہور میں رواں برس بھی موسم سرما کے آتے ہی سموگ نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ شہر لاہور میں گذشتہ ہفتوں سے فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ لاہور شہر آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آچکا ہے جو لاہوریوں کی صحت کے لیے تشویشناک ہے۔

ہمارے سیدھے سادھے لاہور کے باسیوں کو اس آلودگی کا قطعاً ادراک نہیں، ہمارے ہاں لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے نہ تو میڈیا کوئی کردار ادا کرتا ہے اور نہ ہی عام عوام اس کو سنجیدہ لیتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا پڑھالکھا طبقہ بھی اس کی حقیقت کو سمجھنے سے گریز کرتا ہے۔ سموگ اصل میں دو لفظوں کا مجموعہ ہے ”سموک“ اور ”فوگ“ جس کا فضا میں ہونے کا مطلب ہے انتہائی خطرناک فضائی آلودگی۔ 20ویں صدی میں پہلی بار سموکی فوگ کی وضاحت اس کی بدبواور دھند کی وجہ سے کی گئی۔ سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد کو متاثر کرتی ہے۔ سموگ کو زمینی اوزون(Ozone) بھی کہا جاتا ہے یہ ایک ایسی بھاری سرمائی دھند کی تہہ کی مانند ہوتا ہے جو ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب یا آمیزے میں کاربن اور کاربن مونوآکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین، پولن، گرد، امونیا گیس اور دوسرے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ وہ کیمیکلز ہیں جو فوری ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور بے حد خطرناک آلودگی کا مرکب بنا دیتے ہیں۔ یہ مرکب نہ صرف انسان کے لیے بلکہ پودوں کے لیے بھی اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ پودے جو ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں کے اس آلودگی کی وجہ سے مسام بند ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے آکسیجن بھی فضا میں کم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ بارشوں میں کمی، فصلوں کو جلائے جانے، کارخانوں اور گاڑیوں کے دھوئیں اور درختوں کا بے تحاشا کاٹے جانا اور قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنا سموگ کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت میں پیش نہیں کر سکتے، سپرنٹنڈ نٹ اڈیالہ جیل کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کو خط

سب سے پہلے ہمیں دھند اور سموگ میں فرق معلوم ہونا چاہیے کیونکہ سموگ کی موجودگی اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جاننے کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ دھند اور سموگ میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن دھند اور سموگ دو مختلف نوعیت کی صورتیں ہیں جب ہوا میں موجود بخارات کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف ہوجاتے ہیں تو یہ ماحول میں سفیدی مائل موٹی اور دبیز تہہ بنادیتے ہیں جسے دھند کہا جاتا ہے جبکہ اگر اسی دھند میں دھواں اور مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہو جائیں تو یہ دھند مزید گہری اور کثیف ہوجاتی ہے جسے سموگ کہتے ہیں۔ سموگ میں موجود فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے کیونکہ اس میں بہت سارے خطرناک کیمیائی مادے اور مضرصحت اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھوئیں کی وجہ سے گہرے اور پیلے رنگ کی تہہ آجاتی ہے۔ سورج کے نکلنے کے ساتھ ساتھ نارمل دھند آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جبکہ سموگ ماحول میں دن بھر ویسے ہی موجود رہتا ہے۔ سموگ کو بنانے میں دھواں، درجہ حرارت اور بادل سب حصہ دار ہوتے ہیں اور ان میں ایک ایسا کیمیائی تعامل (Chemical Reaction) پیدا ہوتا ہے جس کے لیے سال کے درمیان کے مہینے بہت زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ اس موسم میں ہوا کی رفتار بھی آہستہ ہوجاتی ہے اور پھر درجہ حرارت کی وجہ سے دھواں اور دھند مل کر سموگ بناتے ہیں۔ ہوا کی کم رفتار اس سموگ کو حرکت دینے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے اور بادلوں کی موجودگی کی وجہ سے ایک دباؤ سا بن جاتا ہے جو کہ اس دھند کو یا دھوئیں کو اوپر کی طرف جانے سے روکتا ہے اور پھر یہ سموگ ساکن حالت میں اس جگہ کو گھیر لیتی ہے اور فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا

اس ماحول میں سانس لینے سے گھٹن اور آلودگی کا احساس ہونے لگتا ہے جو ہماری صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ سموگ میں بنیادی طور پر ایک پارٹیکولیٹ مادہ (Particulate Matter) موجود ہوتا ہے جو کہ پارٹیکولٹ مادہ 2.5کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً چار گنا باریک ہوتا ہے اور یہ مادہ انسانی پھیپھڑوں میں باآسانی داخل ہوکر مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر کسی فرد کو سموگ کی وجہ سے انفیکشن شروع ہوجائے تو سب سے پہلے گلے میں خراش یا زخم ہوجانے کے ساتھ ناک اور آنکھوں میں بھی شدید چبھن یا جلن شروع ہوجاتی ہے۔ جو افراد پہلے ہی سے سانس کی مختلف بیماریوں مثلاً دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے سموگ زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ فضا کو صاف کرنے والے مختلف فلٹرز اور ایسے جدید آلات دستیاب ہیں جن کو استعمال کرکے ہم اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کی فضا کو صاف رکھ سکتے ہیں مگر سموگ کے دوران یا سموگ والے علاقوں میں جانے کے لیے عام سرجیکل سبز رنگ والے ماسک استعمال نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ سموگ میں موجود پی ایم 2.5کے ذرات اس سرجیکل والے عام ماسک کے سوراخوں سے بھی گزر کر پھیپھڑوں میں داخل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا سموگ کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں 3ایم، 95این یا 99این ماسک استعمال کرنے چاہئیں اور سموگ میں موجود اوزون (Ozone) سے محفوظ رہنے کے لیے آنکھوں پر بھی حفاظتی چشمے استعمال کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ سموگ والے علاقے میں زیادہ محنت و مشقت، بھاگنے، دوڑنے، ورزش اور کھیل کو دسے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ سموگ کی وجہ سے ہوا کا پریشر زمین پر کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سانس پھولنا شروع ہوجاتا ہے پھر سانس لینے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ فضائی آلودگی کی ایک تحقیق کے اعدادوشمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہورہی ہے۔

ڈیفنس حادثہ، ملزم افنان شفقت کے دوسرے دوست کا بیان بھی قلمبند

ماحولیاتی آلودگی پر وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی بہت کام کررہے ہیں۔ اس سے اُن کی لاہور کی عوام سے بھرپور محبت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اُن کاوشوں سے جلد ماحولیاتی آلودگی پر قابو پالیا جائے گا۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کی ٹریفک پر بھی توجہ دیں تو لاہور کے حالات مزید بہتر ہوجائیں گے۔ تمام ڈیزل گاڑیوں کی چیکنگ کو سخت کردیا جائے جو دھواں چھوڑتی ہیں اور چنگ چی والوں کے روٹ بھی محدود کردئیے جائیں۔ اُن کی لاہور کی مین شاہراہوں پر چلنے کی پابندی ہونی چاہیے۔ فصلوں کو آگ لگانے پر بھی پابندی لگنی چاہیے خاص طور پر موٹروے کے پاس ان کے دھوئیں سے موٹروے پر سموگ کی وجہ سے خطرناک حادثات ہوسکتے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -        یہ جو لاہور سے محبت ہے  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       یہ جو لاہور سے محبت ہے 

31 0
28.11.2023

ہمارا پیارا شہر لاہور جس میں مغلوں نے عظیم الشان عمارات تو تعمیر کروائیں مگر اس کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے کئی باغات بھی لگوائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی لاہور باغوں کا شہر کہلاتا ہے۔ سیاح جب بھی لاہور آتے ہیں تو لاہوریے دل و جان سے اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہیں اور اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ سیاحوں کو جاتے جاتے جب یہ پتا چلتا ہے کہ ”جنیں لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئیں“ تو وہ خوشی سے باغ باغ ہونے لگتے ہیں کہ شکر ہے ہم نے اپنی زندگی میں اس خوبصورت شہر لاہور کو نہ صرف دیکھا بلکہ یہاں کے کھابوں سے بھی لطف اندوز ہوئے اور پھر وہ یہی یادیں اپنے دل میں لیے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں دہشتگرد گھسے نہ کوئی ایسا دہشتگردانہ واقعہ پیش آیا،چیئرمین پی ٹی آئی کو آج ہی عدالت میں پیش تو کرنا پڑے گا،وکیل سلمان صفدر

شاعر ڈاکٹر فخر عباس نے سچ کہا ہے کہ

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت تاریخی شہر لاہور میں رواں برس بھی موسم سرما کے آتے ہی سموگ نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ شہر لاہور میں گذشتہ ہفتوں سے فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ لاہور شہر آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آچکا ہے جو لاہوریوں کی صحت کے لیے تشویشناک ہے۔

ہمارے سیدھے سادھے لاہور کے باسیوں کو اس آلودگی کا قطعاً ادراک نہیں، ہمارے ہاں لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے نہ تو میڈیا کوئی کردار ادا کرتا ہے اور نہ ہی عام عوام اس کو سنجیدہ لیتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا پڑھالکھا طبقہ بھی اس کی حقیقت کو سمجھنے سے گریز کرتا ہے۔ سموگ اصل میں دو لفظوں کا مجموعہ ہے ”سموک“ اور ”فوگ“ جس کا فضا میں ہونے کا مطلب ہے انتہائی خطرناک فضائی آلودگی۔ 20ویں صدی میں پہلی بار سموکی فوگ کی وضاحت اس کی بدبواور دھند کی وجہ سے کی گئی۔ سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play