یہاں بچپن سے ہی سکول اور گھروں میں نونہالوں کویہ تربیت دی جاتی ہے کہ کھانے کے کٹورے میں چاول کا ایک دانہ بھی باقی نہیں بچنا چاہئے۔اگرکم بھوک ہے تو پھر پلیٹ میں کم مقدار میں کھانا ڈالیں، مگر جو کھانا ڈال لیا ہے وہ مکمل طور پر ختم کرنا چاہئے۔جاپان کے کسی بھی ریستوران میں اگر آپ جائیں تو حیران ہوں گے کہ کوئی بھی گاہک کھانا برتن میں چھوڑ کر نہیں جاتا۔ جھوٹھا کھانا گھر میں چھوڑنے کا تو تصور بھی محال ہے۔ جاپانی چاول خور قوم ہے اور مچھلی اس کے ساتھ ان کی مرغوب غذا ہے۔آج کل جس طرح ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے،تو اس کے اثرات کھانے، پینے کے مقامات پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔فیملی ریستوران بھی اب روایتی انداز چھوڑ کر جدید ٹیکنالوجی اپناتے جا رہے ہیں، جس ریستوران میں اکثر میں کھانا کھاتا ہوں اور یہاں کی مقبول عام جگہ ہے،یعنی ہر خاص و عام کے طعام کا اہتمام مناسب نرخوں پر معیاری انداز کا نعرہ اس کا دعویٰ ہے۔یہاں اب کوئی ویٹر آپ سے آرڈر لینے نہیں آتاہے۔یہ معاملہ ایک شہر یا پھر چند فیملی ریستوران کی شاخوں کا نہیں ہے،بلکہ آہستہ آہستہ بیرے ریستوران سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ان کی جگہ سلیٹ نما سکرین رکھی ہوئی ملتی ہے،آپ اپنی پسندکا کھانا منتخب کرتے جائیں،اسی سکرین پر آرڈر دے دیں۔

اسلام آباد میں دہشتگرد گھسے نہ کوئی ایسا دہشتگردانہ واقعہ پیش آیا،چیئرمین پی ٹی آئی کو آج ہی عدالت میں پیش تو کرنا پڑے گا،وکیل سلمان صفدر

چند لمحوں بعد ایک روبوٹ نما گاڑی،تھوڑے بہت ماڈل کے فرق کے ساتھ،آپ کاکھاناپکڑے،آپ کی نشست پر پہنچ جائے گی۔آپ کے آرڈر کئے ہوئے کھانے کے ساتھ ہی اس کابل بھی یہی روبوٹ لیتا آئے گا۔کھانا اٹھائیے اور روبوٹ کو چلتا کیجئے۔دلچسپ پہلو آج کھانا آڈر کرتے ہوئے مجھے یہ نظر آیا کہ اگر عمومی سائزکی چاول کی پلیٹ سے آپ نے چاول کم کروانے ہیں تواس کے لئے آپ کو 50روپے اضافی دینا ہوں گے،جبکہ اگر عمومی مقدارسے زیادہ چاول کھانا چاہتے ہیں تو وہ مفت میں ہی مقدار بڑھا دیں گے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ 50روپے اضافی دینے کی بجائے گاہک کوجتنی بھوک ہے، تناول کر کے باقی پلیٹ میں ہی چھوڑ کر چلا جائے؟ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے،جاپانی کو اگرکم بھوک ہے یا پھر وہ ڈائٹنگ کر رہا ہے تو پچاس روپے زیادہ دے کر پلیٹ میں چاول کی مقدارکم کروائے گا،مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کھانا جوٹھا چھوڑ کر چلا جائے۔یہ بچپن کی تربیت کا اثرہے جورزق کا ضیاع اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے۔یہ بات ثقافت کا حصہ بن چکی ہے کہ کھانا ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دانہ بھی اناج کاکسی تھالی میں بچا نہیں دکھتاہے،کہ یہ بات خلاف تہذیب ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت میں پیش نہیں کر سکتے، سپرنٹنڈ نٹ اڈیالہ جیل کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کو خط

رسول اکرمؐ کے متعلق یہ روایت سنی ہے کہ ان کے کھانے کابرتن باآسانی پہچانا جاتا تھا، جس برتن میں وہ کھانا کھاتے وہ ہمیشہ بالکل صاف ہوتا تھا۔کبھی اس میں بچا ہوا کھانا نہیں ہوتا تھا۔ جاپانیوں اور ہم پاکستانیوں میں ایک قدر اور مشترک ہے کہ روایتی طور پر یہ بھی زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں،ہماری طرح آلتی پالتی مار کر۔دیار ِمغرب سے آنے والے اس نشست و برخاست سے اکثر کافی تنگ نظر آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ چوکڑی مار کر بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔کھانے پینے کے معاملے میں یہاں چور بازاری نہیں ہے۔ کسی گلی کی نکڑ،کوئی گاؤں،گوٹھ میں کھلا ریستوران اور فائیو سٹار ہوٹل کے ریستوران میں لنچ کا خرچہ بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔اگر سستا لنچ ہزار کا ہے تو اچھے ہوٹل میں واقع ریستوران کا لنچ دو ہزار کا ہو گا۔اس سے زیادہ فرق نہیں ہے۔اس بابت کبھی کبھی تو مجھے جاپان پر اشتراکی معاشرہ ہونے کا گمان گزرتا ہے کہ وزیراعظم کے لنچ بکس میں اور ایک مزدور کے ٹفن میں ایک پاکستانی کی نظرسے تو کچھ بھی مختلف نظر نہیں آتا۔ امیر ترین افراد کے لنچ کی قیمت اور اجزائے خوردنی ایک محنت کش کے دوپہر کے کھانے کے خرچے اور معیار کا مواز نہ کریں تو یہ تقریباً برابر ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا

دوپہر کا کھانا عمومی طور پر لوگ گھروں سے ٹفن میں لے کر آتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو سکول کی طرف سے کھانا فراہم کیا جاتا ہے، جو کہ تقریباً مفت ہوتا ہے۔اگر آپ مسلمان ہیں یا کسی اور مذہب کے پیروکار ہیں،آپ اپنے بچے کو حلال،کوشر، شاکا ہاری یا کوئی اور مخصوص غذا کھلانا چاہتے ہیں تو اس کا اہتمام بھی سکول کی انتظامیہ خود کرتی ہے۔والدین کو کسی حال میں بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ گھرسے کھانا بھجوا سکیں۔دوپہر بارہ بجے سے ایک بجے تک کھانے کے اوقات شمار کئے جاتے ہیں۔کسی طرح کی قانونی قدغن اور بندش تو نہیں ہے، مگر اس دوران لوگ کسی کو نہ ملنے جاتے ہیں اور نہ ہی ٹیلی فون کرتے ہیں۔تمام دفاتر کھلے رہتے ہیں، مگر سٹاف باری باری بارہ سے ایک بجے دن کے دوران دوپہر کا کھانا کھا لیتا ہے۔

ڈیفنس حادثہ، ملزم افنان شفقت کے دوسرے دوست کا بیان بھی قلمبند

میری دانست میں جاپان کی یہ کوئی بہت بڑی خوبی نہیں ہے کہ یہاں بلند و بالا عمارتیں ہیں،ان اونچی اونچی عمارتوں میں بڑے بڑے ہوٹل اور ریستوران ہیں۔ شاپنگ مال اور خریداری کے مراکز ہیں۔ کھانے پینے کی ایک سے بڑھ کر ایک جگہیں ہیں جن کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیا جائیں،اس ملک کی اصل خوبی یہ ہے کہ ان بلند و بالا عمارتوں اور چکا چوند سے بھرپور گرد و پیش کی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ، دسترس اور قوت خرید میں ہے۔اس تحریر کا مقصد جاپانیوں کی مدح سرائی نہیں ہے،فقط اس جانب توجہ دلانی مقصود ہے کہ ہم رزق ضائع کرنے کی عادت اپناتے جارہے ہیں، حالانکہ روایتی اور ثقافتی اعتبار سے ہم کھانے کا بے حد احترام کرتے چلے آئے ہیں،مگر یہ بدعت اب بہت عام ہوتی جا رہی ہے۔ ضیاع توکسی بھی چیزکا برا ہے لیکن کھانا ضائع کرنا تو انتہائی بری بات ہے۔اس سے اجتناب برتنا چاہئے۔رزق کا احترام کرنا قدامت پسندی نہیں شعور اور تہذیب کا لازمی تقاضا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -        رزق ضائع مت کریں  - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       رزق ضائع مت کریں 

9 0
28.11.2023

یہاں بچپن سے ہی سکول اور گھروں میں نونہالوں کویہ تربیت دی جاتی ہے کہ کھانے کے کٹورے میں چاول کا ایک دانہ بھی باقی نہیں بچنا چاہئے۔اگرکم بھوک ہے تو پھر پلیٹ میں کم مقدار میں کھانا ڈالیں، مگر جو کھانا ڈال لیا ہے وہ مکمل طور پر ختم کرنا چاہئے۔جاپان کے کسی بھی ریستوران میں اگر آپ جائیں تو حیران ہوں گے کہ کوئی بھی گاہک کھانا برتن میں چھوڑ کر نہیں جاتا۔ جھوٹھا کھانا گھر میں چھوڑنے کا تو تصور بھی محال ہے۔ جاپانی چاول خور قوم ہے اور مچھلی اس کے ساتھ ان کی مرغوب غذا ہے۔آج کل جس طرح ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے،تو اس کے اثرات کھانے، پینے کے مقامات پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔فیملی ریستوران بھی اب روایتی انداز چھوڑ کر جدید ٹیکنالوجی اپناتے جا رہے ہیں، جس ریستوران میں اکثر میں کھانا کھاتا ہوں اور یہاں کی مقبول عام جگہ ہے،یعنی ہر خاص و عام کے طعام کا اہتمام مناسب نرخوں پر معیاری انداز کا نعرہ اس کا دعویٰ ہے۔یہاں اب کوئی ویٹر آپ سے آرڈر لینے نہیں آتاہے۔یہ معاملہ ایک شہر یا پھر چند فیملی ریستوران کی شاخوں کا نہیں ہے،بلکہ آہستہ آہستہ بیرے ریستوران سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ان کی جگہ سلیٹ نما سکرین رکھی ہوئی ملتی ہے،آپ اپنی پسندکا کھانا منتخب کرتے جائیں،اسی سکرین پر آرڈر دے دیں۔

اسلام آباد میں دہشتگرد گھسے نہ کوئی ایسا دہشتگردانہ واقعہ پیش آیا،چیئرمین پی ٹی آئی کو آج ہی عدالت میں پیش تو کرنا پڑے گا،وکیل سلمان صفدر

چند لمحوں بعد ایک روبوٹ نما........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play