میں گزشتہ ہفتے پاکستان آکر معمول کے مطابق اوکاڑہ کا ایک چھوٹا سا چکر لگا کر واپس لاہور میں موجود ہوں۔ میرے جیسے پردیسی جب اپنے اس سابق وطن میں سال چھ مہینے کے بعد آتے ہیں تو وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ انہیں پہلے کی نسبت کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن مجھے اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی بدلے ہوئے اوکاڑہ سے واسطہ پڑا۔

جب میں اوکاڑہ کی بات کرتا ہوں تو اس میں اوکاڑہ شہر کے علاوہ دو نواحی دیہات شامل تھے جو اب صرف ایک گاؤں رہ گیا ہے۔ والد صاحب کا شہر میں کاروبار تھا لیکن ان کی زمینداری اور نمبرداری قریبی گاؤں 48تھری آر میں تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت میں پیش نہیں کر سکتے، سپرنٹنڈ نٹ اڈیالہ جیل کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کو خط

اس سے ذرا دور دریائے راوی کی طرف برج جیوے خان ہے جہاں ہماری پھوپھی کا گھر تھا۔ میں چھٹیاں گزارنے چک 48تھری آر میں اپنے ماموں کے گھر آتا تھا۔ برج جیوے خاں میں پھوپھی کا گھر بے آباد ہو گیا اس لئے اب برج وزٹ کی فہرست سے خارج ہو گیا۔

اوکاڑہ شہر کی ایک ایک گلی اور 48تھری آر میں نورگلی میں اپنے آوارہ گرد پاؤں کے نقوش مجھے واضح طور پر نظر آتے ہیں۔اوکاڑہ کے بارے میں،میں نے کہا تھا:

وہ شہر سراپا عشق ہی تھا

جو میرے پیاروں کی بستی تھی

اک گھر تھا ایسا وہاں جس میں

میری ماں مری راہیں تکتی تھی

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا

اوکاڑہ شہر میں میرے پرانے پڑوسی اور دوست بزنس مین شیخ خالد کے ساتھ پرانے لوگوں کو تلاش کرنے کا پلان تھا جس کا موقع نہیں بنا۔

میں نے بڑی لاپرواہ اور لاابالی پن والی زندگی گزاری ہے لیکن گزشتہ دس بارہ سال سے خصوصاً 48تھری آر کی نور گلی میں اپنے ماموں کے خاندان والوں سے میں نے کوشش کرکے گہرا قریبی تعلق بنایا ہے۔ میں نے اپنے ان عزیزوں سے ہمیشہ اچھا سلوک کیا اور مجھے خوشی ہے کہ جواب میں مجھے اس سے بڑھ کر اچھا سلوک ملا۔ لیکن اس مرتبہ مجھے وہاں کچھ بدلاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

میں ادھر لاہور میں اپنی بہن کے گھر ٹھہرا ہوں میرے یہ بہنوئی کرنل اکرم بڑے صاحب علم ہیں باتوں باتوں میں انہوں نے حضرت علیؓ کے ایک قول کا ذکر کیا کہ ”جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو“۔ میں نے دل میں سوچا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے آج تک کسی پر احسان نہیں کیا اس لئے مجھے کسی کے شر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ کے اقوال کی سچائی معتبر ہے لیکن اس کا اطلاق ان پر ہوتا ہے جو میرے خیال میں کسی سے اچھا سلوک احسان سمجھ کر کرتے ہیں لیکن عملاً تو کجا تصور میں بھی کوئی کام احسان سمجھ کر نہیں کیا اس لئے مجھے انشاء اللہ کسی ”شر“ سے واسطہ پڑ ہی نہیں سکتا۔

ڈیفنس حادثہ، ملزم افنان شفقت کے دوسرے دوست کا بیان بھی قلمبند

نور گلی میں میرے ماموں کی اولاد سے میری بہت قربت ہے، ان کے مسائل میں دلچسپی لی اور ان کی خوشیوں اور پُرسکون زندگی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا ہوں لیکن ہر کام میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ آپ کے اچھے جذبے کی ہمیشہ اسی نسبت سے قدر ہو۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ جو بدلاؤ شہر میں آیا ویسا اب گاؤں میں بھی محسوس ہوا۔ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے میں ابھی فیصلہ نہیں کر پایا کہ میں بھی جوابی تبدیلی پیدا کروں۔

بات کسی اور طرف نکل گئی۔ تھوڑا سا احوال میں آپ کو اوکاڑہ شہر میں اپنے بچپن اور لڑکپن دور کی دوستیوں اور تعلقات کا بیان کرنا چاہتا ہوں یہ محض اتفاق ہے کہ شہر میں میری اور میرے بھائی سیف کی زیادہ تر دوستیاں شیخوں سے ہوئیں۔ ہم دونوں کے گروپ الگ الگ تھے لیکن کبھی ان گروہوں کا آپس میں رابطہ بھی ہوجاتا تھا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

ڈی بلاک میں شیخ ظفر اقبال میرے دوستوں کے گروپ لیڈر تھے جس کے اونچے تھڑے پر شام کے وقت مجلس جمتی تھی۔ ظفر کے بلند آہنگ قہقہے دور دور تک سنائی دیتے تھے اور ہم سب دوست ساتھ شریک ہوتے اور ایسا لگتا تھا کہ سب فکریں پریشانیاں ہم تھڑے سے نیچے ہی چھوڑ آئے ہیں۔

لیکن سیف کا اوکاڑہ میں اپنے بچپن کے کلاس فیلوز اور دوستوں کا جو گروپ بنا وہ سب پر بازی لے گیا۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اسے ایسے مخلص اور وفادار دوست ملے جو اس کے لئے فیملی ممبرز سے بڑھ کر تھے۔ان میں اوکاڑہ کے ایک بہت بڑے کاروباری خاندان کا فرزند اس کا کلاس فیلو شیخ ریاض الحق بھی تھا۔ سیف کے اس گروپ کا دوسرا اہم رکن بلکہ سب کا لیڈر شیخ پرویز اختر تھا جو شیخ ظفر اقبال کا کزن ہے۔ پرویز اس وقت کراچی میں مقیم ہے جو کراچی کے کاٹن کنگ ”ریاض و خالد“ کا خالہ زاد بھائی ہے۔ ایک ہمارے کزن میاں زمان کا سب سے چھوٹا بھائی صفدر محمود تھا جو بدقسمتی سے اس وقت کرنل تھا جب وہ سابق صدر اور جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔اس کے علاوہ کلیم خان بھی اس کے دوستوں میں شامل تھا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ہفتہ وارتعین کی تجویز پر عملدرآمد موخر

شیخ ریاض،شیخ پرویز اختر اور کلیم خان کے گھروں میں سیف بلا جھجک سیدھا چلا جاتا تھا۔ اور وہی معاملہ ان تینوں کا تھا جو ہمارے گھر میں بلاتکلف آتے جاتے تھے۔ سیف سعودی عرب میں تیل کے ایک پلانٹ کا جنرل منیجر تھا۔ اس کی اولاد نہیں تھی۔ اس لئے اس نے اوکاڑہ میں نیا گھر بنوایا تو اسے چھوٹے بھائی سلطان کے حوالے کرنا تھا جو کافی نااعتبارا اور لاپرواہ تھا۔ پرویز کے مشورے پر سیف نے تمام پیسے ریاض کو بھیجے اور اس نے اپنی نگرانی میں گھر بنوایا۔

اس سے اندازہ لگا لیں شیخ ریاض کا ہماری فیملی میں کتنا عمل دخل تھا۔ یہ تمام دوست بہت مخلص تھے اور سیف بھی ان پر جان چھڑکتا تھا۔ سب کہتے تھے کہ ہو سکتا ہے کسی وقت وہ اپنے ماں باپ کے سامنے اکڑ جائے لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ریاض اور پرویز کو ناں کر دے۔ اب نہ میرا دوست شیخ ظفر اقبال دنیا میں رہا اور نہ میرا بھائی سیف۔ لیکن میں یہ لکھتے ہوئے بھی ظفر کے قہقہوں کی گونج سن سکتا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اوکاڑہ میں میرے سب دوست احباب بہن بھائی مجھے ”بھائی صاحب“ کہتے ہیں یہ نام ظفر کا دیا ہوا ہے۔ ظفر نے سیف کا بڑا بھائی ہونے کے باعث مجھے ”بھائی صاحب“ کا لقب دیا۔ پھر سب کو میرا نام بھول گیا صرف یہ لقب یاد رہا۔

پاکستان اور یو اے ای میں اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط

میں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے ایف ایس سی کرکے بی ایس سی میں داخلے کے لئے ایف سی کالج لاہور آیا۔ یہاں سیف ایف ایس سی اور ظفر ایم اے کی کلاس میں پہلے سے موجود تھے۔ ظفر نے مجھے داخلہ دلایا اور پھر چار ہوسٹلوں میں سے اپنے والے نیوٹن ہال میں بھی مجھے رہائش دلائی۔ ایف سی کالج ہوسٹلوں کے کلچر کے مطابق رات کے کھانے کے بعد سٹوڈنٹس کی ٹولیاں واک پر نکلتیں تو ان میں ہمارا ”اوکاڑہ گروپ“ ظفر کے قہقہوں کی وجہ سے بہت معروف تھا۔ یہ ساری کہانیاں ختم ہو گئیں۔ اب ان کی صرف پرچھایاں رہ گئی ہیں۔ پہلے والا اوکاڑہ بدل گیا ہے۔ بالکل بدل گیا ہے۔

QOSHE -      بدلا ہوا اوکاڑہ - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     بدلا ہوا اوکاڑہ

7 0
28.11.2023

میں گزشتہ ہفتے پاکستان آکر معمول کے مطابق اوکاڑہ کا ایک چھوٹا سا چکر لگا کر واپس لاہور میں موجود ہوں۔ میرے جیسے پردیسی جب اپنے اس سابق وطن میں سال چھ مہینے کے بعد آتے ہیں تو وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ انہیں پہلے کی نسبت کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن مجھے اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی بدلے ہوئے اوکاڑہ سے واسطہ پڑا۔

جب میں اوکاڑہ کی بات کرتا ہوں تو اس میں اوکاڑہ شہر کے علاوہ دو نواحی دیہات شامل تھے جو اب صرف ایک گاؤں رہ گیا ہے۔ والد صاحب کا شہر میں کاروبار تھا لیکن ان کی زمینداری اور نمبرداری قریبی گاؤں 48تھری آر میں تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت میں پیش نہیں کر سکتے، سپرنٹنڈ نٹ اڈیالہ جیل کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کو خط

اس سے ذرا دور دریائے راوی کی طرف برج جیوے خان ہے جہاں ہماری پھوپھی کا گھر تھا۔ میں چھٹیاں گزارنے چک 48تھری آر میں اپنے ماموں کے گھر آتا تھا۔ برج جیوے خاں میں پھوپھی کا گھر بے آباد ہو گیا اس لئے اب برج وزٹ کی فہرست سے خارج ہو گیا۔

اوکاڑہ شہر کی ایک ایک گلی اور 48تھری آر میں نورگلی میں اپنے آوارہ گرد پاؤں کے نقوش مجھے واضح طور پر نظر آتے ہیں۔اوکاڑہ کے بارے میں،میں نے کہا تھا:

وہ شہر سراپا عشق ہی تھا

جو میرے پیاروں کی بستی تھی

اک گھر تھا ایسا وہاں جس میں

میری ماں مری راہیں تکتی تھی

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا

اوکاڑہ شہر میں میرے پرانے پڑوسی اور دوست بزنس مین شیخ خالد کے ساتھ پرانے لوگوں کو تلاش کرنے کا پلان تھا جس کا موقع نہیں بنا۔

میں نے بڑی لاپرواہ اور لاابالی پن والی زندگی گزاری ہے لیکن گزشتہ دس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play