ان دنوں ہماری بیورو کریسی،خاص طور پر پنجاب پولیس اپنی کارکردگی،جوابدہی اور امن و امان میں بہتری کی بجائے اپنی سیلف پروموشن اور پروجیکشن میں زیادہ مصروف ہے اور پنجاب پولیس کے سینکڑوں،بلکہ ہزاروں افسران اور جوان دن رات ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں، ”جگ اْتے نئیں ریساں،ساڈے آئی جی صاب دیاں“۔ کسی زمانے میں ”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی،کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی“ جیسے ترغیبانہ نغمے ریڈیو پر نشر ہوتے تھے اور بچے بڑے پولیس والوں کو دیکھ کر وہ نغمہ پیار اور محبت سے گاتے،انہیں سلام کرتے تھے مگر اب لگتا ہے کہ ’جگ اتے نہیں ریساں ساڈے آئی جی صاب دیا ں‘ ہی پولیس کا ترانہ بن چکا ہے اور یہ پولیس کی تقریبات میں اب باقاعدہ گایا بجایا جاتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ آئی جی پنجاب پولیس کا کوئی دشمن ایسا کام کرا رہا ہے اور انہیں اس وقت بار بار صاحب کہا جا رہا ہے جب اعلیٰ عدلیہ افسروں کے ساتھ ”صاحب“ لکھنے یا صاحب کہنے پر پابندی لگا چکی ہے،کل کلاں کو کوئی جج اس کا از خود نوٹس ہی نہ لے لے اور یوں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

ملک سردی کی شدید لہر کی لپیٹ میں آنیوالا ہے، محکمہ موسمیات

ایسی ہی ایک ویڈیو دیکھ کر میرے ذہن کے پردے پر جو پہلا لفظ ابھرا وہ ”جھوٹی فریب کاری“ تھا۔ ایسی فریب کاری کے ذریعے کسی بندے کو وہ کچھ محسوس ہوتا یا کرایا جاتا ہے جو حقیقت میں ہوتا نہیں ہے، آکسفورڈ ڈکشنری میں فریب ِ نظر یا وہم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: خارجی حقیقت کے بارے میں غلط سوچ یا فیصلہ جو اس سوچ یا فیصلے کے برعکس ناقابل تردید ثبوت موجود ہونے کے باوجود منعقد ہوتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ اس نغمے میں پنجاب کے آئی جی صاحب کی تعریفیں کیوں کی جا رہی ہیں، لیکن اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ پولیس افسر کی کارکردگی کا اندازہ اس کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال سے خود بخود ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے کسی کو کچھ کہنے یا کسی سے کچھ کہلوانے کی ضرورت پیش نہیں آتی،جیسا کہ جج حضرات سے ہم اکثر کوئی سوال پوچھتے تھے تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ جج نہیں ججوں کے فیصلے بولتے ہیں۔ہمارے آئی جی پنجاب پولیس ان دنوں اپنے ماتحتوں کی تعریفیں کرتے اور ان کے ماتحت ان کی تحسین کرتے نہ صرف نظر آتے ہیں بلکہ اس کے لئے پولیس کا ایک شعبہ باقاعدہ ریکارڈنگ کر کے اسے وائرل کرنے کا فریضہ بھی سرانجا م دے رہا ہے تاکہ عوام میں آئی جی اور پنجاب پولیس کی بلے بلے ہو۔

روضہ رسولﷺ کے ایک اور خادم الاغا علی بدایا کا انتقال

لگتا ہے کہ آئی جی پولیس یا پولیس کے اعلیٰ افسران کو محسوس ہو ا ہے کہ عوام میں پولیس کا امیج بہتر ہونا چاہئے،اس کے لئے کبھی وردی اور وردی کا رنگ تبدیل کیا جاتا ہے اور کبھی عہدوں کے نام بھی بدلے گئے۔ سردار عارف نکئی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ایک دفعہ مرحوم عمر شریف کو پنجاب میں اعلیٰ بیوروکریٹس اور پولیس افسران کی ایک محفل میں ہنسنے ہنسانے کے لئے بلایا گیا تو وہاں اُس وقت کے آئی جی بھی موجود تھے،انہیں دیکھ کر عمر شریف کی رگ ظرافت پھڑکی اور بولے کہ پولیس میں چھوٹے اہلکاروں کے عہدے کا نام زیادہ بارعب اور سب سے بڑے افسر کے عہدے کے نام کا رعب نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کہیں ”ہیڈ کانسٹیبل“ تو ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ایک شوہر غصے سے اپنی بیوی کو آواز دے تو وہ آگے سے سہمی سہمی سی جواب دیتی ہے ”آئی جی“۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ خود کو دوسروں سے بالاتر بہتر اور ناگزیر سمجھنے کا وہم محض کسی ایک ادارے یا شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان میں سول سروس کی پہچان بن چکا ہے، مزید برآں خود مختار ریاستوں میں ابھرتی ہوئی جمہوریتوں کی ضرورت سمجھنے کے بجائے بیورو کریسی نے خود کو اعلیٰ ادارے سمجھنا شروع کر دیا ہے، ایسے ادارے جن کے پاس حکمرانی کرنے اور حکمرانی پر اثر انداز ہونے کی ناقابل تسخیر طاقت ہے، نتیجہ یہ کہ بیورو کریسی عوامی خدمات کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں عمومی طور پر ناکام نظر آتی ہے، بیوروکریسی کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر پاور پالیٹکس کو بڑھانے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے، سیاست میں ملوث ہونے اور سیاستدانوں کے منظورِ نظر ہونے کے عمل نے بھی بیوروکریسی میں خود کو ناگزیر سمجھنے کے وہم کو راسخ کر دیا ہے۔

سپر فکس انٹرنیشل ٹیپ بال لیگ سیزن ٹو :شاہد آفریدی دبئی پہنچ گئے

انگریز افسر ہندوستانیوں کو کمتر اور خود کو برتر سمجھتے تھے، ان انگریز افسروں نے اپنے رہنے کے لئے ہندوستان میں پھولوں سے معطر جزیرے بنائے،ان کی رہائش گاہوں کو عوامی آبادی سے دور رکھا گیا، آج بھی پاکستان کی سول سروس کے افسروں اور حکمرانوں کی رہائش گاہیں انہی انگریزوں کی باقیات ہیں، افسوس کہ انگریز یہاں سے چلا گیا لیکن غلامانہ اور مرعوبانہ ذہنیت رکھنے والی افسر شاہی سوچ چھوڑ گیا جو افسر در افسر منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔

پروفیسر حمزہ علوی نے اپنی تصنیف پاکستانی سیاست اور نوکر شاہی کا کردار میں یہی بات ایک الگ انداز میں کی ہے،وہ لکھتے ہیں کہ بیوروکریسی کے طاقتور ہونے کی ایک وجہ انگریز دور میں برطانیہ کی طرف سے عائد کردہ طرزِ حکمرانی ہے جس کے تحت عوام کا اپنے روزمرہ کاموں کے لئے ہر وقت سرکاری اہلکاروں سے واسطہ پڑتا تھا۔

آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کوالیفائر میں اپ سیٹ

کہا یہ جاتا ہے کہ سیاسی حکومت اور سول انتظامیہ عملی طور پر ایک ہی ادارے کے دو وجود ہیں، میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں اور اس حقیقت کا قائل کہ بیورو کریسی اچھی ہو تو حکومت بھی اچھی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ بیوروکریسی اچھی ہو تو ملک کے معاملات بھی بہتر طور پر چلتے رہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہر حکومت ملک اور عوام کے لئے اپنا ایک ایجنڈا لے کر آتی ہے لیکن اس ایجنڈے پر عمل درآمد بیوروکریسی ہی کراتی ہے، یہ بیوروکریسی ہی ہے جو حکومتوں اور حکمرانوں کو یہ بتا سکتی ہے کہ فلاں کام یا فلاں منصوبہ بہتر رہے گا اور فلاں کے منفی نتائج سامنے آنے کا اندیشہ ہے،تعمیر و ترقی اور معیشت کے حوالے سے ہمارا ملک آج جس مقام پر کھڑا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری بیورو کریسی کتنی لائق ہے اور کیا کرتی رہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بیوروکریسی اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے حکمرانوں کے سیاسی مفادات کے تحفظ میں مصروف رہی؟ سیاست میں ملوث ہونے کا نتیجہ ہے کہ بیورو کریسی کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہ رہا چنانچہ عوام اور بیوروکریسی کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے،خود کو برتر اور بہتر ظاہر کرنے کے جس وہم یا فریب کی بات ہم کر رہے ہیں وہ دراصل اسی لاغرضی کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب تک بیورو کریسی اس ڈیلوژن سے باہر نہیں آئے گی اس وقت تک اس ملک اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے حالات بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بے جا تعریفیں بھی وہم اور فریب ِ نظر کو بڑھاتی ہیں، ان سے باز رہ کر ہی عوام اور سول سرونٹس میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن،8دہشتگرد جہنم واصل

QOSHE -        ”نہیں ریساں آئی جی صاب دیاں“ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ”نہیں ریساں آئی جی صاب دیاں“

7 0
27.11.2023

ان دنوں ہماری بیورو کریسی،خاص طور پر پنجاب پولیس اپنی کارکردگی،جوابدہی اور امن و امان میں بہتری کی بجائے اپنی سیلف پروموشن اور پروجیکشن میں زیادہ مصروف ہے اور پنجاب پولیس کے سینکڑوں،بلکہ ہزاروں افسران اور جوان دن رات ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں، ”جگ اْتے نئیں ریساں،ساڈے آئی جی صاب دیاں“۔ کسی زمانے میں ”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی،کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی“ جیسے ترغیبانہ نغمے ریڈیو پر نشر ہوتے تھے اور بچے بڑے پولیس والوں کو دیکھ کر وہ نغمہ پیار اور محبت سے گاتے،انہیں سلام کرتے تھے مگر اب لگتا ہے کہ ’جگ اتے نہیں ریساں ساڈے آئی جی صاب دیا ں‘ ہی پولیس کا ترانہ بن چکا ہے اور یہ پولیس کی تقریبات میں اب باقاعدہ گایا بجایا جاتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ آئی جی پنجاب پولیس کا کوئی دشمن ایسا کام کرا رہا ہے اور انہیں اس وقت بار بار صاحب کہا جا رہا ہے جب اعلیٰ عدلیہ افسروں کے ساتھ ”صاحب“ لکھنے یا صاحب کہنے پر پابندی لگا چکی ہے،کل کلاں کو کوئی جج اس کا از خود نوٹس ہی نہ لے لے اور یوں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

ملک سردی کی شدید لہر کی لپیٹ میں آنیوالا ہے، محکمہ موسمیات

ایسی ہی ایک ویڈیو دیکھ کر میرے ذہن کے پردے پر جو پہلا لفظ ابھرا وہ ”جھوٹی فریب کاری“ تھا۔ ایسی فریب کاری کے ذریعے کسی بندے کو وہ کچھ محسوس ہوتا یا کرایا جاتا ہے جو حقیقت میں ہوتا نہیں ہے، آکسفورڈ ڈکشنری میں فریب ِ نظر یا وہم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: خارجی حقیقت کے بارے میں غلط سوچ یا فیصلہ جو اس سوچ یا فیصلے کے برعکس ناقابل تردید ثبوت موجود ہونے کے باوجود منعقد ہوتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ اس نغمے میں پنجاب کے آئی جی صاحب کی تعریفیں کیوں کی جا رہی ہیں، لیکن اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ پولیس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play