عوام دوست پولیس ہی جرائم پر قابو پاسکتی ہے
بیوروکریسی بالخصوص پولیس اگر اس وقت بری حالت میں ہے اور کوئی کارکردگی نہیں دکھا پا رہی تو اس کی وجہ زبردست پیمانے پر بیرونی مداخلت اور سیاسی تقرریاں اور تبادلے ہیں۔ بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست دان اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ذاتی ملازم سمجھا ہے چاہے یہ پی ٹی آئی کی حکومت ہو یا پھر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی یا پھر کسی فوجی آمر کی۔ ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ پولیس اصلاحات لائی جائیں گی، بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا لیکن جب یہ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو بیورکریسی میں مزید سیاست شامل کر دیتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے دور میں صورتحال خراب تھی تو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ان سے بھی بدتر رہی۔ اس کی مثال پنجاب ہے جہاں متعدد آئی جی پولیس کا تبادلہ کیا گیا، جبکہ صوبائی محکموں کے سیکرٹریز، سینئر فیلڈ افسران جن میں کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، ریجنل پولیس افسران، ڈسٹرکٹ پولیس افسران وغیرہ شامل تھے، کو بھی مہینوں میں تبدیل کیا گیا اور شاید ہی ایسی کوئی مثال ہو جہاں کسی اہم سرکاری ملازم کو اس کے عہدے کی معیاد مکمل کرنے دی گئی ہو۔ پولیس میں سیاسی مداخلت نے اس ادارے کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے پولیس سروس ایک پروفیشنل فورس نہ بن سکی۔ اگر پولیس کو آزاد اور خودمختار بنا دیا جاتا اور اس میں سیاسی مداخلت نہ کی جاتی تو آج پاکستان کی فوج کی طرح پولیس کا شمار بھی دنیا کی کامیاب پولیس فورسز میں ہوتا۔پاکستان میں پولیس کی تاریخ افسوس ناک ہی رہی ہے۔ آج بھی ایف آئی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website