فلسطین۔۔۔ سب انگشت بدنداں
موجودہ بین الاقوامی صورتحال کو دیکھ کر حساس لوگ تکلیف اور کرب کی وجہ سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔ نارمل لوگوں کو طاقتور ممالک کی سرد مہری دیکھ کر چپ لگ گئی ہے اور ہٹ دھرم اپنی بے حسی اور ہٹ دھرمی کی بدولت ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ کاش انسان کے دن پھر جاتے اور وہ عقل کے ناخن لیتا اور سوچنا شروع کردیتا۔ سوچ بچار سے بے چارے مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حالات بدلے جاسکتے تھے۔ ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم زندہ تو زندوں پر الزام لگاتے ہی ہیں ہمارے ہاں تو زندہ گزرے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ہم گزرے کل کے معاملات کی پرکھ پرچول کرکے آج انصاف کا ترازو نصب کرنا چاہتے ہیں تاکہ متوفیان کا فیصلہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کو آسانی ہو اور ہم آج کے روز مرہ معاملات میں بغیر کچھ کئے کرتے سرخرو ہو جائیں، حالانکہ سرخرو ہونے کے لئے نان جویں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنی اور اپنے نظریات کی بقا کے لئے گھر بار چھوڑنا پڑتے ہیں اور رب کے حضور سرخرو ہونے کے لئے کربلا میں ڈیرے لگانا پڑتے ہیں، سر کٹوانا پڑتے ہیں اور خیمے جلوا کر گلیوں اور بازاروں میں نیزے پر چڑھ کر قرآن سنانا پڑتا ہے۔ تب جا کر شام خون آشام ہوتی ہے اور سحر نمودار ہونے کی آس پیدا ہوتی ہے۔ یہ سارا کچھ ایسے تھوڑا ہو جاتا ہے۔ سر پر ہتھوڑے پڑنے سے آنکھیں کھلتی ہیں۔ آج آنکھ جونہی اپنے ارد گرد دیکھتی ہے تو عقل کہتی ہے کہ شاید انسانیت مکمل طور پر مر گئی ہے۔ فلسطین کی صورت حال بھی کچھ اسی طرح کا پیغام دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتا ہے۔ ہر چیز کا اوہلہ اتار دیتا ہے اور بڑے بڑے نام نہادوں کے منہ سے نقاب اتار دیئے جاتے ہیں اور نقاب اترتے ہی ہر سو شور مچ جاتا ہے۔ بچے عورتیں اور جوان تھوک کے حساب سے مر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں تندرست وتوانا اپاہج ہو رہے ہیں۔ ہنستے بستے گھروں کو ملبے کے ڈھیروں میں بدلا جارہا ہے اور ہم ہیں کہ فقط دعائیں مانگ رہے ہیں اور ایسے بد معاشوں کو بددعائیں دیکر اپنے آپ کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ تہذیب کے علمبردار منافقت کا لحاف لے کر........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website