بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی ملت اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی تھی خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ برصغیر پر انگریز قابض ہوگئے مسلمان پوری دنیا میں محکوم و مقہور تھے۔ ایسے میں اقبال کا وجود نعمت ِ خداوندی تھی اور آواز مجاہد کی اذاں تھی جس گونج سے عرب و عجم میں بیداری کی لہر ائی۔ بقول شاعر

ہور وی کئی قوم دے دردی اپنیاں بانگاں دیندے رہے

ستی قوم اچانک اٹھ گئی تاثیراں نے اقبال دیاں

اقبال کی شاعری کا مقصد ملت کی نشاط ثانیہ تھا۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے۔

پہلا ٹی20, جوش انگلس کی سنچری رائیگاں، میچ بھارت کے نام

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ است

سوئے قطار مے کشم تاقہِء بے زمام را

مدیر مخزن شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں۔ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا۔ جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے، جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کے اردو داں دنیا کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت دوام روم ایران اور فرنگستان تک پہنچ گئی ہے 1905ء سے 1908ء تک کا زمانہ انہوں نے یورپ میں گزارا ایک دن اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا مصمم ارادہ ہے کہ شاعری ترک کر دیں جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے وہ کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے ان سے کہا آپ کی شاعری ایسی نہیں ہے کہ اسے ترک کیا جائے آپ کے کلام میں بہت تاثیر ہے،جس سے ممکن ہے ہماری درماندہ قوم کے امراض کا علاج ہوسکے ایسی مفید خداد طاقت کو بیکار کرنا درست نہ ہوگا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادہئ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعر اختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لئے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں وہ ان کے لئے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لئے بھی مفید ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

بیرسٹر شیخ عبدالقادر اور پروفیسر آرنلڈ بھی اس لحاظ سے ہمارے محسن ہیں کہ انہوں نے علامہ اقبالؒ کو شاعری جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ علامہ کی ولولہ انگیز شاعری کی بدولت آج وہاں بھی اللہ اکبر کی آواز سنائی دے رہی ہے جہاں اذان دینے پر پابندی تھی۔ قرآن حدیث اور ہر قسم کی اسلامی کتابیں جلا دی گئی تھیں۔ بیداری کی لہر ساری دنیا میں اٹھی فرنگ کی سلطنت سمٹ گئی روس پارہ پارہ ہوگیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا باعث بھی کلام اقبال ہے چند سال پہلے ایران سے ایک تبلیغی جماعت سرگودھا آئی تھی یہ بات انہوں نے مجھے بتائی تھی،ان کا کہنا تھا کہ ایران میں اقبال کو اقبال لاہوری کہا جاتا ہے۔ تہران یونیورسٹی کا مجلہ اقبال نمبر بھی مجھے دیا تھا۔اقبال کا نور بصیرت اسقدر وسیع تھا کہ یورپ عرب و عجم ہر جگہ کے مسائل معاملات ان کے علم میں تھے۔ طرابلس کی جنگ خلافت ِ عثمانیہ۔ مغلیہ سلطنت کا زوال۔ چین کی تحریک آزادی گوئٹے مسولینی کارل مارکس رومی غزالی رازی مذہب سیاست تاریخ فلسفہ شعروادب بھگتی تحریک ملائی و پیری سب ان کی نگاہ میں تھے۔ قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ تھا ان کے کلام کے لاتعداد اشعار قرآنی آیات اور احادیث سے ماخوذ ہیں۔صرف اسلامیانِ ہند ہی نہیں پورا عالم اسلام ان کے ولولہ انگیز کلام سے بیدار ہوا ہے۔ نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات سے متعلق ضابطہ اخلاق کی منظوری دے دی

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اظہار سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت و سیارہ

نہایت قناعت پسند تھے انگیز کے دورِ میں حکومت پر تنقید غداری قرار دی جاتی تھی اقبال کی حق گوئی اور بیباکی نے اس کی پرواہ نہ کی انہیں جنوبی افریقہ کے گورنر کے عہدے کی پیشکش کی گئی،جو انہوں نے مسترد کر دی۔ نظام دکن کے وزیراعظم سر اکبر حیدری نے جاہ و مزلت اور مال و زر کی پیشکش کی، جس کے جواب انہوں نے لکھ بھیجا۔

کراچی کے بعد کوئٹہ پولیس کے اہلکار بھی ڈکیتی میں ملوث نکلے

میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سرِ درویش

کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانند آب بنات

غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی برکات

ان کی ساری زندگی قوم کے لئے وقف تھی۔ مال و دولت دنیا ان کے نزدیک وہم و گماں کے بت تھے حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات ان کا رول ماڈل تھی قرآن و سنت کے شارح تھے یہی ان کا پیغام تھا جو آج بھی ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔

با مصطفی بارساں خویش راہ کہ ہمہ دین اوست

گربا او نہ رسیدی تمام بولہبی است

بجلی مہنگی کیے جانے پر کےالیکٹرک کا مؤقف بھی آ گیا

اس وقت بھی دنیائے اسلام مشکلات کا شکار ہے۔ اقبال کا پیغام تا حال بانگ ِ درا ہے۔ ضرورت اس بانگ ِ درا کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے کہ یہی علاج غم دوراں ہے۔ حکیم الامت کا خطاب ان کو جس نے بھی دیا کیا خوب دیا۔ ان سے زیادہ ملت اسلامیہ کی فکر ان کے عہد سے تاحال کسی میں نظر نہیں آئی۔ ملت کا گرانمایہ اثاثہ فکر اقبال ہے۔ یہ جتنا عام فہم ہوگا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اربابِ اختیار سے التماس ہے کہ کلام کو تعلیمی نصاب کے ہر درجہ کی کتاب میں شامل کریں،جو کہ ایک متحد اور مضبوط قوم بننے کے لئے ضروری ہے۔

QOSHE -        فکر ِ اقبال اور ملت اسلامیہ - زبیر بسرا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       فکر ِ اقبال اور ملت اسلامیہ

8 0
24.11.2023

بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی ملت اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی تھی خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ برصغیر پر انگریز قابض ہوگئے مسلمان پوری دنیا میں محکوم و مقہور تھے۔ ایسے میں اقبال کا وجود نعمت ِ خداوندی تھی اور آواز مجاہد کی اذاں تھی جس گونج سے عرب و عجم میں بیداری کی لہر ائی۔ بقول شاعر

ہور وی کئی قوم دے دردی اپنیاں بانگاں دیندے رہے

ستی قوم اچانک اٹھ گئی تاثیراں نے اقبال دیاں

اقبال کی شاعری کا مقصد ملت کی نشاط ثانیہ تھا۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے۔

پہلا ٹی20, جوش انگلس کی سنچری رائیگاں، میچ بھارت کے نام

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ است

سوئے قطار مے کشم تاقہِء بے زمام را

مدیر مخزن شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں۔ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا۔ جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے، جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کے اردو داں دنیا کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت دوام روم ایران اور فرنگستان تک پہنچ گئی ہے 1905ء سے 1908ء تک کا زمانہ انہوں نے یورپ میں گزارا ایک دن اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا مصمم ارادہ ہے کہ شاعری ترک کر دیں جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے وہ کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے ان سے کہا آپ کی شاعری ایسی نہیں ہے کہ اسے ترک کیا جائے آپ کے کلام........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play