دو تین باتیں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہماری اکانومی کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہو پا رہی ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں‘ سبھی جانتے ہیں۔ یہ اس وقت بالکل منجمد (Struck) ہو چکی ہے‘ یعنی مکمل طور پر جمود کا شکار ہے۔ کوئی ٹریڈنگ نہیں‘ کوئی بزنس نہیں‘ کوئی امپورٹ نہیں‘ کوئی ایکسپورٹ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روپے کی قدر مستحکم نہیں ہو پا رہی ہے۔ ٹھیک ہے پچھلے چند ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے لیکن اب یہ ایک جگہ رکی ہوئی ہے اور مزید نیچے نہیں آ رہی۔ ایک جانب یہ معاملہ ہے دوسری طرف کچھ نام نہاد دانشور روزانہ ٹی وی پر آ کر سپیکولیشنز کر رہے ہیں کہ ڈالر 240 کا ہو جانا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ڈالر 250 کا ہو جانا ہے۔ اور ڈالر کی پوزیشن یہ ہے کہ275‘ 280 کے درمیان آ کر رک گیا ہے۔ کبھی چند پیسے کم ہو جاتا ہے‘ کبھی چند پیسے زیادہ ہو جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تمام عوامل کی وجہ سے قومی معیشت بھی جمود کا شکار ہے۔ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ہیں کہ انتخابات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے‘ صورت حال کچھ واضح ہو تو وہ کچھ کریں۔ دوسرا یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے بینک نے مارک اپ برقرار رکھا ہے جس کے باعث انڈسٹری پر بہت زیادہ پریشر ہے۔ کاروں کی خرید و فروخت کے معاملات بھی تعطل کا شکار ہیں اور یہ شعبہ بھی شدید دباؤ میں ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا اور معاشی بدحالی‘ اکنامک دباؤ‘ افراطِ زر جیسے معاملات اس لیے سر اٹھا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں الیکشن نہیں ہو رہے۔ ان کے انعقاد کو مسلسل تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے لیکن الیکشن شیڈول کا کہیں دور دور تک کچھ اتا پتا نہیں۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنایا،خدشہ ہے تحریری فیصلہ تبدیل ہوجائیگا، علی ظفر

الیکشن کو بلا وجہ ڈیلے (Delay) کرنا ہمیں مہنگا پڑ رہا ہے اور ابھی مزید مہنگا پڑے گا۔ اس لیے الیکشن فوری طور پر ہونے چاہئیں تاکہ جو بھی گورنمنٹ آئے وہ ملک کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے چلا سکے‘ آئی ایم ایف کے ساتھ بات کر سکے‘ پوری دنیا کے ساتھ صحیح طریقے سے ڈیل کر سکے۔ اب دنیا کو بھی پتا ہے کہ جو آئے ہیں وہ کیئر ٹیکر ہیں‘ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ ان سے بات کریں گے‘ کوئی ڈیل کریں گے تو اس میں وزن نہیں ہو گا۔ اسی لیے کوئی ان کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں ہے اور پھر ان کے کنٹرول میں بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔ کیئر ٹیکر مہنگائی کم نہیں کر سکے‘ ڈالر نیچے نہیں لا سکے‘ مسائل حل نہیں کر سکے تو باقی پھر کیا رہ جاتا ہے؟ کبھی کچھ ہو رہا ہے کبھی کچھ ہو رہا ہے۔ ان چیزوں کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے لیکن یہی نہیں ہو رہا۔ اس کے بارے میں گورنمنٹ کو سوچنا چاہیے‘ خصوصاً الیکشن کمیشن کو سوچنا چاہیے کہ ان سارے مسائل کا حل فوری طور پر الیکشن کرانا ہے۔ یہ کوئی بات نہیں کہ انتخابات کرانے کے لئے قائم کی گئی نگران حکومت یہ کہے کہ الیکشن کی تاریخ دینا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن کیا حکومت سے الگ کوئی باڈی یا تنظیم ہے؟ اب جبکہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ الیکشن کا شیدول بھی جلد از جلد جاری کیا جائے تاکہ سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا منشور جاری کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں سے یہ کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا اگر ضروری سمجھتی ہیں تو بے شک یہ سلسلہ جاری رکھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کچھ بتائیں کہ وہ کس بنیاد پر انہیں منتخب کریں۔ عوام کو کیا ملے گا انہیں منتخب کر کے؟

ٹورنٹو:کینیڈا امریکا کے نیاگرافالز کے قریب رینبو برج گاڑی میں دھماکا

اب جبکہ الیکشن کی آمد آمد ہے تو سب اپنا اپنا زور لگا رہے ہیں۔ جو کل شکنجے میں آئے ہوئے تھے حالات کے پلٹا کھانے کی وجہ سے وہ اس وقت کلیئر ہیں اور جو کلیئر تھے وہ شکنجے میں آئے ہوئے ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے اور لگتا ہے کہ یہی ہوتا رہے گا۔ وہی گیم ہے وہی پرانے طریقہ ہائے کار ہیں جن کے مطابق سارا نظام چلانے کی کوشش ہوتی رہی ہے‘ ہو رہی ہے اور غالباً ہوتی رہے گی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ خود کو بدلنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ نہ عوام اپنی روش سے ہٹ رہے ہیں‘ نہ حکمران بدل رہے ہیں‘ نہ ہی کنگ میکر بدل رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ کیا عام انتخابات سے زیادہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن ضروری نہیں ہیں؟ صوبائی اور قومی اسمبلیاں تو قانون سازی کرتی ہیں۔ لوگوں کے مسئلے مسائل تو بلدیاتی انتخابات کرانے سے ہی حل ہو سکیں گے۔ کیا اس طرف اربابِ بست و کشاد کو توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے؟

عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت 41 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش

عام عوام کی جو ضروریات ہیں وہ یہی ہیں کہ کہیں گٹر کا ڈھکن نہیں ہے‘ کہیں بجلی کا پرابلم چل رہا ہے‘ کہیں کسی کی لڑائی ہو رہی ہے‘ کہیں پولیس تھانے کا مسئلہ ہے‘ کوئی سڑک ٹوٹی ہوئی ہے‘ کہیں گلی ٹوٹی ہوئی ہے۔ جو ایم این ایز ہیں یا جو ایم پی ایز ہیں ان کی سرگرمیاں ہی کچھ اور ہیں۔ ایسے میں اگر لوکل باڈیز کے الیکشن بھی ہو جائیں تو لوگوں کے مسائل کے حل کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے۔ ہمارے نگران چیف منسٹر نقوی صاحب ماشااللہ بہت زیادہ ایکٹو ہیں‘ بہت زیادہ کام کر رہے ہیں‘ حکمران اسی طرح کا ہونا چاہیے‘ دن رات انہوں نے ایک کیا ہوا ہے۔ ان کی خدمت میں صرف ایک عرض کرنی ہے کہ آپ لوگ جو سڑکیں بنا رہے ہیں یا باقی ترقیاتی کام کرا رہے ہیں‘ سڑکوں پر جو یو ٹرنز بنا رہے ہیں‘ جس طرح لاہور میں سڑکوں کو سگنل فری بنا رہے ہیں وہ سب درست‘ بجا اور صائب لیکن میرے خیال میں سب سے پہلے انکروچمنٹ ختم ہونی چاہیے۔ اگر تجاوزات قائم رہیں تو سڑکیں کشادہ کرنے اور انہیں سگنل فری بنانے کا کیا فائدہ؟ پولیس کی ساری فورس کو سارے کام چھوڑ کے ان کو پکڑنا چاہیے جو اشارے توڑتے ہیں یا جو رونگ آتے جاتے ہیں۔ اسی طرح ٹریفک کے مسئلے مسائل حل ہو سکیں گے اور شہروں میں کچھ تنظیم پیدا ہو سکے گی۔ حاصلِ گفتگو یہ کہ قومی سطح کے معاملات چلانے کے لیے ملک میں جلد از جلد عام انتخابات ہونے چاہئیں اور لوگوں کے عام گلی محلوں کے مسائلکے حل کے لیے لوکل باڈیز کے الیکشن ناگزیر ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -    عام انتخابات اور معاشی جمود - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   عام انتخابات اور معاشی جمود

15 1
23.11.2023

دو تین باتیں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہماری اکانومی کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہو پا رہی ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں‘ سبھی جانتے ہیں۔ یہ اس وقت بالکل منجمد (Struck) ہو چکی ہے‘ یعنی مکمل طور پر جمود کا شکار ہے۔ کوئی ٹریڈنگ نہیں‘ کوئی بزنس نہیں‘ کوئی امپورٹ نہیں‘ کوئی ایکسپورٹ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روپے کی قدر مستحکم نہیں ہو پا رہی ہے۔ ٹھیک ہے پچھلے چند ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے لیکن اب یہ ایک جگہ رکی ہوئی ہے اور مزید نیچے نہیں آ رہی۔ ایک جانب یہ معاملہ ہے دوسری طرف کچھ نام نہاد دانشور روزانہ ٹی وی پر آ کر سپیکولیشنز کر رہے ہیں کہ ڈالر 240 کا ہو جانا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ڈالر 250 کا ہو جانا ہے۔ اور ڈالر کی پوزیشن یہ ہے کہ275‘ 280 کے درمیان آ کر رک گیا ہے۔ کبھی چند پیسے کم ہو جاتا ہے‘ کبھی چند پیسے زیادہ ہو جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تمام عوامل کی وجہ سے قومی معیشت بھی جمود کا شکار ہے۔ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ہیں کہ انتخابات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے‘ صورت حال کچھ واضح ہو تو وہ کچھ کریں۔ دوسرا یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے بینک نے مارک اپ برقرار رکھا ہے جس کے باعث انڈسٹری پر بہت زیادہ پریشر ہے۔ کاروں کی خرید و فروخت کے معاملات بھی تعطل کا شکار ہیں اور یہ شعبہ بھی شدید دباؤ میں ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا اور معاشی بدحالی‘ اکنامک دباؤ‘ افراطِ زر جیسے معاملات اس لیے سر اٹھا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں الیکشن نہیں ہو رہے۔ ان کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play