آپ نے معروف گلوکارہ بلقیس خانم کی گائی ہوئی اسد محمد خان کی غزل انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند تو ضرور سنی ہو گی، اسد محمد خان نے پتا نہیں کون سے انوکھے لاڈلے کی بات کی تھی، ہمارے ملک میں تو جگہ جگہ لاڈلوں کی بادشاہی نظر آتی ہے، بیوروکریسی میں کسی کو کوئی من پسند لاڈلا نظر آ جائے تو پھر اس کی راکٹ کی رفتار جیسی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، پولیس یا کسی اور شعبے میں کوئی لاڈلا نظر آ جائے تو پھر اس کو بھی ایس ایچ او اور ڈی پی او بننے اور اس سے بھی آگے کی منزلیں طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، کوئی بہت ہی زیادہ لاڈلا ہو تو اس کے حوالے کوئی بہت بڑ ا کھاتا پیتا ادارہ کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بہتر گزر بسرکر سکے۔ پاکستانی سیاست دان، لاڈلے بیوروکریٹ اور لاڈلے پولیس افسر کو اپنے علاقے میں تعینات کرانے میں سہولت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان لاڈلوں سے اپنی مرضی کے کام اور فیصلے کرانا بہ نسبت غیر لاڈلوں کے آسان ہوتا ہے، ہمارے ملک میں سیاسی لاڈلے بھی پائے جاتے ہیں اور جب کوئی سیاست دان لاڈلا ہو جائے تو پھر اس کو وزارت عظمیٰ یا کم از کم وزارت علیا کے سنگھاسن تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا،گزشتہ پی ٹی آئی دور حکومت میں سردار عثمان بزدار سابق وزیر اعظم عمران خان کے لاڈلے بنے رہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنایا،خدشہ ہے تحریری فیصلہ تبدیل ہوجائیگا، علی ظفر

ہمارا یہ بھی مسئلہ ہے کہ کوئی بھی لاڈلا مستقل لاڈلا نہیں رہتا، وقت پڑنے یا ضرورت پوری ہونے پر نظروں سے اتر بھی جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ کوئی نیا لاڈلا لے لیتا ہے، یوں تو پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اسی طرح لاڈلے بننے اور نظروں سے اترنے کے عمل سے عبارت ہے لیکن اگر ہم ماضی بعید کو نظرانداز کر دیں اور 1980 کی دہائی سے شروع کریں تو بھی یہی حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ہر دور ہر زمانے میں وقت کے تقاضوں کے مطابق لاڈلے بدلتے رہے ہیں۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات لاڈلے قرار پائے تھے اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت محمد خان جونیجو کے حوالے کی گئی تھی کہ اس وقت وہی لاڈلے نظر آتے تھے لیکن جلد ہی وہ نظروں سے اتر بھی گئے اور حالات یہاں تک پہنچے کہ ان کی حکومت ہی ختم کر دی گئی۔ 1988 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو لاڈلی قرار پائیں لیکن جلد ہی انہیں منتخب کرنے والوں کا جی ان سے بیزار ہو گیا، پہلے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی، وہ ناکام ہو گئی تو اگلے ہی سال کچھ معاملات کو بنیاد بنا کر انہیں حکومت سمیت رخصت کر دیا گیا اور نواز شریف ارباب بست و کشاد کے لاڈلے بن گئے، لیکن پھر اس لاڈلے نے کھیلنے کے لیے چاند مانگ لیا اور کہا کہ وہ کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ منتخب کرنے والے یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی ڈکٹیشن قبول نہ کی جائے؟ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا گیا اور اگلے عام انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ انتخاب کنندگان کی منظورِ نظر بن گئیں، سلسلہ پھر بھی نہ چل سکا معاملات پھر بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کے اپنے منتخب کردہ صدر نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اگلے عام انتخابات میں نظرِ انتخاب پھر نواز شریف پر پڑی اور انہیں پھر لاڈلا قرار دیا گیا لیکن نتیجہ دھاک کے تین پات والا نکلا، دو سال بعد ہی نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی گئی بلکہ ہائی جیکنگ ایشو بنا کر ان کے خلاف مقدمات بھی قائم کر دیے گئے اور یہ معاملہ بالآخر نواز شریف صاحب کی مع اہلِ خانہ جلا وطنی پر منتج ہوا۔ اس کے بعد مختلف پارٹیوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) میں سے بندے توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنائی اور اس کے لاڈ لڈانے کی کوشش کی گئی، یہ حکومت اپنی مدت تو پوری کر گئی لیکن پانچ سال کے عرصے میں ملک کا انتظامی سربراہ کئی بار تبدیل کیا گیا۔ 2008 میں ہونے والے عام انتخابات کا نتیجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لاڈلا بننے کی صورت میں نکلا اور کسی نہ کسی طرح یہ حکومت بھی اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب رہی، کیا پیپلز پارٹی کبھی انتخابات کرانے والوں کی لاڈلی جماعت رہی؟ بلاول بھٹو زرداری کا تو یہ کہنا ہے کہ پی پی پی کو کبھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملا پھر بھی انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حکومت بنا کر دکھائیں گے۔ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر لاڈلی قرار پائی تھی لیکن جلد ہی دل سے اتر بھی گئی کیونکہ ایک نیا نویلا لاڈلا اقتدار کا منتظر تھا، پی ٹی آئی کو برسر اقتدار تو بڑے شوق کے ساتھ لایا گیا لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔

ٹورنٹو:کینیڈا امریکا کے نیاگرافالز کے قریب رینبو برج گاڑی میں دھماکا

اب ایک بار پھر نئے عام انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے اور زبان زد عام سوال یہ ہے کہ اس بار کون لاڈلا قرار پائے گا، جو صورت حال نظر آ رہی ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو آگے لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر صاف و شفاف الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سلیکشن ہی کرنا ہے تو پھر الیکشن کرانے کا کیا فائدہ؟ جبکہ سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے پوچھا ہے کہ کیا ہم لاڈلے اس لیے ہو گئے کہ ہمارے اوپر جھوٹے مقدمات ختم ہو رہے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل یعنی لاڈلوں کو چننے اور پھر انہیں نظر انداز کرنے کے اس سارے سلسلے سے عوام کو یا ملک کو اب تک کیا فائدہ ہوا کہ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا جس کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت اپنے مقرر کیے گئے اہداف تک پہنچنے میں ناکام رہی؟ یہ نقصان کس کا نقصان ہے؟ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ اس نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہو سکے گا؟ اگر لاڈلوں کے انتخاب کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا تو کیا انتخابات کے انعقاد کو جمہوری عمل قرار دیا جا سکے گا؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کو بنیاد بنا کر لاڈلوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر وہ کون سے پیمانے ہیں جن کی بنا پر ان لاڈلوں کو مسترد بھی کر دیا جاتا ہے؟ کیا اس سے واقعی ملکی سلامتی وابستہ ہے یا پھر دلہن وہی جو پیا من بھائے۔ جب تک اس سوال کا کوئی ٹھوس اور منطقی جواب تلاش نہیں کیا جاتا تب تک ہمارے ملک میں ایک حقیقی ٹھوس جامع اور مستحکم جمہوری حکومت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو لاڈلا بنانے والے عوام ہیں یا کچھ اور قوتیں، انہیں بہرحال اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سے ملک یا قوم کو کیا فائدہ ہوا؟ اسد محمد خان نے اپنی غزل میں لاڈلوں کو انوکھا قرار دیا تھا اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ انوکھے کون ہیں؟ لاڈلے یا ان لاڈلوں کو منتخب کرنے والے؟

عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت 41 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش

QOSHE -        انوکھا لاڈلا - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       انوکھا لاڈلا

15 0
23.11.2023

آپ نے معروف گلوکارہ بلقیس خانم کی گائی ہوئی اسد محمد خان کی غزل انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند تو ضرور سنی ہو گی، اسد محمد خان نے پتا نہیں کون سے انوکھے لاڈلے کی بات کی تھی، ہمارے ملک میں تو جگہ جگہ لاڈلوں کی بادشاہی نظر آتی ہے، بیوروکریسی میں کسی کو کوئی من پسند لاڈلا نظر آ جائے تو پھر اس کی راکٹ کی رفتار جیسی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، پولیس یا کسی اور شعبے میں کوئی لاڈلا نظر آ جائے تو پھر اس کو بھی ایس ایچ او اور ڈی پی او بننے اور اس سے بھی آگے کی منزلیں طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، کوئی بہت ہی زیادہ لاڈلا ہو تو اس کے حوالے کوئی بہت بڑ ا کھاتا پیتا ادارہ کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بہتر گزر بسرکر سکے۔ پاکستانی سیاست دان، لاڈلے بیوروکریٹ اور لاڈلے پولیس افسر کو اپنے علاقے میں تعینات کرانے میں سہولت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان لاڈلوں سے اپنی مرضی کے کام اور فیصلے کرانا بہ نسبت غیر لاڈلوں کے آسان ہوتا ہے، ہمارے ملک میں سیاسی لاڈلے بھی پائے جاتے ہیں اور جب کوئی سیاست دان لاڈلا ہو جائے تو پھر اس کو وزارت عظمیٰ یا کم از کم وزارت علیا کے سنگھاسن تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا،گزشتہ پی ٹی آئی دور حکومت میں سردار عثمان بزدار سابق وزیر اعظم عمران خان کے لاڈلے بنے رہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنایا،خدشہ ہے تحریری فیصلہ تبدیل ہوجائیگا، علی ظفر

ہمارا یہ بھی مسئلہ ہے کہ کوئی بھی لاڈلا مستقل لاڈلا نہیں رہتا، وقت پڑنے یا ضرورت پوری ہونے پر نظروں سے اتر بھی جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ کوئی نیا لاڈلا لے لیتا ہے، یوں تو پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اسی طرح لاڈلے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play