دانوں بھرے تھال اور "دعاؤں بھرے دالان " میں پرسرار سی مماثلت ہے۔ آتش کدہ کی سی رموز بھری فضا۔جیسے بھڑکتی آگ کا الاؤ ٹھنڈے بادل نے ڈھانپ رکھا ہو۔ جیسے بنجر زمین پر لہلہاتی فصلیں میٹھے پانیوں سے سیراب رہیں۔ شاعر کی شخصیت میں جو دھیمی سی آنچ ہے جو باہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔وہ آنچ ہر شعر کے اندروں موجود ہے:

کوئی دعا مرے اندر نمو کو جاری رکھے

ہزار بار بھی ٹوٹوں تو پھر دوبارہ بنوں

شاعر دعا کی تاثیر کے لوازمات سے واقف ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ" دعاؤں بھرے دالان "میں درویش کی بیٹھک ہے جہاں دل کی کیفیت میں ایسے ایسے خم ابھرتے ہیں جو کبھی رکوع بن جاتے ہیں اور کبھی سجدہ۔بظاہر ہوا رکی رہتی ہے لیکن سفر کی لے جاری رہتی ہے۔

پاکستان سمیت کسی ملک میں سیاسی عہدے کے امیدواروں پر کوئی پوزیشن نہیں، امریکہ

تپتی دوپہر میں جلتے ہوئے لوگوں کے لیے

ایک پنکھا تھا دعا کا جو ہوا دیتا تھا

شاعر عاجزی کے بوجھ سے جل رہا ہے اور کسی اور ہی فضا میں سانس لیتا ہے۔

دعا کی بھیڑ تھی اتنی جگہ نہ ملتی تھی

کسی غبار کو سینے میں گرد بھرنے کی

دعا وہ دوا ہے جو ہر مرض کے لیے کارگر ہے۔

سینوں اور زمینوں کی سیرابی کیسے ممکن ہو

اس بستی میں جس میں کمی ہو پھولوں اور دعاؤں کی

وقت کے زہر کو نگلنے والی دعائیں سپیرے کے لیے عصا ہیں وہ عصا جو اسے سیدھا کھڑا ہونے میں مدد کرتا ہے۔ حماد نیازی کے ہاں تخلیقیت کا وفود طلسماتی گرہوں کے سائے میں جلا پاتا ہے۔ جغرافیائی حدود اور تعصب کی کرنیں بجھتی چلی جاتی ہیں۔

سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر پہلی سماعت آج ہوگی

شاعر سطحی پن کی درزوں میں بھی نہیں جھانکتا۔ اس کی نظریں غیر مرئی مناظر کی طرف گڑی ہیں۔ دم سادھ کر وہ ان ہونی کا کرب سینچتا ہے۔ یوں لگتا ہے یوگا کا کوئی آسن ہے جو شاعر کے وجود کو دہکائے رکھتا ہے۔

حماد نیازی کے ہاں کرب کی جڑیں زمین سے منسلک ہیں جو زماں کے گھاو میں ڈھل جاتی ہیں، لیکن شاعر مابعد بصارت کی مدد سے گمان کا سفر طے کرتا ہے۔اس کے ہاں تدبر کے زاویے ہیں جو قبولیت کا رستہ آسان کرتے ہیں۔

اک تیقن میں گزرتے تھے شب و روز مرے

اور کوئی کار جنوں تھا جو جلا دیتا تھا

پاکستان سوشل سینٹر شارجہ میں بچوں کا عالمی دن منایا گیا

جنوں بے یقینی کی گھات نہیں بچھاتا۔بلکہ وجود کی باطنی تہہ داری سے قبولیت تک رسائی دیتا ہے۔ شاعر ایک روحانی انبساط کا اسیر ہے جو روایات کی روشنی ہے۔رشتوں، انسانیت اور احساسات کی مہک در و دیوار کو مہکائے رکھتی ہے۔حماد نیازی مکمل تہذیب کا نام ہے جو روایت کی پگڈنڈی پر سہولت سے رواں دواں ہے۔حماد کا یہ دالان اقدار کے ارتقائی عمل کا گڑھ ہے۔

دیر تک منظر کو دیکھا اور آنکھیں بند کیں

یک بہ یک منظر مری آنکھوں کے اندر آ گیا

شاعر کے ہاں کلچر یا ثقافت میں نیا پن کا معانی تعلق کی مضبوطی کے سوا کچھ نہیں۔ محبتوں کے بے شمار رنگوں کی قوس قزح سے رنگ کشید کرنا اتنا بھی آسان نہیں۔

تندور ایسوسی ایشن اور حکومت میں مذاکرات کے بعد روٹی کی نئی قیمت کا اعلان ہوگیا

یہ ما بعد جدید زمانہ ہم ایسوں کو کیا بدلے گا

ہم مٹی کی رنگت والے کچے گھر بنوانے والے

ہوس، محبت اور دو تہذیبیں ، دو کلچر اور بابو جی

ہٹ فلمیں ہیں، لیکن کب تک، سوچو تو افسانے والے!

ہجرو وصل میں بھی شاعر کا اسلوب روایتی ڈگر سے ہٹ کر سامنے آتا ہے۔ یہ جذبے اپنے باطن کے بھید سے آشنا ہیں۔بے سمت راستے وجود کو بکھرنے نہیں دیتے۔ روح تک تاثیر ضعف بھرے ہاتھوں کی ہی اترتی ہے۔ کچے گھڑے میں دعائے سلامتی کی مہک اترتی ہے اور منظر یک نظری کا بوجھ برداشت نہیں کرتا بلکہ لہروں کی روانی ریگستان میں بھی چشمے بہا دیتی ہیں۔

لاہور: 6 افراد کو گاڑی سے کچلنے کا کیس، ملزم افنان کی عمر کا ٹیسٹ آج ہوگا

دشت نوردی اور ہجرت سے اپنا گہرا رشتہ ہے

اپنی مٹی میں شامل ہے مٹی سب صحراؤں کی

وجودی معنویت کسی لمس سے ڈگمگاتی ہے نہ بھٹکی آتما کے پر فریب الفاظ کی اسیر ہوتی ہے۔ ہجر و وصل کے تقابل میں داستانوی فضا تخلیق کی جاتی ہے۔

ہجر کی سر زمینوں سے چلتی ہوئی، دل کے پیڑوں کا نقصان کرتی ہوئی -چاند جیسی وہ پیشانیاں بجھ گئیں، ایک آواز اعلان کرتی ہوئی اور باغ سر سبز میں، پھولوں کی نگہداری میں و دیا اس نے مجھے وصل کی سرشاری یں حماد نیازی کے ہاں ایک رنگ ہر عمارت کے ڈیزائن کو جدت دیتا ہے۔

اسرائیلی بمباری میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا پوتا شہید

QOSHE -       حماد نیازی کے "دعاؤں بھرے دالان"  - ڈاکٹر سعدیہ بشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      حماد نیازی کے "دعاؤں بھرے دالان" 

14 1
22.11.2023

دانوں بھرے تھال اور "دعاؤں بھرے دالان " میں پرسرار سی مماثلت ہے۔ آتش کدہ کی سی رموز بھری فضا۔جیسے بھڑکتی آگ کا الاؤ ٹھنڈے بادل نے ڈھانپ رکھا ہو۔ جیسے بنجر زمین پر لہلہاتی فصلیں میٹھے پانیوں سے سیراب رہیں۔ شاعر کی شخصیت میں جو دھیمی سی آنچ ہے جو باہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔وہ آنچ ہر شعر کے اندروں موجود ہے:

کوئی دعا مرے اندر نمو کو جاری رکھے

ہزار بار بھی ٹوٹوں تو پھر دوبارہ بنوں

شاعر دعا کی تاثیر کے لوازمات سے واقف ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ" دعاؤں بھرے دالان "میں درویش کی بیٹھک ہے جہاں دل کی کیفیت میں ایسے ایسے خم ابھرتے ہیں جو کبھی رکوع بن جاتے ہیں اور کبھی سجدہ۔بظاہر ہوا رکی رہتی ہے لیکن سفر کی لے جاری رہتی ہے۔

پاکستان سمیت کسی ملک میں سیاسی عہدے کے امیدواروں پر کوئی پوزیشن نہیں، امریکہ

تپتی دوپہر میں جلتے ہوئے لوگوں کے لیے

ایک پنکھا تھا دعا کا جو ہوا دیتا تھا

شاعر عاجزی کے بوجھ سے جل رہا ہے اور کسی اور ہی فضا میں سانس لیتا ہے۔

دعا کی بھیڑ تھی اتنی جگہ نہ ملتی تھی

کسی غبار کو سینے میں گرد بھرنے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play