بچپن میں جب ٹی وی کا وجود نہیں تھا خاندان کی بزرگ خواتین بچوں کو رات کے کھانے کے بعد مختلف کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس دور میں صرف بچے ہی رات کو ایسی محفلوں میں کہانی نہیں سنا کرتے تھے بلکہ نوجوان، جوان اور بزرگ مرد حضرات بھی رات کو چوپال میں اکٹھے ہوتے اور جہاندیدہ افراد اپنے تجربات سناتے۔ دنیا بھر کے سنے سنائے واقعات بھی جوش و خروش سے سنائے جاتے اور دلچسپی سے سنے جاتے تھے۔ ان واقعات میں ایک پرندے”ہما“کا بھی ذکر ہوا کرتا تھا جو بادشاہ گر تھا اور یہ پرندہ جس کے سر پر بیٹھ جاتا اسے بادشاہ بنالیا جاتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اکیسویں صدی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہما کا ذکر کہاں سے آگیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس تشریف لائے تھے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہما تو جناب میاں صاحب کے سر پر بٹھانے کا موقع نہیں بنا مگر حالات ویسے ہی بنا دئیے گئے، سمجھنے والے سمجھ گئے۔ میاں صاحب لاہور پہنچے تو کوتوال شہر نے سلیوٹ مارا۔ جس کے بعد کھلے میدان میں ”ہما بٹھانے“ کی رسم ادا کی گئی۔ جناب میاں نواز شریف اقبال پارک (منٹو پارک) کے سٹیج پر تشریف لائے تو ”کبوتر بہ شکل ہما“ آزاد کئے گئے اور میدان میں موجود لاکھوں افراد اور ٹی وی سکرین پر کروڑوں افراد نے میاں صاحب کے سراور ہاتھ پر کبوتر کے بیٹھنے کے منظر دیکھے۔ مجھے تو اس وقت بچپن کی سنی”ہما“ کی کہانی یاد آگئی اور مجھے یقین سا ہونے لگا کہ ”ہما“ بیٹھ گیا اب الیکشن کیا کروانے ہیں۔اگر۔۔ مگر۔۔ کی کوئی کیفیت اگر دماغ میں تھی تو وہ گزشتہ تین ہفتوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات نے دور کردی۔ میاں صاحب کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کا سفر تیز رفتاری سے جاری ہے۔ پنجاب حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو ملنے والی سزا معطل کردی۔ معروف وکلا کے مطابق پنجاب حکومت کے پاس سزا معطلی کا اختیار نہیں تھا، مگر پنجاب حکومت کیا کرے اسے میاں صاحب کے سر پر ”ہما“ بیٹھا نظر آرہا ہے اور حکم تو ماننا ہی پڑتا ہے۔ میاں صاحب کی فتوحات کا سلسلہ رکا نہیں جاری ہے۔ ”ان“ کے احکاماتِ پر اپنی منزل کے رخ کا تعین کرنے والوں کو بھی ”ہما“ نظر آچکا ہے یا دکھایا جا چکا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنسز کی سماعت آج ہو گی

ہر قومی انتخابات میں نئے ہمسفروں کا انتخاب کرنے والی جنرل ضیا الحق کی ”تخلیق“ ایم کیو ایم اور جنرل قمر جاوید کی تخلیق بلوچستان عوامی پارٹی ”المختصر باپ“نے بھی اپنا نیا قبلہ چن لیا ہے۔ ایم کیو ایم نے تو ”حکم“ماننے میں اسقدر عجلت کا مظاہرہ کیا کہ اس بات کا بھی انتظار نہیں کیا کہ میاں شہباز شریف بہادر آباد ”حاضری“ دیتے اور ”ساتھ چلنے“ کی استدعا کرتے۔ ایم کیو ایم کی قیادت جناب خالد مقبول صدیقی، جناب فاروق ستار اور جناب مصطفی کمال لاہور پہنچ گئی اور ”مل کر چلنے“کی یقین دہانی کرادی۔ ایم کیو ایم کے دعووں کے مطابق الیکشن میں ان کی کامیابیاں تین نہیں،بلکہ ان کی تعداد 20سے 22ہوگی، مگر چھتری ابھی بھری نہیں تھی یا ”بھرنے“والے مطمئن نہیں تھے لہٰذا جنرل قمر جاوید باجوہ کی تخلیق بلوچستان عوامی پارٹی باپ نے بھی اپنا قبلہ نواب شاہ اور لاڑکانہ سے تبدیل کرکے جاتی عمرہ لاہور کو چن لیا۔ گذشتہ دو سال سے بلوچستان میں ”محنت“کرنے والے جناب صدر آصف علی زرداری اور جناب بلاول بھٹو زرداری اس صدمہ کو جھیل نہیں پا رہے۔ انہیں یقین نہیں آرہا کہ ان کی چھتری پر بیٹھنے کا وعدہ کرنے والے اڑ کر پنجاب کیسے چلے گئے،مگر ایک بات جو قابل ستائش ہے وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تخلیق کردہ بلوچستان عوامی پارٹی کا خودی بلند رکھنے کا وہ حوصلہ ہے جو ایم کیو ایم نہ دکھا سکی اور”سر نڈر“ کر دیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق صدر اور سابق وزیر اعلی جام کمال، میر سلیم کھوسہ، نور محمد دمڑ، عبدالرحمن کھیتران، ربابہ بلیدی، محمد خان لہڑی، شعیب نوشیروانی، سردار مسعود لونی، عاصم کرد، رامین محمد حسنی، عبدالرحمن محمد حسنی، چنگیز مری، زینت شاہوانی، خان محمد جمالی، عاطف علی سنجرانی، سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار، سید الحسن مندو خیل، خالق جمالی، غفور لہڑی، زین مگسی، سردار اسلم ترین، میر اخلاق زہری، حنیف رند، شوکت بنگلزئی، رب نواز بیرانی، برکت رند، شیر گل خلجی نے لاہور جانے اور خدمات پیش کرنے کی بجائے قائد مسلم لیگ ن کے اپنے گھر آ نے پر انہیں خوش آمدید کہا اور باپ کی چھتری چھوڑ کر مسلم لیگ ن کی چھتری پر بیٹھنا اور پنجاب کا ”دانہ دنکا“ چگنے کو ترجیح دے دی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا مختصر ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اپنے ”خالق“کی بیحد عزت کرتے ہیں اور ”احکامات“پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ماضی میں بلوچستان سے سینٹ تک ہر جگہ انہوں نے حکم ماننے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست منظور

”ہما“ بیٹھنے کی کچھ اور نشانیاں ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ جی ڈی اے یعنی اندرون سندھ تک رسائی کا معاملہ بھی طے ہو رہا ہے۔ اندرون سندھ کے الیکٹیبلزسے معاملات طے ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں معاملات طے ہو رہے ہیں۔ بی بی مریم نواز شریف کے شوہر نامدار جناب کیپٹن صفدر نے دو اہم شخصیات اقبال ظفر جھگڑا اور امیر مقام کو اکٹھے بٹھا دیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے اکٹھے مل کر چلنے کے لئے ”کوششیں“کی جا رہی ہیں، مگر ہوم گراؤنڈ یعنی پنجاب پر ابھی کام کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں نوجوانوں کی اکثریت اور خواتین ووٹرز آج بھی ”قاسم کے ابو عرف قیدی نمبر“804کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہیں۔ انہیں تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک کپتان سے بد ظن نہیں کیا جاسکا۔ نوجوان نسل نے ”دادی اور نانی“کی کہانیاں نہیں سنیں انہیں ہما کی کہانی سنانی ہوگی۔ تاکہ یقین دلایا جا سکے کہ اب ”قیدی“ کی واپسی کا راستہ بند کیا جا رہا ہے۔ اب کبوتروں کی چھتری تبدیل کر دی گئی ہے،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ”قاسم کے ابو“ کے چاہنے والے منتظر ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنی ثابت قدمی کا ثبوت دیں۔ اس کا ایک مظاہرہ وہ گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں کر چکے ہیں مگر ایک سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ ”طاقتور“ اور فیصلے تبدیل کرنے والے بضد ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں انہوں نے ”کارڈز“ اچھے کھیلے ہیں،مگر انہوں نے منظر نامہ ان کی مدد سے لکھا ہے جو ان کی اپنی تخلیق ہیں۔ اب ان کا واسطہ اس نسل سے پڑنا ہے جو اپنے گھر والوں کی بھی نہیں سنتی۔ یہ نوجوان اگر 8فروری کو جوق در جوق نکل آئے تو دادی اور نانی اماں کی ہما کی کہانی کا کیا بنے گا۔

وہ مقام جہاں نومبر میں غروب ہونے والا سورج دوبارہ جنوری میں طلوع ہوگا

QOSHE -        ہما بٹھا دیا۔۔۔۔ - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ہما بٹھا دیا۔۔۔۔

28 0
20.11.2023

بچپن میں جب ٹی وی کا وجود نہیں تھا خاندان کی بزرگ خواتین بچوں کو رات کے کھانے کے بعد مختلف کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس دور میں صرف بچے ہی رات کو ایسی محفلوں میں کہانی نہیں سنا کرتے تھے بلکہ نوجوان، جوان اور بزرگ مرد حضرات بھی رات کو چوپال میں اکٹھے ہوتے اور جہاندیدہ افراد اپنے تجربات سناتے۔ دنیا بھر کے سنے سنائے واقعات بھی جوش و خروش سے سنائے جاتے اور دلچسپی سے سنے جاتے تھے۔ ان واقعات میں ایک پرندے”ہما“کا بھی ذکر ہوا کرتا تھا جو بادشاہ گر تھا اور یہ پرندہ جس کے سر پر بیٹھ جاتا اسے بادشاہ بنالیا جاتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اکیسویں صدی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہما کا ذکر کہاں سے آگیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس تشریف لائے تھے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہما تو جناب میاں صاحب کے سر پر بٹھانے کا موقع نہیں بنا مگر حالات ویسے ہی بنا دئیے گئے، سمجھنے والے سمجھ گئے۔ میاں صاحب لاہور پہنچے تو کوتوال شہر نے سلیوٹ مارا۔ جس کے بعد کھلے میدان میں ”ہما بٹھانے“ کی رسم ادا کی گئی۔ جناب میاں نواز شریف اقبال پارک (منٹو پارک) کے سٹیج پر تشریف لائے تو ”کبوتر بہ شکل ہما“ آزاد کئے گئے اور میدان میں موجود لاکھوں افراد اور ٹی وی سکرین پر کروڑوں افراد نے میاں صاحب کے سراور ہاتھ پر کبوتر کے بیٹھنے کے منظر دیکھے۔ مجھے تو اس وقت بچپن کی سنی”ہما“ کی کہانی یاد آگئی اور مجھے یقین سا ہونے لگا کہ ”ہما“ بیٹھ گیا اب الیکشن کیا کروانے ہیں۔اگر۔۔ مگر۔۔ کی کوئی کیفیت اگر دماغ میں تھی تو وہ گزشتہ تین ہفتوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات نے دور کردی۔ میاں صاحب کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play