لوجی ، ملک بھر میں گندم کی فصل الحمدللہ بمپر ہونے کے باوجود شہروں اورقصبات میں 20روپے فی روٹی تک کا چڑھا نرخ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ دوسری جانب لاکھوں کسان فصل کٹائی کے بعد گندم لیکر بیٹھے ہیں لیکن انہیں فوری سنبھالنےکیلئےباردانہ (بوریاں) مل رہا ہے نہ حکومت معمول کی پالیسی اور کسانوں سے وعدے کے مطابق گندم خرید رہی ہے۔ وجہ، نگران حکومت کے دوران غیر قانونی اجازت سے منافع خوروں نے سستی اور ناقص گندم درآمد کرکے آٹے کی شکل میں گھر اور بازار پہنچا کر کسانوں کی بنی بنائی مارکیٹ پر ڈاکہ ڈالا، انکی گندم آنے سے پہلے عبوری نظام قائم کرکے جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ ناقص گندم درآمد کرکے لاکھوں کسانوں کو رول کر رکھ دیا ان کے اضطراب اور بے بسی کی جھلکیاں ہی ٹی وی سکرین پر آ رہی ہیں،مسئلہ بہت بڑا اور گھمبیر ہے ۔علم اقتصادیات کا سکہ بند اصول ہے کہ جب کسی شے کی موجودگی ،طلب مانگ سے زیادہ ہو جائے تو اس کی رسد(سپلائی) بھی تیز ہونے سے اس کا نرخ خودبخود گر جاتا ہے ۔اگر نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ شے کہیں ناجائز منافع خوری کی بدنیتی سے ذخیرہ کی جا رہی ہے۔حکومتوں کا کام ہے کہ اس’’کہیں ‘‘ اور کرنے والے ’’کون‘‘ کا پتہ چلائے سپلائی کو معمول پر لائے تاکہ علم اقصادیات کے متذکرہ علم ڈیمانڈ اورسپلائی کی فری کوئنسی کے مطابق اس شے کا جائز نرخ اور منافع خودبخود متعین ہو جائے۔ اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ انتظامیہ کو یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ سپلائی(رسد) پیداوار کے مطابق جاری و ساری ہے اور منڈی بازار میں اس کا جائز نرخ ہی قائم ہے۔ اگر کوئی شخص یا کاروباری منظم طبقہ اس بنے بنائے اور چلتے نظام میں اپنی انفرادی یا اجتماعی بدنیتی سے ناجائز منافع خوری کیلئے چڑھا نرخ نظام کرکے برعکس اسٹیک ہولڈرز کے گٹھ جوڑ سے بڑھانے یا وافر رسد کے باعث گرنے سے روکنے کیلئے مطلوب پیداواری عمل اور رسد اور تقسیم (برائے فروخت ) کے نظام میں رکاوٹ ڈالے تو عوام الناس (خریدار) کے ’’جائز نرخ‘‘ کے حوالے سے اولین اور مسلسل مفادات کو غصب کرنے کا مرتکب ہوتا ہے یہ جرم یقیناً بڑی دیدہ دلیری سے دن دہاڑے ڈاکے کے مترادف ہے ،اس جرم کی ایک لمبی چین بنتی ہے یا گینگ منظم کیا جاتا ہے انتظامیہ کے کرپٹ عناصر اس میں جزواً شامل ہو کر خود بھی منظم و محتسب سے چور اور ڈاکو بن جاتے ہیں کہ ان کی لاقانونیت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں، اگر یہ جرم اشیائے خورونوش اور اس میں بھی گندم ،آٹے ، روٹی پر ناجائز منافع بٹورنے کیلئے پیداواری عمل اور طلب و رسد کے منظم اور بمطابق قانونی نظام کو بگاڑ کر ’’اپنا‘‘ عبوری نظام بنانے کی لاقانونیت مچانے سے کیا جائے تو گورننس کا اس سے بڑا اور فوری انسداد کا توجہ طلب ڈیزاسٹر کوئی ہوہی نہیں سکتا ۔ آج مسلسل تحقیق کے بعد جبکہ فوڈ سیکورٹی دفاع وطن کے بنیادی تقاضوں سے جڑی نظر آتی ہے گھمبیر سیاسی و اقتصادی بحران میں 16ماہی اتحاد کی آف شوٹ نگران حکومت میں اس کی کوئی گنجائش بنتی تھی کہ وہ کسانوں کو اعتماد میں لئے بغیر 32لاکھ ٹن گندم وہ بھی ناقص اور غیر معیاری ،درآمد کرنے کی اجازت دیتی ؟کس کو نوازگیا۔

وفاقی حکومت کے علاوہ پنجاب حکومت جو گندم، آٹے کے اپنے تعلق سے ملزم قرار دی جا رہی ہے گندم کی پیداوار اور طلب و رسد و سٹوریج تک کی پالیسی اور فیصلہ سازی کی سب سے بڑی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے عجب اور کتنا سنگین مذاق ہے کہ اتنے بڑے عوامی مسئلے کا علاج کسانوں کی گندم (جن کی خریداری کی منصوبہ بندی کٹائی سے کافی پہلے ہو جانی چاہئے تھی ) کی ہنگامی بنیاد پر خریداری کا کوئی اہتمام کیا جاتا، یکدم بازار میں مقرر ہوئی روٹی کے 20روپے نرخ کو محکمانہ انداز میں 16روپے کرنے کے حکم سے بند باندھا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم خود ہی انتظامیہ کے پہلے لیکن اعلیٰ سطح کے تجربے میں آئی ہیں ان کی جماعت میں تو کسانوں اور تاجروں کے مسائل کو سمجھنے والوں کا ایک سے بڑھ کر ایک تجربہ کار جاگیردار اور بڑا تاجر سیاست دان موجود ہے ۔حیرت ہے کہ پارٹی رہبر اور چچا وزیر اعظم سے تو اتنی حساس اور مسلسل عوامی ضرورت دال روٹی کی رواں فراہمی پر کوئی رہنمائی، مشاورت نہ ہوئی نہ وہ اس پر الرٹ رہے حلف اٹھاتے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور دونوں بزرگوں کو خود ہی اپنی معاونت و مشاورت پر چوکس رہنا چاہئےتھایا وہ بھی اپنی 16ماہی حکومت میں مفلوک و مقہور عوام کے بدترین مہنگائی کی جکڑ سے اجڑے کچن سے اتنے لاپروا اور بے خبر ہیں ، کیا یہ صوبائی حکومت کا اقتدار میں آتے ہی بڑا پنکچر نہیں؟ بڑا گورننس ڈیزاسٹر ہے کہ گندم کی پیداوار وافر ہونے پر اب حکومت نےاس کی خریداری کیلئے معمول کی بھاری رقم مختص کی اور باردانے کی کمیابی جو ہر نئی فصل پر مسئلہ بنتا ہے اب کئی گنا بڑ ھ گئی ،جیسے تاجر خاندان کی حکومت کے دور میں یکدم روٹی کے نرخ میں چار روپے کی کمی نے نان بائیوں کو سراپا احتجاج بنا رکھا ہے۔ کسان ،عوام، روٹی فروش سب ہی تو ان ٹربل۔

گندم کی یا کوئی بھی بمپر فصل تو قدرت کی مہربانی کے بغیر ممکن ہی نہیں بلکہ اللہ کی بندوںسے خوشنودی اور رزق میں برکت کی علامت ہے دوسری بڑی وجہ کسان کی محنت شاقہ ہوتی ہے جو موجودہ عالمی بحران اور ایگری ان پٹس کھاد، بجلی، پانی، بیج، ڈیزل وغیرہ کے نرخ آسمان پر پہنچے کسانوں نے نامساعد حالات میں بھی بمپر فصل اپنے انہماک اور جفاکشی سےتیار کرکے عوام اور حکومت دونوں کو مطمئن کیا اور ملکی معاشی استحکام میں اپنا حصہ ڈالا لیکن افسوس کہ اسٹیٹس کو ،عوام دشمن گورننس اصلاح احوال کی طرف تو کیا آتی ن لیگ کی حکومت ہچکولے کھاتی حکومتی کشتی کو سنبھالا دینے کیلئے جو کچھ اور جیسا کر رہی ہے اس نے تو ن لیگی گورننس کی پہلے سے ناکامیوں کےچیپڑز پر مزید گرد ڈال دی۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو 8فروری کے اصلی نتائج کو دفن کرنے کیلئے عوامی مفادات سے متصادم ریاستی اداروں سے مل کر اس کا گلا گھونٹا ،اب متنازع اقتدار کی سوراخوں والی چھتری میں پناہ لی ،ن لیگ میں کسی کے بھی منہ سے تو اس (بیانیے) کی ادائیگی کی ناکام کوشش بھی نہیں ہوتی ۔کچھ لوگ شرمندہ ہو کر جماعت سےالگ ہو ئے اور ہو رہے ہیں، ایسے بھی ہیں جو مایوس ہو کر چھپ نہیں گئے بلکہ بیانیے کو احیا بخشنے کیلئے نئ جماعت بنانے کی تیاری میں ہیں ہاں! یاد آیا یہ اسحاق ڈار کون سی آئینی گنجائش اور کس قومی ضرورت کے تحت سینٹ کی رکنیت پر ہیں ،ڈپٹی وزیر اعظم بن گئے ؟گویا جس طرح آٹے کی پیداوار تقسیم اور سب سے بڑھ کر نرخ سے ن لیگی گورننس لاپروا ہے تو کابینہ میں وزیروں کو اپنا ہی قد اونچا دکھانے کے لئے ایک ڈپٹی وزیراعظم بھی خلاف آئین گھسا دیا گیا ہے گویا ووٹ کو عزت دو کی طرح گڈ گورننس کو بھی دفنانے کا عمل جاری ہے ۔جو کرو کرنا ہے کون روک سکتا ہے عوام نے جب اور جو کرنا ہے کریں گے ،لگتا نہیں کہ اب بے بس ہی رہیں گے۔ خدارا!غریب کی روٹی کا نرخ 20روپے ہی سہی یہ تو 8فروری سے پہلے کا ہے لیکن غریب کسان کی گندم تو خرید لی جائے اور یہ جو غیر معیاری امپورٹڈ آٹا بازاروں ،گھروں پر مسلط کر دیا گیا ہے اس کی سپلائی اور فروخت تو رکوائیں، پہلے ہی آٹے کی تقسیم میں 16ماہی اتحادی حکومت میں 22انسانی جانیں اور 20ارب روپے کی چوری اور سستی روٹی کے نام پر 7ارب روپے سے تنوروں کی خریداری کا ریکارڈن لیگی کو یہ سستی روٹی بھی دو چار فیصد کو کہیں کہیں دو چار ہفتے ہی ملی تھی اور ہاںن لیگ کے دو دھڑوں کی نورا کشتی سے عزت داروں کو مت بیوقوف بنا ئیںایک حصے میں جمہوریت اور عوام کا بڑا درد ہے۔

راولپنڈی مری روڈ پر گاڑی میں سوار نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے ڈولفن پولیس فورس کا ایک اہلکار شہید جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہونا شروع ہوگئی ہے، توقع ہے مہنگائی کے بڑھنے کی شرح جون میں کم ہوکر 20 فیصد ہوجائے گی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ میں ہونے والی قتل و غارت میں اسرائیل کو امریکا اور یورپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

جیو نیوز کی 2009 کوریج کے دوران ہمارا قیام جس گھر میں رہا وہ آج تباہ ہوگیا، بیت حنون اور یہ یادوں سے بھرا مسکن اب کھنڈر دکھائی دے رہا ہے، میرےذہن میں وہ سارا منظر گھوم رہا ہے کہ کس طرح بی بی سی کے جیرمی بوین سمیت عالمی صحافیوں کو جیو نیوز کی ٹیم کے ساتھ دو دن رفاح بارڈر پر انتظار کے بعد غزہ میں داخلے کی اجازت ملی تھی۔

جلائے گئے پرچوں میں 23 امتحانی سینٹرز کے ہزاروں حل شدہ پرچے شامل ہیں۔

حماس کے ترجمان عبدالطیف الکانو نے کہا ہے کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں۔ اپنے بیان میں عبدالطیف الکانو نے کہا کہ ہمارے مطالبات پر تمام دھڑوں نے اتفاق کیا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس حوالے سے برطانوی وزیرخارجہ نے کہا کہ اسرائیل نے حماس کو غزہ میں 40 روز کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔

رفیع اللّٰہ نامی شہری کو پولیس موبائل میں کچھ اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے اور اس کے اہل خانہ سے رقم کا تقاضہ کیا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم بنانے کے معاملے پر وضاحت کردی۔

بالی ووڈ اداکار جمی شیرگل جو خود بہت اچھے اداکار ہیں تاہم بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن سے وہ کافی متاثر ہیں۔

بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے کہا کہ میرے بچے میری بات نہیں سنتے، انکا کہنا تھا کہ کبھی کبھی میں محسوس کرتا ہوں کہ ہماری نسل (جنریشن) کہیں بیچ میں پھنس کر رہ گئی ہے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ امریکا سعودی عرب دو طرفہ معاہدے کے بہت زیادہ نزدیک ہیں۔

مجھے یقین نہیں ہورہا کہ لوگ انکے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھے، سامے شاہ

گریڈ ٹو کرکٹ میں ’’پیراشوٹ‘‘ اینٹری کےلیے ڈپارٹمنٹس میں شامل کرکٹرز کا کم از کم ڈسٹرکٹ لیول کی کرکٹ کا کھیلا ہونا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

QOSHE - ڈاکٹر مجاہد منصوری - ڈاکٹر مجاہد منصوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مجاہد منصوری

70 1
30.04.2024

لوجی ، ملک بھر میں گندم کی فصل الحمدللہ بمپر ہونے کے باوجود شہروں اورقصبات میں 20روپے فی روٹی تک کا چڑھا نرخ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ دوسری جانب لاکھوں کسان فصل کٹائی کے بعد گندم لیکر بیٹھے ہیں لیکن انہیں فوری سنبھالنےکیلئےباردانہ (بوریاں) مل رہا ہے نہ حکومت معمول کی پالیسی اور کسانوں سے وعدے کے مطابق گندم خرید رہی ہے۔ وجہ، نگران حکومت کے دوران غیر قانونی اجازت سے منافع خوروں نے سستی اور ناقص گندم درآمد کرکے آٹے کی شکل میں گھر اور بازار پہنچا کر کسانوں کی بنی بنائی مارکیٹ پر ڈاکہ ڈالا، انکی گندم آنے سے پہلے عبوری نظام قائم کرکے جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ ناقص گندم درآمد کرکے لاکھوں کسانوں کو رول کر رکھ دیا ان کے اضطراب اور بے بسی کی جھلکیاں ہی ٹی وی سکرین پر آ رہی ہیں،مسئلہ بہت بڑا اور گھمبیر ہے ۔علم اقتصادیات کا سکہ بند اصول ہے کہ جب کسی شے کی موجودگی ،طلب مانگ سے زیادہ ہو جائے تو اس کی رسد(سپلائی) بھی تیز ہونے سے اس کا نرخ خودبخود گر جاتا ہے ۔اگر نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ شے کہیں ناجائز منافع خوری کی بدنیتی سے ذخیرہ کی جا رہی ہے۔حکومتوں کا کام ہے کہ اس’’کہیں ‘‘ اور کرنے والے ’’کون‘‘ کا پتہ چلائے سپلائی کو معمول پر لائے تاکہ علم اقصادیات کے متذکرہ علم ڈیمانڈ اورسپلائی کی فری کوئنسی کے مطابق اس شے کا جائز نرخ اور منافع خودبخود متعین ہو جائے۔ اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ انتظامیہ کو یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ سپلائی(رسد) پیداوار کے مطابق جاری و ساری ہے اور منڈی بازار میں اس کا جائز نرخ ہی قائم ہے۔ اگر کوئی شخص یا کاروباری منظم طبقہ اس بنے بنائے اور چلتے نظام میں اپنی انفرادی یا اجتماعی بدنیتی سے ناجائز منافع خوری کیلئے چڑھا نرخ نظام کرکے برعکس اسٹیک ہولڈرز کے گٹھ جوڑ سے بڑھانے یا وافر رسد کے باعث گرنے سے روکنے کیلئے مطلوب پیداواری عمل اور رسد اور تقسیم (برائے فروخت ) کے نظام میں رکاوٹ ڈالے تو عوام الناس (خریدار) کے ’’جائز نرخ‘‘ کے حوالے سے اولین اور مسلسل مفادات کو غصب کرنے کا مرتکب ہوتا ہے یہ جرم یقیناً بڑی دیدہ دلیری سے دن دہاڑے ڈاکے کے مترادف ہے ،اس جرم کی ایک لمبی چین بنتی ہے یا گینگ منظم کیا جاتا ہے انتظامیہ کے کرپٹ عناصر اس میں جزواً شامل ہو کر خود بھی منظم و محتسب سے چور اور ڈاکو بن جاتے ہیں کہ ان کی لاقانونیت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں، اگر یہ جرم اشیائے خورونوش اور........

© Daily Jang


Get it on Google Play