تعلیم ایسا موضوع ہے کہ جسکے ساتھ بھی چھیڑا جائے تو سامنے والے کی ذہنی سطح اور عمر کا خیال رکھاجانا لازم ہے تبھی ہمیں کسی کے ساتھ اس موضوع کو زیر بحث لانے کا کچھ فائدہ ہوگا بصورت دیگر فائدہ تو رہا ایک طرف الٹا نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے تعلیمی نصاب کا معاملہ بھی ہے کہ تعلیمی نصاب کو مرتب کرتےوقت اس بات کو پیش نظر رکھنا اور بھی ضروری ہے کہ ایک طالب علم کی کلاس کیا ہے اور اس کلاس میں کس قدر تعلیم کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کچی عمر کے طالب علموں سے پکی عمر کی باتیں کرینگے تو بھی یہ تعلیم فائدے سے زیادہ مضر ثابت ہوگی ۔ہم اردو ادب کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اردو ادب کلاس نہم کا سلیبس پڑھئے تو اس میں کچھ ایسا ادب متعارف کروادیا گیا ہے جسکی نہم کلاس میں چنداں ضرورت نہ تھی ۔ خواجہ حیدر علی آتش ہماری ادبی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے اگر ہم میر و غالب کے بعد چند ایک شعراء کرام کے ادبی محاسن کا جائزہ لیں تو اس میں حیدر علی آتش کا نام نمایاں دکھائی دے گا کہ حیدر علی آتش ادب کے میدان میں پورے قد سے کھڑے نظر آتے ہیں جنکی شاعری کودبستان لکھنؤ کی شاندار شاعری سے تعبیر کیا گیا ہے تاہم انکی شاعری میں لکھنوی لہجہ بھی پایا جاتا ہے رام بابو سکسینہ نے حیدر علی آتش کوغزل میں میر و غالب کے بعد تیسرا بڑا شاعر قرار دیا ہے خواجہ حیدر علی آتش کے مزاج میں بانکپن بدرجہ اتم تھا خواجہ صاحب طبیعت کے بہادر تھے اب ایک بہادر اور بانکے شاعر کی شاعری کو نہم کلاس میں شامل کرلیناکچھ مناسب نہیں اگرچہ انکی شاعری میں مضمون آفرینی حددرجہ ہے۔لیکن ایسی شاعری جو مضمون آفرینی کے ساتھ جنوں خیز بھی ہو اس سے نہم جماعت میں گریز لازم ہے۔

ہمارے تعلیمی نصاب میں نہم سے لے کر ایم اے اردو تک خواجہ حیدر علی آتش کو شامل کیا گیا ہے، خواجہ صاحب کی شاعری نصابی معیار پر ہر طرح سے پورا اترتی ہے لیکن نہم کلاس میں حیدر علی آتش کے کلام کا انتخاب کرتے وقت تعلیمی رہنماؤں نے یہ نہیں سوچا کہ کلام کی سند کیا ہے اور شامل کس کلاس میں کیا جارہا ہے، خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

رخ و زلف پر جان کھویا کیا

اندھیرے اجالے میں رویا کیا

ایک تو اردو کا یہ اسلوب اس وقت کی اردو کا اسلوب ہے جب اردو اپنی ترقی کا سفر طے کررہی تھی۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اردو کے خلاف کس قدر محاذ کھولے گئے اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا گیا جس سبب اردو کے ساتھ کچھ بہتر سلوک نہیں ہوا اس زبان اور اس کو بولنے والوں کے خلاف جو کچھ کیا گیا وہ بھی تاریخ میں اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس وقت اس زبان کے ساتھ جو ہم کررہے ہیں وہ بھی کچھ مناسب نہیں حیدر علی آتش کی اس غزل کو سیکنڈ ائیر یا کم از کم فرسٹ ائیر میں شامل کیا جانا چاہئے تھا بلکہ اسکی فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر میں بھی حاجت نہ تھی۔نہم کلاس میں تو ہلکی پھلکی غزلیں شامل ہونی چاہئے تھیں جس سے صرف ہم طالب علموں کو غزل کی پہچان کروا سکتےحالانکہ دہم کلاس کی اردو کا انتخاب نہائت محتاط اور موزوں ہے جس میں خواجہ میردرر شامل ہیں جنکی غزل میں صوفیانہ رنگ ہے۔


نہم کلاس میں حیدر علی آتش کی ایسی غزل کہ جس میں محبوب کے خد و خال بیان کرکے رکھ دئیے گئے ہوں کو نہم۔کلاس کے بچوں کےلئے شامل کرنا میں سمجھتا ہوں زیادتی ہے بلکہ مجھے کہنے دیجئے کوئی سازش ہے اس غزل کا مقطع ہی لیجئے

زنخداں سے آتش محبت رہی

کنویں میں مجھے دل ڈبویا کیا

محبوب کی ٹھوڑی میں پڑھنے والے گڑھے کو جب آپ تیرہ چودہ سالہ بچے یا بچی کو پڑھائیں گے تو وہ ادب سے جو اخذ کرے گا آپ جانتے ہونگے پاکستان میں مخلوط نظام تعلیم اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر ایسا نصاب پڑھایا جائے تو ان پر آتش کا کلام دو آتشہ کام کر جائے گا ،آپ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ میں ہماری نوجوان نسل بہکتے ہوئے کہیں کی کہیں جا پہنچی ہے یہ ایک انسانی نفسیات بھی ہے کہ ہم دلکش باتوں کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں دلکشی سے میری مراد قارئین سمجھتے ہونگے یا یوں کہئے کہ انسان بہکنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا جبکہ سنبھلنے میں اسے زمانے لگتے ہیں بچے جو ابھی پختہ ذہن نہیں رکھتے انہیں اچھےبرے کی تمیز کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ایسے میں جب آپ انہیں سکول کی تعلیم میں ہی اتنے مضبوط جذبوں کی باتیں پڑھائیں گے تو انکا میلان اس جانب کچھ زیادہ ہو جائے گا اور تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ ذہنی طور پر تقسیم ہوکر رہ جائیں گے اور یہی تقسیم انہیں زندگی بھر کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ کس معاشرے کی تعلیم حاصل کرکے یہاں تک پہنچے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نصاب کو ترتیب دینے والے اس بات کی گنجائش تو رکھیں کہ وہ کس عمر کے طالب علموں کیلئے کیا کررہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے سارا ادب ہی نہم۔کلاس میں دے دیا گیا ہے اس لئے تعلیمی رہنماؤں اور نصاب ترتیب دینے والوں پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان گزارشات پر التفات فرمائیں جو راقم نے اس کالم میں پیش کردی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کا مقابلہ کسی جماعت سے نہیں اپنی ہی ماضی کی کارکردگی سے ہے، منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا ہے تو ن لیگ کا ماضی گواہ ہے۔

پنجاب بھر کے ڈرگ انسپکٹرز کو ان سیرپ کو قبضے میں لینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

ثمر بلور نے کہا کہ یہ لوگ کس منہ سے یہاں آکر ووٹ مانگیں گے۔

بالی ووڈ کے باصلاحیت اداکار کارتک آریان کی زندگی کا نیا رخ مداحوں کے سامنے آگیا۔

انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ بی کے مقابلے میں جنوبی افریقا نے اسکاٹ لینڈ کو 7 وکٹ سے ہرا دیا۔

ان مقابلوں میں ملک بھر سے تن سازوں نے اپنی مہارت کا شاندار مظاہرہ کیا۔

گوجرانوالا کے حامد اور قصور کی زارا پولیس کے محکمے میں ہیں۔

وہ ہمارے مرشد ہیں ہمیں، مار سکتے ہیں، ڈانٹ بھی سکتے ہیں، شاگرد نوید حسنین

نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ وطن عزیز میں ہر سال 75 ہزار آئی ٹی گریجویٹس فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔

فضل الرحمان نے کہا کہ معیشت تباہ کرنے والے نے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کیا۔

دانیال عزیز نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حامیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب کراچی کے این آئی سی وی ڈی کے باہر مباحثہ کر لیں۔

گورننگ بورڈ میں آزاد جموں و کشمیر اور ڈیرہ مراد جمالی کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔

اب اس حلقے میں تھانے کچہری اور كمیشن کی سیاست نہیں ہوگی، این اے97 میں اب تبدیلی آگئی ہے، صرف عوام کی خدمت ہوگی، ہمایوں اختر

ایران میں دہشتگرد حملے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر افسوس ہے، نگراں وزیر خارجہ

QOSHE - ندیم اختر ندیم - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ندیم اختر ندیم

25 0
28.01.2024

تعلیم ایسا موضوع ہے کہ جسکے ساتھ بھی چھیڑا جائے تو سامنے والے کی ذہنی سطح اور عمر کا خیال رکھاجانا لازم ہے تبھی ہمیں کسی کے ساتھ اس موضوع کو زیر بحث لانے کا کچھ فائدہ ہوگا بصورت دیگر فائدہ تو رہا ایک طرف الٹا نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے تعلیمی نصاب کا معاملہ بھی ہے کہ تعلیمی نصاب کو مرتب کرتےوقت اس بات کو پیش نظر رکھنا اور بھی ضروری ہے کہ ایک طالب علم کی کلاس کیا ہے اور اس کلاس میں کس قدر تعلیم کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کچی عمر کے طالب علموں سے پکی عمر کی باتیں کرینگے تو بھی یہ تعلیم فائدے سے زیادہ مضر ثابت ہوگی ۔ہم اردو ادب کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اردو ادب کلاس نہم کا سلیبس پڑھئے تو اس میں کچھ ایسا ادب متعارف کروادیا گیا ہے جسکی نہم کلاس میں چنداں ضرورت نہ تھی ۔ خواجہ حیدر علی آتش ہماری ادبی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے اگر ہم میر و غالب کے بعد چند ایک شعراء کرام کے ادبی محاسن کا جائزہ لیں تو اس میں حیدر علی آتش کا نام نمایاں دکھائی دے گا کہ حیدر علی آتش ادب کے میدان میں پورے قد سے کھڑے نظر آتے ہیں جنکی شاعری کودبستان لکھنؤ کی شاندار شاعری سے تعبیر کیا گیا ہے تاہم انکی شاعری میں لکھنوی لہجہ بھی پایا جاتا ہے رام بابو سکسینہ نے حیدر علی آتش کوغزل میں میر و غالب کے بعد تیسرا بڑا شاعر قرار دیا ہے خواجہ حیدر علی آتش کے مزاج میں بانکپن بدرجہ اتم تھا خواجہ صاحب طبیعت کے بہادر تھے اب ایک بہادر اور بانکے شاعر کی شاعری کو نہم کلاس میں شامل کرلیناکچھ مناسب نہیں اگرچہ انکی شاعری میں مضمون آفرینی حددرجہ ہے۔لیکن ایسی شاعری جو مضمون آفرینی........

© Daily Jang


Get it on Google Play