پنجاب والے بارش کیلئے مصنوعی اہتمام کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اللہ نے کراچی کو رات بھر اصلی گرج چمک والی بارش بخشی اور صبح کو ہم نے عرصے کے بعد نیلا آسمان دیکھا۔

یہ وہ دن تھے جب امینہ سید نے ادب فیسٹ کے نام کے ادارے کے تحت آصف مرحوم کی بے وقت موت کے بعد تنہا مگر ادب دوست لوگوں کے ہمت دلانے پر بہت ہی اہم کانفرنس کی۔ خصوصیت یہ تھی کہ ان دو دنوں میں نوجوانوں نے پروگرام کنڈکٹ کرنے اور ہم جیسے بڈھوں کو سنبھالنے کے علاوہ کانفرنس کے دوران سوال و جواب کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ کئی جگہ مشکل موضوعات تھے۔ مثلاً معیشت پر شبر زیدی صاحب بہت بولتے اور ہر چینل پر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی تو بہت پتے کی بات ماہر معیشت کی حیثیت سے کرتے ہیں اور اب وردی کے ڈر سے ابتدائے گفتگو میں گویا ہوئے کہ1952ء سے اب تک معیشت میں فوج کا کوئی کردار نہیں رہا۔ حالانکہ باجوہ صاحب اور فیض حمید کے سارے چکر نے کھل کے اعتراف کیا ہے کہ ہر زمانے میں ہر حکومت میں وردی کا عمل دخل جو اسکندر مرزا کے زمانے سے شروع ہوا تو اب ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں۔‘‘

یہ موضوع بعد کے دوسرے سیشن میں بھی دہرایا جاتا رہا، چاہے ثقافت سے بے رخی کی بات ہو کہ عورتوں پر یہ موجودہ رہبران جو بول رہے ہیں، ان پر صرف نکتہ چینی نہیں بلکہ مثبت انداز میں جواب دینے اور عورتوں کو الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی بات ہر سیشن میں ،چاہے وہ ادب سے متعلق ہو کہ صحافت کی طالبات ،خاص کر حسن عباس کی تازہ اور موجودہ صورت حال کے بارے میں بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں۔

کانفرنس کے دوران کراچی میں بلدیہ فیکٹری جیسے سانحہ پیش آیا۔ جنریٹر پھٹ گیا اور پوری بلڈنگ شعلوں کی لپیٹ میں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بلدیہ فیکٹری کی طرح یہاں بھی ایمرجنسی ڈور نہیں تھے۔ اس لیے کئی لوگ سیڑھیوں سے اترنہ سکے اور دم گھٹنے کے واقعات سے جانبر نہ ہوسکے۔ میری نظر فوراً اسلام آباد میں میری نو منزلہ بلڈنگ کی طرف گئی، جہاں ایک دن پانچویں فلور پر کسی فلیٹ میں آگ لگی تو پھر انتظامیہ کو آگ بجھانے والے آلات ہر فلور پر رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت اسلام آباد بہت تجارتی مراکز کی زد میں ہے۔ یہاں ایک اور بے ایمانی بلڈنگوں کے مالک کرتے ہیں کہ نقشے میں بیسمنٹ، گاڑیوں کی پارکنگ، سب جگہ دفتر، دفتر کھیلتے ہیں۔ عمران خان کو بلیو ایریا کو وسعت دینے اور کالے دھن والوں کو سرمایہ لگانے دینے کا شوق بغیر کسی منصوبہ بندی کے تھا۔ اب ہم وہاں کے رش کو کیسے بھگتیں گے۔ راوی اس پر خاموش ہے۔

آج سے6برس پہلے کوہستان میں لڑکیوں کے بے سبب قتل کا قصہ خود سپریم کورٹ کے سوموٹو لینےسے سامنے آیا تھا۔ خواتین کا ایک گروپ ہیلی کاپٹر سے وہاں گیا، مگر سچ... اف توبہ یہ تو مسلمان ہونے کے باوجود کسی کے مقدر میں نہیں۔ اب پھر ایسے واقعات دہرائے جارہے ہیں، جرگہ سسٹم ان سب باتوں کو روایت مع مذہب ،اپنی سہولت کیلئے سامنے لاتا ہے۔اگر ذرا پچھلے برس کو دیکھیں تو آپ کو پولیو ورکرز اور فیملی پلاننگ کیلئے کام کرنے والی غریب بچیوں کو جگہ جگہ مذہب کا نام لے کر قتل کیے جانے کے سانحات دکھائی دیں گے ۔

ایسی تمام مکروہات کو ختم کرنے کیلئے انتخابات میں پارٹیوں کے اپنے منشور میں کچھ نہیں رکھا تو وہی دیر والا قصے نہ دہرایا جائے کہ وہاں کے مردوں نے عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا تھا، جو ووٹ نہیں ڈال سکتی، اس کو میں یا دیگر باشعور لوگ کس طرح ہمت دیں گے کہ وہ خود الیکشن میں کھڑی ہوجائے۔ کسی بھی پارٹی نے45فیصد آبادی یعنی نوجوانوں کیلئے کوئی منضبط منصوبہ پیش نہیں کیا۔وراثتی سلسلہ کم ہونے کی بجائے ساری پارٹیاں اور مضبوط کررہی ہیں۔ اب فریال تالپور ہوں کہ مریم نواز ان لوگوں کو سجے ہوئے میدان مل جاتے ہیں۔ وہاں لفاظی کرلیتی ہیں، کبھی چاول کی پنیری لگانے والی عورت کی طرح کمر ٹیڑھی کرکے اور پانی سے اٹھنے والے گرم بخارات کو جذب کرنے کیلئے یا بھٹہ مزدور عورت کی ہمت کی تحسین کرنےاور ان کی مشکلات سے کچھ سیکھا، کچھ منصوبے بنائے، ابھی وقت ہے، زمین پر پیر رکھ کر، زمین پر بیٹھی مکئی کے دانے بھونتی عورت کے کام کو بہتر بنانے اور ٹھیلوں پر کھانا فروخت کرتی عورت اور نوجوانوں کواپنے ساتھ ایسے ملائیں جیسے امینہ سید نے پارٹ ٹائم کام کرنے والے بچوں کو ہنسی خوشی ذمہ داری نبھانے کیلئے آگے بڑھایا۔

ہمارے نگراں وزیر تعلیم حیران ہیں کہ تین کمروں پر مشتمل یونیورسٹی ہے اور کام کررہی ہے۔ بہت اچھا ہو وہ اپنے سندھ کے اسکولوں کی عمارتیں ایسی بنادیں کہ چھتیں نہ ٹپکتی ہوں، لڑکیوں کے اسکولوں میں باتھ روم ہوں، سب سے بڑھ کر نصاب موجودہ ضرورتوں کے مطابق بنایا جائے۔ براہ کرم بچوں کو اپنے شہر سے متعارف کروائیں، پھر اپنی زمین کی تاریخ سے آشنا۔ بچے، پہلے شہر پھر وطن سے محبت کریں گے۔

جب نئی حکومت آتی ہے، بلوچوں کی بڑی فکر کرتی ہے، بلوچستان کا آدھا رقبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں انڈسٹریل زون بنائے جائیں۔ لوگوں کی توجہ دہشت گردی اور منشیات کی تجارت سے ہٹے،نظام کہنہ سے اکتا ہوئے عوام کو یہ نہ بتائیں کہ فی الوقت K.P میںبعض سینئر افسران کے نام انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی فہرست میں ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو انہیں کوئی سرزنش یا نوکری سے سزا کے طور پر نکالا جائے۔ میری درخواست ہے کہ آپ دشمن سے بھی کچھ سیکھیں۔ یہ بار بار مت کہیں کہ انڈیا نے5ایٹمی تجربے کیے اور ہم نے6، بھلا یہ بتانے سے کیا حاصل ہوگا، اے سیاست دانو! ہوش کرو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

شکارپور کے قومی شاہراہ جنوں بائی پاس کے مقام پر کار الٹ کر کھائی میں جاگری، حادثے کے نتیجے میں کار میں سوار تمام 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔

پشاور کے علاقے یکہ توت میں پولیس اور رہزنوں کے درمیان فائرنگ سے رہزن ہلاک ہوگیا۔

جان کربی نے کہا کہ اسرائیل دوبارہ حماس کے پیچھے جانے کا فیصلہ کرے گا تو اسے امریکی حمایت حاصل ہوگی۔

ملک بھر میں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔

ویڈیو میں رہائی پانے والے یرغمالی گرم جوشی سے حماس جنگجوؤں کو الوداع کر رہے ہیں۔

نیب نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف کچھ ثبوت نہیں تھے، سربراہ جے یو آئی (ف)

ن لیگی رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بڑا تڑکا اپنا بندہ چیئرمین پی ٹی آئی لگواکر لگایا ہے۔ بیرسٹر گوہر پچھلے سال تک پیپلز پارٹی میں تھے۔

اسرائیلی فوج نے الزام لگایا تھا کہ بچوں نے ان پر دھماکا خیز مواد پھینکا تھا، درحقیقت ایک بچے کے ہاتھ میں فائر کریکر تھا۔

ڈومینیکا کو پہلے راؤنڈ کا ایک اور سپر 8 کے دو میچز کی میزبانی کرنا تھی۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کی منظوری دے دی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متعلقہ آفیسر نے پولیس کو گالیاں دیں اور کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالی۔

لطیف نیازی کو محکمہ تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن نے گرفتار کیا،

برطانیہ ان دنوں شدید سردی کی زد میں ہے۔ لندن سے میڈیا رپورٹ کے مطابق انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے لیے برفباری کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

نادرا ریکارڈ میں نوجوان کی تین مائیں ہونے کی وجہ سے مستقبل میں مسئلہ ہوسکتا ہے۔

وزارت خزانہ کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ میں قابل اور تجربہ کار اسٹاف بھرتی کیا جائے گا۔

اداکار انیل کپور نے اداکار رنبیر کپور سے متعلق 16 سال قبل کہے الفاظ دوبارہ دہرادیے۔

QOSHE - کشور ناہید - کشور ناہید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کشور ناہید

11 1
01.12.2023

پنجاب والے بارش کیلئے مصنوعی اہتمام کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اللہ نے کراچی کو رات بھر اصلی گرج چمک والی بارش بخشی اور صبح کو ہم نے عرصے کے بعد نیلا آسمان دیکھا۔

یہ وہ دن تھے جب امینہ سید نے ادب فیسٹ کے نام کے ادارے کے تحت آصف مرحوم کی بے وقت موت کے بعد تنہا مگر ادب دوست لوگوں کے ہمت دلانے پر بہت ہی اہم کانفرنس کی۔ خصوصیت یہ تھی کہ ان دو دنوں میں نوجوانوں نے پروگرام کنڈکٹ کرنے اور ہم جیسے بڈھوں کو سنبھالنے کے علاوہ کانفرنس کے دوران سوال و جواب کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ کئی جگہ مشکل موضوعات تھے۔ مثلاً معیشت پر شبر زیدی صاحب بہت بولتے اور ہر چینل پر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی تو بہت پتے کی بات ماہر معیشت کی حیثیت سے کرتے ہیں اور اب وردی کے ڈر سے ابتدائے گفتگو میں گویا ہوئے کہ1952ء سے اب تک معیشت میں فوج کا کوئی کردار نہیں رہا۔ حالانکہ باجوہ صاحب اور فیض حمید کے سارے چکر نے کھل کے اعتراف کیا ہے کہ ہر زمانے میں ہر حکومت میں وردی کا عمل دخل جو اسکندر مرزا کے زمانے سے شروع ہوا تو اب ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں۔‘‘

یہ موضوع بعد کے دوسرے سیشن میں بھی دہرایا جاتا رہا، چاہے ثقافت سے بے رخی کی بات ہو کہ عورتوں پر یہ موجودہ رہبران جو بول رہے ہیں، ان پر صرف نکتہ چینی نہیں بلکہ مثبت انداز میں جواب دینے اور عورتوں کو الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی بات ہر سیشن میں ،چاہے وہ ادب سے متعلق ہو کہ صحافت کی طالبات ،خاص کر حسن عباس کی تازہ اور موجودہ صورت حال کے بارے میں بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں۔

کانفرنس کے دوران کراچی میں بلدیہ فیکٹری جیسے سانحہ پیش آیا۔ جنریٹر پھٹ گیا اور پوری بلڈنگ شعلوں کی لپیٹ میں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بلدیہ فیکٹری کی طرح یہاں بھی ایمرجنسی ڈور نہیں تھے۔ اس لیے کئی لوگ سیڑھیوں سے اترنہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play