دو دن پہلے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی جی کی ایک تصویر کا بہت چرچا ہوا، تصویر مودی جی نے ٹوئیٹر (ایکس) پر خود پوسٹ کی تھی جس میں وہ چھتیس گڑھ میں واقع ایک جین مندر میں ایک مادر زاد برہنہ 108سالہ بزرگ، اچاریہ ودھیا ساگر سے آشیرباد لے رہے ہیں۔ اس پر ہمارا پہلا ردِ عمل یہ تھا کہ فوراً چھتیس گڑھ کا موسم گوگل کیا گیا، کم سے کم درجہ حرارت 16 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو ہماری نظر میں برہنگی کے فروغ کیلئے غیر موزوں درجہ حرارت ہے۔ پھر چھتیس گڑھ میں ڈینگی کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اب تک 1500 سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، یہ اعداد و شمار بھی اچاریہ جی کی جرات کا برہنہ ثبوت ہیں۔ بہرحال، ہماری نظر میں چھتیس گڑھ کے مجموعی حالات برہنگی کے شوقین بزرگوں کیلئے موزوں قرار نہیں دیے جا سکتے۔

مودی جی کی تصویر دیکھ کر بھارتی اور پاکستانی تہذیب کے فرق کا بھی احساس ہوتا ہے، ہمارے ہاں اگر کوئی وزیرِ اعظم کسی ننگے پیر کے سامنے سجدہ ریز ہو بھی جائے تو اس تصویر کو خود ہی مشتہر کرنے کا رسک کبھی نہ لے، بلکہ ایسی تصویر کو کوئی خفیہ ایجنسی کسی سازشی رُت میں لِیک کر کے داد طلب کرتی پائی جائے۔ اچاریہ جی پر مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ 2016 میں وہ مدھیا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ کی دعوت پر ریاستی اسمبلی میں شمشیرِ عریاں کی طرح لہراتے ہوئے تشریف لائے تھے جہاں ان کا خطابِ دل پذیر انتہائی محویت سے سنا اور دیکھا گیا، اچاریہ جی نے اپنی اس یادگار تقریر میں حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنے اور جنتا کو روٹی اور ’کپڑا‘ فراہم کرنے کی شکشا دی تھی۔ جب کہ پاکستان کی کسی بھی اسمبلی کو آج تک یہ’ اعزاز‘ نصیب نہیں ہوا، ہمارے لیے تو یہ تصور کرنا بھی دشوار ہے کہ قائد اعظم کے پورٹریٹ کے سامنے کوئی ننگا پِیرایستادہ ہو اور ارکانِ اسمبلی میں گیان بانٹ رہا ہو، اسمبلی کی اگلی نشستوں پر براجمان کچھ ارکانِ اسمبلی کے چہرے بھی نظر میں گھوم رہے ہیں جن میں سے شیخ رشید کے سوا کسی کا بھی نام لکھنے سے قلم شرما رہا ہے۔

ننگے پِیروں کا تذکرہ ہو تو سرمد لاہوری کا ذکر کرنا ضروری ہے، سرمد ان معنیٰ میں پیر تو نہیں تھا لیکن ننگا ضرور تھا، اورنگ زیب بادشاہ نے سرمد کا سر کٹوا دیا تھا، سرمد پر الزام تھا کہ وہ مادر زاد برہنہ رہتا ہے اور کلمہ کا صرف پہلا حصہ ’لا الہ‘ پڑھتا ہے، جب کہ اکثر مورخین سمجھتے ہیں کہ سرمد کا سب سے بڑا گناہ اس کا دارا شکوہ سے قریبی تعلق تھا۔ بہرحال، ہم سرمد کو کم از کم شاعری میں پِیر مانتے ہیں، جن کا ارشاد ہے ’’شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم... دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم۔‘‘ ننگے پِیر عموماً اپنی برہنگی کے اسباب کچھ یوں بتاتے ہیں، ’’پردہ؟ کس سے پردہ؟ پردہ تو انسانوں سے کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ارد گرد تو کوئی انسان نہیں ہے، ہم تو جانوروں کے درمیان رہتے ہیں اور جانوروں سے کیا پردہ۔‘‘ مغرب میں ننگے پِیر یا پیرنیاں نہیں ہوتے، وہاں برہنگی کی افادیت تسلیم کرنے والے موجود ہیں، برہنگی کے حق میں تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں اور عریانی اور فحاشی کے مابین فرق پر مکالمہ بھی چلتا رہتا ہے۔ مغرب میں برہنگی کو فطرت سے ہم آہنگ ہونے کا ایک راستہ سمجھنے والے بھی موجود ہیں، برہنگی کو معاشرے کے شکنجے سے آزادی کا اظہار اور بغاوت کا استعارہ سمجھنے والے بھی پائے جاتے ہیں۔

کالم لکھتے لکھتے خیال آیا کہ بلدِ سیاست میں بھی تو نانگے پِیر پائے جاتے ہیں، جو نہ تو جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کا تکلف کرتے ہیں نہ مساوات کا خرقہ زیب تن کرنا پسند فرماتے ہیں، نہ احترامِ آدمیت کی عبا اوڑھتے ہیں نہ انصاف کی پوشاک زینتِ وجود بناتے ہیں۔ ہٹلر اور مسولینی تو بس بدنام ہو گئے، ورنہ ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں آج بھی کئی انٹرنیشنل ننگے پیر نظر آتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کی ’جنگ‘ ہو رہی ہے، جو ’جنگ بندی‘ کی اپیلیں کرتے ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ میں ’متحارب‘ گروہوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ اصطلاحات کوئی نانگا پیر ہی استعمال کر سکتا ہے، اگر کسی شخص میں حیا کی ایک رمق بھی باقی ہو تو وہ سیدھے لفظوں میں کہے گا کہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کیا جائے، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی روکی جائے۔ باقی تمام اصطلاحات ننگِ انسانیت کی مظہر ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کو ’جنگ‘ نہیں کہتے، نسل کشی کو ’تنازع‘ نہیں کہا جاتا۔

ملکی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں تو نانگے پیروں سے ملاقات ہو جاتی ہے، جنہوں نے آئین کا کُرتا پھاڑا، قانون کا جامہ صد چاک کیا، جمہوریت کی لوئی تار تار کی اور شرفِ انسانیت کی دستار دھجی دھجی کر ڈالی۔ اور عالمِ برہنگی میں تختِ حکم رانی پر یوں جلوہ افروز ہوئے کہ تمام رعایا شرمائی شرمائی پھرتی تھی، مگر نانگے پیروں کا اعتماد دیدنی رہا، یہ تو ان کا بس نہیں چلا ورنہ وہ نانگے پِیر اچاریہ شری ودھیا ساگر جی مہاراج کی طرح 108 سال کی عمر تک اس مسندپر سرفراز رہتے ۔پاکستان میں آج تک صرف ایک نانگے پِیر کو وقار سیٹھؒ نے صاف صاف لفظوں میں بتایا تھا کہ ’پِیر بادشاہ تو ننگا ہے‘، ورنہ باقی برہنہ پِیر تو اپنے تئیں جُبہ و دستار سمیت قبروں میں جا لیٹے۔

ایک یو ٹیوب وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں ایک ننگے پِیر نے بدن کے ساتھ ایک ٹل لٹکا رکھا ہے، مریدنیاں آتی ہیں اور وہ ٹل اس یقین سے بجاتی ہیں کہ اس طرح ان کے من کی مرادیں پوری ہوں گی۔ یہ سراسر جہالت ہے۔ ہماری عوام اور بالخصوص سیاست دانوں سے درخواست ہے کہ نانگے پیروں کے جسم سے لٹکے ہوئے یہ ٹل بجانے سے توبہ کر لیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا 146 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے، ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے ۔

اسموگ اور حد نگاہ کم ہونے پر عبدالحکیم سے گوجرہ تک موٹروے بند کر دی گئی ہے۔

لندن میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 مئی میں ملوث افراد کو سرعام سزا ہونی چاہئے تھی، ٹرائل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔

سی ٹی ڈی ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق حملہ آوروں کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا، ملزمان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور علی ناصر رضوی نے اسموگ کی شدت کے باعث لگائے جانے والے اسمارٹ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کا حکم دیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انضمام الحق کا استعفیٰ قبول کرلیا۔

محکمہ صحت سندھ کے مطابق بلوچستان سے کانگو وائرس کے 16 مریض نجی اسپتال منتقل کیے گئے تھے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور شہر میں پولیس کی 21 عارضی چوکیوں کو بھی بحال کردیا گیا ہے۔

قطر نے غزہ میں مختصر جنگ بندی کی کوششیں شروع کی ہیں۔ دوحہ سے خبر ایجنسی کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نہیں کہوں گا کہ بابر اعظم نے اچھی یا بری کپتانی کی، قومی کرکٹر

پی ایس ایکس مارکیٹ کیپٹلائزیشن آج 72 ارب روپے بڑھی ہے، جو کاروبار اختتام پر 7 ہزار 820 ارب روپے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو لکھے گئے خط کو بے بسی قرار دیدیا۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ کردیا۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ پارلیمنٹ میں غزہ کے بچوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔

ترجمان امارت اسلامیہ نے کہا کہ افغانستان برادر اور پڑوسی کی طرح پاکستان سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

QOSHE - حماد غزنوی - حماد غزنوی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حماد غزنوی

25 0
09.11.2023

دو دن پہلے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی جی کی ایک تصویر کا بہت چرچا ہوا، تصویر مودی جی نے ٹوئیٹر (ایکس) پر خود پوسٹ کی تھی جس میں وہ چھتیس گڑھ میں واقع ایک جین مندر میں ایک مادر زاد برہنہ 108سالہ بزرگ، اچاریہ ودھیا ساگر سے آشیرباد لے رہے ہیں۔ اس پر ہمارا پہلا ردِ عمل یہ تھا کہ فوراً چھتیس گڑھ کا موسم گوگل کیا گیا، کم سے کم درجہ حرارت 16 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو ہماری نظر میں برہنگی کے فروغ کیلئے غیر موزوں درجہ حرارت ہے۔ پھر چھتیس گڑھ میں ڈینگی کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اب تک 1500 سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، یہ اعداد و شمار بھی اچاریہ جی کی جرات کا برہنہ ثبوت ہیں۔ بہرحال، ہماری نظر میں چھتیس گڑھ کے مجموعی حالات برہنگی کے شوقین بزرگوں کیلئے موزوں قرار نہیں دیے جا سکتے۔

مودی جی کی تصویر دیکھ کر بھارتی اور پاکستانی تہذیب کے فرق کا بھی احساس ہوتا ہے، ہمارے ہاں اگر کوئی وزیرِ اعظم کسی ننگے پیر کے سامنے سجدہ ریز ہو بھی جائے تو اس تصویر کو خود ہی مشتہر کرنے کا رسک کبھی نہ لے، بلکہ ایسی تصویر کو کوئی خفیہ ایجنسی کسی سازشی رُت میں لِیک کر کے داد طلب کرتی پائی جائے۔ اچاریہ جی پر مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ 2016 میں وہ مدھیا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ کی دعوت پر ریاستی اسمبلی میں شمشیرِ عریاں کی طرح لہراتے ہوئے تشریف لائے تھے جہاں ان کا خطابِ دل پذیر انتہائی محویت سے سنا اور دیکھا گیا، اچاریہ جی نے اپنی اس یادگار تقریر میں حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنے اور جنتا کو روٹی اور ’کپڑا‘ فراہم کرنے کی شکشا دی تھی۔ جب کہ پاکستان کی کسی بھی اسمبلی کو آج تک یہ’ اعزاز‘ نصیب نہیں ہوا، ہمارے لیے تو یہ تصور کرنا بھی دشوار ہے کہ قائد اعظم کے پورٹریٹ کے سامنے کوئی ننگا پِیرایستادہ ہو اور ارکانِ اسمبلی میں گیان بانٹ رہا ہو، اسمبلی کی اگلی نشستوں پر براجمان........

© Daily Jang


Get it on Google Play