کابل اور حق ہمسائیگی
جب تک سوشل میڈیا بے لگام رہے گا اور مادر پدر آزاد قسم کے پروگرام پیش کرتا رہے گا قوم ذہنی انتشار کا شکار رہے گی‘ سنسر شپ کو اچھا نہیں تصور کیا جاتا پر اس کی مادر پدر آزادی کو بھی ملک کے سنجیدہ طبقے کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے خاص طور پر اس پر دکھلائے جانے والے وہ پروگرام جو گھر کے بزرگ اپنے گھر کے اہل و عیال کے ساتھ اکھٹے بیٹھ کر دیکھنے میں شرم محسوس کریں ذومعنی مکالموں اور بے حیائی پرمبنی پروگراموں پر سنسر شپ کی قینچی چلانے کی ضرورت ہے ۔وزیر دفاع ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی حکومت اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں کر رہی اور اس ضمن میں اس نے پاکستان کی گذارشات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا انہوں نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ اگر کابل نے اپنا رویہ نہ بدلا تو افغانستان اور بھارت کی دو طرفہ تجارت کے لئے پاکستان راہداری ختم کر سکتا ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کب اپنے اس بیان کو عملی جامہ پہنائیں گے‘ وہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ اپنے شہیدوں کی لاشیں دفناتے دفناتے تھک چکے........
© Daily AAJ
visit website