لذت زندگی ، مبارک باد
غالب نے کہا تھا کہ
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اور غالب یہ کہتے ہوئے اس لئے حق بجانب تھے کہ وہ کلکتہ سے ہو آئے تھے،سوچتا ہوں کہ میں تو ’غرناطہ‘ کبھی نہیں گیا، توپھر عارف افضال عثمانی کی سفری کہانی”قرطبہ اداس ہے“ پڑھتے ہوئے مجھے ایساکیوں لگا جیسے ایک نہیں کئی ایک تیر میرے جگر میں مسلسل پیوست ہو رہے ہیں اور قدم قدم پرآنکھوں میں دھواں بھرتا جارہاہے، لیکن رکئے! جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں غرناطہ کبھی نہیں گیا تو شاید یہ پورا سچ نہیں ہے، کیونکہ غرناطہ تو میں کئی بار جا چکا ہوں،جانے کتنی صدیوں سے جارہا ہوں، یہ غرناطہ تو میرا حافظہ ہے ذر ا کہیں ذکر چھڑا تو پورا بدن ایک سُرکی ہوئی ستار کی طرح درد بھرے نغمے اگلنے کےلئے بے تاب ہو جاتا ہے، اورپھر میں خود کو ان محلّات کی تعمیر کے زمانے میںکسی ایسے مزدور کے روپ میں دیکھنے لگتاہوں جو تھکن اتارنے کےلئے کشتی والوں کی طرح اس وقت تک گاتا رہتا ہے جب تک محلات کے ماتھے پر ”لا غالب الااللہ“ کا کلمہ نہیں لکھا جاتا۔یہ سفری کہانی پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ الحمرا کے حسن سے خود کو شرابور کر رہا ہوں،عظمت ِ رفتہ سے خود کو بھگو رہا ہوں زرد اور نارنجی رنگ کے مالٹوں........
© Daily AAJ
visit website