گزشتہ کل ایک دوست نے مولانا عبد الماجد دریابادی کی ایک دلچسپ تحریر بھیجی، اس میں انھوں نے اپنے زمانے کے ڈاکٹرز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٓج کل سب سے اچھا اور قابل ڈاکٹر اسے نہیں سمجھا جاتا جو اپنے فن کا ماہر ہو بلکہ اس کے برعکس اسے بڑا ڈاکٹر کہا جاتا ہے جس کی فیس سب سے زیادہ ہو، اور اس کے پاس ایک قیمتی گاڑی بھی ہو ‘اور وہ رات کے وقت معائنہ کی فیس بھی ڈبل لیتا ہو‘ بالکل ا±سی طرح جیسے بڑا وکیل یا بیرسٹر وہی کہلاتا ہے جس کی فیس سب سے اونچی ہو، مولانا لکھتے ہیں کی طب کا پیشہ دنیا بھر میں ایک ’ شریف پیشہ ‘ سمجھا جاتا ہے پرانے زمانے میں ڈاکٹر صاحبان کا مقصود خدمت خلق اور رضائے خالق تھا وہ دوائیں دیتے اور دعائیں لیتے تھے، مجھے اس تحریر میں سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس میں گزشتہ زمانے کے حکما ءاور طبیبوں کو آج کے زمانے سے بہتر قرار دیا گیا مگر اتفاق سے مولانا کی یہ تحریرکم و بیش سو برس پرانی یعنی ستمبر 1932 ءکی ہے گویا سو سال پہلے بھی ا±س دور کو اچھاسمجھا جاتا تھا جو گزر گیا تھا جو بیت چکا تھا، اور کل کی طرح آج بھی حال کو ہمیشہ ہی کوسا جاتا ہے، اردو کا ایک روزمرہ ہے کہ اچھے صرف دو ہی لوگ ہیں ایک وہ جو اس دنیا سے چلا گیا ہے اور دوسرا وہ جسے ابھی اس دنیا میں آنا ہے، اس کے باوجود ہم ہمیشہ لمحہ ¿ موجود د کی بات کرتے ہیں فلم وقت کے لئے ساحر لدھیانوی کے ایک گیت کے بول ہیں ’ آگے بھی جانے نہ تو،پیچھے بھی جانے نہ تو،جو بھی ہے بس یہی اک پل ہے، “ مگر ہم جس پل میں جیتے ہیں اس سے ہمیں بہت شکایتیں ہوتی ہیں، کیونکہ بس یہی سننے کو ملتا ہے کہ پہلے زمانہ بہت اچھا تھا، اور ہم بھی اس بات کا یقین اس لئے کر لیتے ہیں کہ ہم نے وہ زمانہ دیکھا نہیںہوتا، یہ ایک طرح سے انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ دور کی چیزوں کے بارے میں کہی گئی باتوں کا یقین کرنے میں ہمیں سہولت ہوتی ہے ، جس طرح اگر کسی شخص سے کہا جائے کہ ماہرین کہتے ہیں کہ آسمان پر سو کھرب ستارے ہیں تو وہ یقین کر لیتا ہے لیکن اس کے بر عکس اگر کمرے میں آنے والے کسی شخص سے یہ کہا جائے کہ احتیاط کریں اس میز یا کرسی پر تازہ تازہ پینٹ کیا گیا ہے تو وہ آگے بڑھ کر انگلی سے اسے چیک کرے گا، کیونکہ یہ اس کی دسترس میں ہے، ہم اپنے زمانے پر قیاس کر کے گزرے زمانوں کو اچھا یا برا اس لئے نہیں گردان سکتے کیونکہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق زندگی بسرکی جاتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ماحول میں تبدیلی آتی ہے‘ وہاں انسانی رویوں میں بھی فرق آ جاتا ہے اور اسے آنا چاہئے،اب ہم ایک مختلف حسیات کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں،آج کے تقاضے کچھ اور ہیں ،اسی طرح کل زندگی گزارنے کے طور طریقے کچھ اور تھے،کہتے ہیں کہ پہلے بزرگ انتظار کیا کرتے تھے کہ کب کوئی مہمان آئے تا کہ کھانا کھائیں اور آج کے چھوٹے بڑے سب اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب مہمان جائے کہ ہم کھانا کھائیں،اس کا تعلق قطعاََ اس بات سے نہیں کہ ہم بے حس یاکٹھور ہو گئے ہیں بلکہ اب معاشی طور پر ہم یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے، کیونکہ اب ہماری خواہشات محض ضروریات تک محدود نہیں رہیں، اب ہمیں وہ ساری سہولیات چاہئیں جو آس پاس رہنے والے کسی بھی شخص کے پاس ہیں، اس لئے مان لینا چاہئے کہ ہم اپنے دور کے مطابق جینے کے سامان ا کٹھے کرنے میں جتے ہوئے ہیںاور یہ جو ہماری کل کی اچھی اقدار ہیں اگر وہ ہماری معاشی حالت کے دائرہ کار میں آتی ہیں تو ضرور اس کے لئے ہمیں اپنی بساط سے بڑھ کر سوچنا ہی نہیں عمل بھی کرنا چاہئے، اور میرا خیال ہے کہ ابھی ہم گزرے زمانے سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہیں،آج بھی انسان کی بھلائی کے لئے سوچنے والوں کی کمی نہیں اور وہ اپنے حصّے کا کام کر رہے ہیں، برے بھلے لوگ ہر علاقے اور ہر ادارے میں ہوتے ہیں ،مولانا نے اطبا ءکی بات کی ہے تو میں سمجھتا ہوں کی آج بھی ایسے معالج ہر شہر میں موجود ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنے لوگوںکو صحت کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں، اپنے شہر میں تو میں ایسے ڈاکٹر دوستوں کو جانتا بھی ہوں جو ضرورت مند مریضوں کا خصوصی خیال رکھتے ہیں اور ہمیشہ ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مریضوں کے لئے باعث شفا اور مریضوں کو ہمارے لئے باعث ِ دعا بنائے رکھے، پروفیسر ڈاکٹر حفیظ اللہ اور پروفیسر ڈاکٹر انتخاب عالم نے تو اپنے لوگوں کے لئے طب کے موضوع پر بہت ہی مفید کتب بھی شائع کی ہیں اور کر رہے ہیں،جو میرے نزدیک کسی صدقہ ¿ جاریہ سے کم نہیںہیں اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ان کتب میں بیماریوں کے حوالے سے ایلو پیتھی کے ساتھ ساتھ قران حکیم اور طب نبوی کے مطابق روحانی علاج بھی موجود ہیں ،ان دنوں خیبر میڈیکل کالج میں طب کے حوالے سے ایک ورکشاپ جاری ہے جس کے ناظم لاہور سے آئے ہوئے میرے دوست ڈاکٹر وقار الحسن زیدی ہیں اس ورکشاپ کا موضوع بھی بڑا دلچسپ ہے، ” ایک اچھا انسان کیسے بنا جاسکتا ہے“ میں ڈاکٹر وقار الحسن کو بہت قریب سے جانتا ہوں وہ خدمت خلق کے حوالے سے اپنی سطح پر بہت سی خدمات انجام دینے اور اپنے دوستوں کی مدد سے کئی ضرورت مندوںکی چپکے سے مدد کرنے والے ڈاکٹر وقار الحسن پشاور ہی کے ہیں اور معروف براڈ کاسٹر امیر الحسن زیدی کے بھتیجے ہیں، سو زمانے سارے اچھے ہیں، برے بھلے لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں البتہ اگر دوسروں کی برائیوں کا چرچا کرنے کی بجائے ہر شخص اپنی اصلاح کرنے کی ٹھان لے تو صورت حال میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ فراز نے کہا ہے نا۔
شکوہ ِ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

QOSHE - اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے - ناصر علی سید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

32 0
20.12.2023

گزشتہ کل ایک دوست نے مولانا عبد الماجد دریابادی کی ایک دلچسپ تحریر بھیجی، اس میں انھوں نے اپنے زمانے کے ڈاکٹرز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٓج کل سب سے اچھا اور قابل ڈاکٹر اسے نہیں سمجھا جاتا جو اپنے فن کا ماہر ہو بلکہ اس کے برعکس اسے بڑا ڈاکٹر کہا جاتا ہے جس کی فیس سب سے زیادہ ہو، اور اس کے پاس ایک قیمتی گاڑی بھی ہو ‘اور وہ رات کے وقت معائنہ کی فیس بھی ڈبل لیتا ہو‘ بالکل ا±سی طرح جیسے بڑا وکیل یا بیرسٹر وہی کہلاتا ہے جس کی فیس سب سے اونچی ہو، مولانا لکھتے ہیں کی طب کا پیشہ دنیا بھر میں ایک ’ شریف پیشہ ‘ سمجھا جاتا ہے پرانے زمانے میں ڈاکٹر صاحبان کا مقصود خدمت خلق اور رضائے خالق تھا وہ دوائیں دیتے اور دعائیں لیتے تھے، مجھے اس تحریر میں سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس میں گزشتہ زمانے کے حکما ءاور طبیبوں کو آج کے زمانے سے بہتر قرار دیا گیا مگر اتفاق سے مولانا کی یہ تحریرکم و بیش سو برس پرانی یعنی ستمبر 1932 ءکی ہے گویا سو سال پہلے بھی ا±س دور کو اچھاسمجھا جاتا تھا جو گزر گیا تھا جو بیت چکا تھا، اور کل کی طرح آج بھی حال کو ہمیشہ ہی کوسا جاتا ہے، اردو کا ایک روزمرہ ہے کہ اچھے صرف دو ہی لوگ ہیں ایک وہ جو اس دنیا سے چلا گیا ہے اور دوسرا وہ جسے ابھی اس دنیا میں آنا ہے، اس کے باوجود ہم ہمیشہ لمحہ ¿ موجود د کی بات کرتے ہیں فلم وقت کے لئے ساحر........

© Daily AAJ


Get it on Google Play