کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں روزانہ آپریٹ ہونے والی کم و بیش چوالیس ہزار فلائیٹس سے لگ بھگ تین کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں ، اور پھر ڈینور کا انٹر نیشنل ائیر پورٹ تو امریکا کے چند ایک بڑے ائیر پورٹ میں گنا جاتا ہے،ہمہ وقت کئی ائیر لائنز کے جہاز لینڈ اور ٹیک آف کررہے ہوتے ہیں،مختلف ٹرمینلز تک پہنچنے کے لئے تیز رفتار ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوئی بھاگ رہی ہوتی ہیں ، کئی منزلوں تک پہنچنے کے لئے بیسیوں ایلویٹرز اور خود کار سیڑھیوں (ایسکیلیٹرز)کا تو جیسے جال بچھا ہوا ہے،پھر ائیر پورٹ کا مستعد عملہ بھی مسافروں کی رہنمائی کے لئے موجود رہتا ہے، ایک میلے اور جشن کا سماں ہو تا ہے، یہ ائیر پورٹ امریکا کی بڑی ائیر لائن ’ یونائیٹڈ‘کا مرکزہے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اس بار جتنے احباب نے بھی مجھے ائیر ٹکٹ بھیجے سب کے سب اس ائیر لائن کے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس ائیر لائن کے ٹکٹ میں آپ ایک کیری آن اور ایک لیپ ٹاپ بیگ ساتھ لے جاسکتے ہیں جب کہ بیشتر ائیر لائنز کی فلائٹس میں بیگ تو لے جایا جاسکتا ہے مگر ’کیری آن کے لئے الگ سے پیسے بھرنے پڑتے ہیں، امریکا میں کسی بھی شہر سے دوسرے شہر یا سٹیٹ جانے کے لئے ہوائی سفر ہی کرنا پڑتا ہے،گاڑی کا کوئی سوچ ہی نہیں سکتا کہ وقت بہت صرف ہوتا ہے ، چنانچہ مجھے بھی تین گھنٹے سے لے کر ساڑھے سات اور بسا اوقات ایک سٹاپ کی وجہ سے آٹھ نو گھنٹے کا ہوائی سفر کرنا پڑا اس لئے میں دوستوں سے کہتا رہا کہ میرا زیادہ وقت تو ائیر پورٹ پر ہی گزرا، ڈینور سے ہیوسٹن باقی ادبی مراکز کی نسبت بہت قریب ہے ،سٹاپ نہ ہو تو ڈھائی پونے تین گھنٹہ کی فلائٹ ہے، میں رات گئے پہنچا تو میرے شاگرد رشید اور مانکی شریف کے پیر گھرانے کے بہت ہی محبت کرنے والے پیرزادہ محمود احمد شاہ اپنے برخوردار حسنین شاہ کے ساتھ پھولوں کا گلدستہ لئے منتظر تھے، پیرزادہ محمود شاہ اَسّی کی دہائی کے اوائل میں گورنمنٹ کالج نوشہرہ میں میرے سٹوڈنٹ تھے
اور اب کئی برسوں سے اپنے مذہبی گھرانے کی تمام تر روایات اور اقدار کے سا تھ ہیوسٹن میں مقیم ہیں،ہر چند رات بہت ہو گئی تھی مگر دوست مہربان عنایت اشرف المعروف عیش بھائی ہمیشہ کی طرف اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ انتظار میں تھے، عیش بھائی کا گھر در اصل باہر سے آنے والے خصوصاً تقدیس ادب انٹر نیشنل کے مشاعروں اور ادبی تقریبات کے لئے آنے والے تمام شعرا و ادبا کا مستقل مہمان خانہ ہے، میں اور رفعت علی سید جتنی بار بھی فیاض خان رامپوری اور شاہ غزالی کی دعوت پر ہیوسٹن گئے
عیش بھائی کے بہت ہی کشادہ اور خوبصورت گھر ہی میں قیام رہا، صبح سویرے سوئمنگ پول کے کنارے سے طلوع آفتاب کا منظر دیدنی ہوتا ہے کیونکہ پول کے متصل رواں دواں گنگناتی نہر پر پرندوں کی میٹھی آوازیں دن کے آغاز کو بہت ہی دلآویز اور بامعنی بنا دیتی ہیں، عیش بھائی نے بتایا کہ عباس تابش تو سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے ہیں دو دن پھر میں اور عباس تابش شکاگو مشاعرہ میں بھی اکٹھے تھے وہ مجھ سے پہلے ہیوسٹن پہنچ چکے تھے، ہوائی سفر میں تھکن ہو جاتی ہے جیٹ لیگ کی وجہ سے مسلسل غنودگی کا شکار ہونا پڑتا ہے ویسے بھی اس وقت نصف شب بیت چکی تھی مگر عیش بھائی نے خوش ذائقہ لونگ والی چائے کیا بنائی کہ اس کی خوشبو کا تعاقب کرتے ہوئے عباس تابش بھی جاگ کر سینہ چاکان چمن سے آن ملے ،پھرمحفل نے تو
جمنا تھا سو رفتار ادب پر بے تکان باتیں جاری رہیں جب صبح کے تین بج گئے تو پیرزادہ محمود شاہ نے یاد دلایا کہ تقریب کی وجہ سے کل بہت مصروف دن ہو گا اس لئے اب سو جانا چاہئے، سو وہ اور حسنین شاہ تو چلے گئے مگر ہم نے اپنے اپنے کمروں تک جانے سے پہلے ایک بار پھر چائے پی ، مجھے شاہ غزالی کے نئے شعری مجموعہ ’ چراغ ِ عشق پر مضمون بھی لکھنا تھا اس لئے چند کچھ دیر آرام ضروری تھا، یہ بھی خوب ہوا کہ جب میں مضمون مکمل کر چکا تو عیش بھائی نے ناشتہ کے لئے فون کیا، عیش بھائی مہمانوں کے لئے ممتا کی سی مٹھاس لئے ہوتے ہیں، یہ لیجئے، یہ ٹرائی کیجئے یہ تو بہت ضروری ہے، عجیب طبیعت کے مالک ہیں ،ہیوسٹن میں وہ جانے انجانے سب لوگوں کی سیوا کے لئے سارا دن مصروف رہتے ہیں کتنے ہی نئے آنے والوں کو مستقل ٹھکانہ نہ ملنے تک اپنے ہاں ٹھہراتے ہیں اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک بڑا گھر الگ سے ایسے مسافروں کے لئے وقف کر رکھا ہے، ہمہ وقت بے لوث خدمت خلق میں جتے رہتے ہیں پوچھو تو کہتے ہیں ، اللہ میاں کے بندوں کی خدمت سے بڑا سکھ بھلا کیا ہو سکتا ہے بس یوں سمجھو میں یہ سب کام اللہ میاں کی بنائی ہوئی اس دنیا میں رہنے کا اپنی بساط کے مطابق کرایہ ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،عباس تابش انہیں ہیوسٹن کا ” ایدھی ‘ کہتا ہے، واقعی ایسا ہی ہے،پھر ادبی ذوق کا عالم یہ ہے کہ چلتے پھرتے، ڈرائیوکرتے اورکام کرتے ہوئے مسلسل عمدہ اشعار سنا رہے ہوتے ہیں، موسیقی کا بھی بہت عمدہ ذوق ہے، پاکستان اور انڈیا سے ہیوسٹن آنے والا شاید ہی شاعر ادیب یا موسیقی سے جڑا کوئی فنکار ہو جو عیش بھائی کی میزبانی سے لطف نہ لے چکا ہو، آج کے زمانے میں جب کہ اپنی ذات سے ہٹ کر سوچنے کا چلن باقی ہی نہیں رہا، ان کا دم غنیمت ہے جنہیں دیکھ کر حالی کا شعر یاد آجاتا ہے
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

QOSHE - ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں - ناصر علی سید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

14 0
13.12.2023

کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں روزانہ آپریٹ ہونے والی کم و بیش چوالیس ہزار فلائیٹس سے لگ بھگ تین کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں ، اور پھر ڈینور کا انٹر نیشنل ائیر پورٹ تو امریکا کے چند ایک بڑے ائیر پورٹ میں گنا جاتا ہے،ہمہ وقت کئی ائیر لائنز کے جہاز لینڈ اور ٹیک آف کررہے ہوتے ہیں،مختلف ٹرمینلز تک پہنچنے کے لئے تیز رفتار ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوئی بھاگ رہی ہوتی ہیں ، کئی منزلوں تک پہنچنے کے لئے بیسیوں ایلویٹرز اور خود کار سیڑھیوں (ایسکیلیٹرز)کا تو جیسے جال بچھا ہوا ہے،پھر ائیر پورٹ کا مستعد عملہ بھی مسافروں کی رہنمائی کے لئے موجود رہتا ہے، ایک میلے اور جشن کا سماں ہو تا ہے، یہ ائیر پورٹ امریکا کی بڑی ائیر لائن ’ یونائیٹڈ‘کا مرکزہے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اس بار جتنے احباب نے بھی مجھے ائیر ٹکٹ بھیجے سب کے سب اس ائیر لائن کے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس ائیر لائن کے ٹکٹ میں آپ ایک کیری آن اور ایک لیپ ٹاپ بیگ ساتھ لے جاسکتے ہیں جب کہ بیشتر ائیر لائنز کی فلائٹس میں بیگ تو لے جایا جاسکتا ہے مگر ’کیری آن کے لئے الگ سے پیسے بھرنے پڑتے ہیں، امریکا میں کسی بھی شہر سے دوسرے شہر یا سٹیٹ جانے کے لئے ہوائی سفر ہی کرنا پڑتا ہے،گاڑی کا کوئی سوچ ہی نہیں سکتا کہ وقت بہت صرف ہوتا ہے ،........

© Daily AAJ


Get it on Google Play