ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں روزانہ آپریٹ ہونے والی کم و بیش چوالیس ہزار فلائیٹس سے لگ بھگ تین کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں ، اور پھر ڈینور کا انٹر نیشنل ائیر پورٹ تو امریکا کے چند ایک بڑے ائیر پورٹ میں گنا جاتا ہے،ہمہ وقت کئی ائیر لائنز کے جہاز لینڈ اور ٹیک آف کررہے ہوتے ہیں،مختلف ٹرمینلز تک پہنچنے کے لئے تیز رفتار ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوئی بھاگ رہی ہوتی ہیں ، کئی منزلوں تک پہنچنے کے لئے بیسیوں ایلویٹرز اور خود کار سیڑھیوں (ایسکیلیٹرز)کا تو جیسے جال بچھا ہوا ہے،پھر ائیر پورٹ کا مستعد عملہ بھی مسافروں کی رہنمائی کے لئے موجود رہتا ہے، ایک میلے اور جشن کا سماں ہو تا ہے، یہ ائیر پورٹ امریکا کی بڑی ائیر لائن ’ یونائیٹڈ‘کا مرکزہے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اس بار جتنے احباب نے بھی مجھے ائیر ٹکٹ بھیجے سب کے سب اس ائیر لائن کے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس ائیر لائن کے ٹکٹ میں آپ ایک کیری آن اور ایک لیپ ٹاپ بیگ ساتھ لے جاسکتے ہیں جب کہ بیشتر ائیر لائنز کی فلائٹس میں بیگ تو لے جایا جاسکتا ہے مگر ’کیری آن کے لئے الگ سے پیسے بھرنے پڑتے ہیں، امریکا میں کسی بھی شہر سے دوسرے شہر یا سٹیٹ جانے کے لئے ہوائی سفر ہی کرنا پڑتا ہے،گاڑی کا کوئی سوچ ہی نہیں سکتا کہ وقت بہت صرف ہوتا ہے ،........
© Daily AAJ
visit website