دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
ڈینور ائر پورٹ سے اڑان بھرنے کے بعد سے لے کر اب تک مجھے لیپ ٹاپ کھولنے کا موقع نہیں ملا، یہی خود سے طے کیا تھا کہ اب پشاور پہنچ کر ہی لیپ ٹاپ کا بیگ کھولوں گا اگر چہ مختلف ائرپورٹس کے سیکیورٹی زونز سے گزرتے وقت لیپ ٹاپ کو بیگ سے باہر نکال کر سکیننگ کیلئے ٹرے میں رکھنا پڑتا ہے لیکن یہ وقفہ محض دو ڈھائی منٹ کا ہو تا ہے، البتہ اس چھے مہینے کے طویل ادبی دورہ کے دوران جتنے بھی ادبی مراکز اور شہروں میں جانا ہوا لیپ ٹاپ ہم سفر ہی رہا، حتیٰ کہ جب افراز علی سیّد نے پوری فیملی کیلئے ”لاس ویگاس“ (امریکن اسے ویگس پکارتے ہیں)کے ویکیشن ٹرپ کا اہتمام کیا، تو گھر سے نکلتے وقت کومل بٹیا نے میرے کاندھے سے لٹکے لیپ ٹاپ بیگ کو دیکھ کر کہا تھا ’پاپا ہم ویکیشن پر جا رہے ہیں،لیپ ٹاپ ساتھ مت لے جائیے“ افراز نے بھی یہی کہا مگر میں نے کہا اس کے بغیر خود کو ادھورا ادھورا محسوس کروں گا، ممکن ہے کبھی کچھ وقت مل جائے، لیکن جب ہم اس”شہر طلسم“سے لوٹ کر گھر واپس آئے تو میں نے کومل بٹیا سے کہا کہ آپ لوگوں نے ٹھیک ہی کہا تھا مجھے اْس جادو نگری نے فرصت کا ایک لمحہ بھی مستعار نہ دیا کہ میں لیپ ٹاپ بیگ کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھ پاتا، ائر پورٹ ہی سے لاس ویگاس کی رنگ و نور میں شرابور خوب صورتیاں اور رعنائیاں سیاحوں کے دیدہ و دل کو اپنے پاس رہن رکھ لیتی ہیں اور آپ جیسے ’سحر زدہ‘ سے وہاں شب و روز بتاتے........
© Daily AAJ
visit website