حمید رازی کے پنجابی ناولٹ ’’کوٹھی نمبر 8 ‘‘میں ریلوے کے انگریز افسر جان سمتھ سن کا مختصر تذکرہ ہے‘ تذکرہ کیا ایک اداس کر دینے والی کہانی ہے۔ حمید رازی نے اس کردار کو ریلوے کے پرانے ریکارڈ کی گرد صاف کر کے نکالا۔ جان سمتھ ناردرن ریلوے کے بڑے افسر تھے۔دیگر اعلیٰ انگریز افسران کی طرح انہیں بھی میو گارڈن میں ایکڑوں پر پھیلا گھر الاٹ ہوا۔ وہ دس سال تک میو گارڈن میں رہے۔ جان سمتھ انگریز افسروں سے الگ تھلگ رہتا۔وہ تکلف زدہ کلب کی زندگی اور میل ملاپ سے اکتا یا۔ اگرچہ وہ خود زیادہ سماجی میل جول میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن رونق والے علاقے میں اس کا خوب دل لگتا۔ جان سمتھ سن کو ایک شکایت اپنے ساتھی افسروں سے یہ پیدا ہو چکی تھی کہ وہ رات کے کسی وقت بھی منہ اٹھا کر آ جاتے‘ وسکی کی فرمائش کرتے‘ ساتھ ہی کوئی ذاتی کام بھی کروا لیتے۔ وہ سرکاری اوقات کے بعد ذاتی زندگی کو صرف اپنے لئے رکھنا چاہتا تھا۔ وہ مری کی فیکٹری کی تیار کردہ بیئر شوق سے پیتا۔ وائن کو عورتوں کا مشروب تصور کرتا۔ میو گارڈن دوسروں کے لئے جنت کا ٹکڑا تھا لیکن جان سمتھ سن نے محکمے سے درخواست کی کہ اسے لاہور کے کوئنز روڈ پر بنگلہ بنا کر دیا جائے۔ چیئرنگ کراس سے گنگا رام کی طرف جانے والی سڑک کوئنز روڈ ہے‘ اب اسے شاہراہ فاطمہ جناح کہا جاتا ہے۔ ہلال احمر‘ پولیس دفتر وغیرہ کے پاس سے گزرتے ہوئے آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ایک پٹرول پمپ آتا ہے۔ یہ 5کوئنز روڈ کے اسی بنگلے والی جگہ کی نکڑ میں ہے جسے جان سمتھ سن نے تعمیر کرایا۔ گنگا رام ہسپتال کی طرف جانے کی بجائے بائیں ہاتھ پٹرول پمپ کے ساتھ جانے والی سڑک پر مڑ جائیں تو کوئی پانچ چھ سو فٹ تک 5کوئنز روڈ کا پلاٹ رہتا ہے۔ اس طرف سڑک پر کاروں کے شو روم‘ ٹائر کی دکانیں‘ ورکشاپس اور اس نوع کے سامان کی فروخت کے اڈے ہیں۔ یہ دکانیں اور اڈے جان سمتھ سن کے بنگلے کے لان اور باغات کو تباہ کر کے بنائے گئے ہیں۔ پٹرول پمپ کے ساتھ ایک گلی بنگلے میں داخل ہوتی ہے اور ڈی کی شکل بناتی آخری حصے کے قریب دوبارہ سڑک پر واپس نکل آتی ہے۔ ممکن ہے یہ ڈیڑھ سو سال پہلے بنگلے کے دونوں دروازوں سے جڑے راستے ہوں۔ گاڑی ایک طرف سے داخل ہوتی اور دوسرے گیٹ سے باہر نکل آتی۔ میں نے اس جگہ کھڑے ہو کردیکھا ہے۔ اب کوئی نشانی نہیں۔ ہاں چڑیا گھر کی طرف نکلنے والی شاہراہ مجید نظامی پر آخری سرے پر 5کوئنز روڈ کے پلاٹ کا کچھ حصہ ماضی کی نشانی بتاتا ہے۔ وہاں بوتل پام کا اکلوتا درخت سڑک پر بھاگتی گاڑیوں کے دھوئیں ‘ شور او اردگرد انسانوں کے ہجوم میں آنکھیں بند کئے کھڑا ہے۔ گویا اس پتوں والے بگلے کو خوف ہے کہ اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے بھی کاٹ دیا جائے گا۔ مسٹر جان سمتھ سن نے بنگلہ ریلوے کے خرچ سے بنایا۔ تعمیراتی کام کے لئے مقامی ماہر کاریگر تلاش کئے۔ نقشہ انگریز ماہرین نے تیار کیا۔ بنگلے کا رقبہ کئی ایکڑوں میں پھیلا ہوا تھا اس لئے اسے 5کوئنز روڈ سٹیٹ کہا جاتا۔16ماہ کی مدت میں یہ گھر تیار ہو گیا۔ سمتھ سن نے تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے ہی درخت اور پودے لگوا دیے تاکہ جب وہ یہاں منتقل ہو تو پھول پودے اور گھاس اپنی بہار دکھانے کے قابل ہو چکے ہوں۔ اس گھر سے اس کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ روز یہاں آتا اور گھنٹوں گزارتا۔ برآمدے میں لکڑی کا کام کرایا گیا‘ کمروں میں آتش دان بنوائے گئے تاکہ سردیوں میں حرارت کا انتظام رہے۔ بلیئرڈ کھیلنے کے لئے الگ کمرہ بنوایا گیا۔ لائبریری کا حصہ خصوصی توجہ سے بنوایا۔ لائبریری کی کھڑکیاں ذرا اونچائی پر رکھی گئیں تاکہ سردیوں میں دھوپ زیادہ مل سکے۔ دروازوں کے تالے اور آرائشی اشیا انگلستان سے منگوائی گئیں۔ اس نے یہ خیال رکھا کہ لائبریری کی کھڑکیوں سے نگاہ باہر جائے تو سامنے پھول اور سبزہ پر ٹکے۔ پھول پودوں تک پانی پہنچانے کے لئے چھوٹی چھوٹی نالیاں بنائی گئیں۔پانی کے لئے گھر میں ایک کنواں کھدوایا گیا۔ بنگلے میں ہر طرف خوشبو بکھری رہتی۔ جان سمتھ سن تنہا تھا اس کی ایک بوڑھی ماں تھی۔ ماں کے لئے الگ کمرہ تھا۔ ان دو کی خدمت کے لئے کئی ملازم تھے بنگلے کے پچھلے حصے میں صفائی کرنے والوں‘ مالیوں‘ باورچی۔دھوبی‘ اور دوسرے خدمت گاروں کی رہائش گاہیں تھیں۔ جامن‘ آم اور مالٹے کے درخت تھے۔ اسے یہاں رہتے ہوئے چھ سات سال ہوئے تھے کہ ہندوستان کو آزاد کر کے دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ انگریز افسر اپنے مقامی عملے کو کام سمجھا رہے تھے‘ ریکارڈ حوالے کر رہے تھے۔ محکمے کو اچھے طریقے سے چلانے کے لئے مشورے دے رہے تھے لیکن جان سمتھ سن کا سارا دھیان بنگلے پر تھا۔ اس نے کیلنڈر پر واپسی کی تاریخ پر نشان لگایا‘ بنگلے کی چیزوں کی فہرست تیار کی‘ کتابوں‘ فائلوں اور نقشوں کو الگ الگ کیا کہ ان میں سے کیا انگلینڈ پہنچایا جا سکے گا۔ اس نے ان لوگوں کی فہرست بنائی جنہیں اپنی شراب کا تحفہ دینا تھا۔ برسوں سے وائن کی کچھ پیٹیاں پڑی تھیں‘ انہیں بانٹنے کے لئے لوگوں کے نام لکھے۔5کوئنز روڈ پر ریلوے کی ملکیت بہت سا سامان تھا۔ کرسیاں‘ میز‘ برتن‘ تصاویر ‘ کتابیں‘ الماریاں ‘ کچھ کتابیں اور قالین اس کے اپنے تھے۔ اس کی ہیٹ پہنے ایک تصویر تھی۔ وہ بنگلے کے بارے میں پریشان تھا۔ سوچ بچار کے لئے مری چلا گیا۔ اس نے طے کیا کہ بنگلہ کسی ایسے شخص کو بیچ دیا جائے جو اس کی شان و شوکت کی عزت کر سکے۔ بنگلے کو سنبھال سکے۔ واپس آیا تو ایک ساتھی اسے ہندو ٹھیکیدار دینا ناتھ کے گھر پارٹی میں لے گیا۔کچھ لوگوں نے ٹھیکیدار کا نام دینا لال لکھا ہے۔ جان سمتھ سن نے دینا ناتھ کے گھر باغات‘ پھول‘ پودے اور خدمت گاروں کی فوج دیکھی تو طے کر لیا کہ بنگلہ اسی کو بیچنا ہے۔ اس نے ریلوے سے اجازت لی اور بنگلہ دینا ناتھ کے حوالے کر کے لاہور اور 5کوئنز روڈ کو آنکھوں میں آئے آنسوئوں کی دھند میں لپیٹ کر انگلستان لوٹ گیا۔ (جاری ہے
QOSHE - 5کوئنز روڈ لاہور - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

5کوئنز روڈ لاہور

13 0
03.12.2023




حمید رازی کے پنجابی ناولٹ ’’کوٹھی نمبر 8 ‘‘میں ریلوے کے انگریز افسر جان سمتھ سن کا مختصر تذکرہ ہے‘ تذکرہ کیا ایک اداس کر دینے والی کہانی ہے۔ حمید رازی نے اس کردار کو ریلوے کے پرانے ریکارڈ کی گرد صاف کر کے نکالا۔ جان سمتھ ناردرن ریلوے کے بڑے افسر تھے۔دیگر اعلیٰ انگریز افسران کی طرح انہیں بھی میو گارڈن میں ایکڑوں پر پھیلا گھر الاٹ ہوا۔ وہ دس سال تک میو گارڈن میں رہے۔ جان سمتھ انگریز افسروں سے الگ تھلگ رہتا۔وہ تکلف زدہ کلب کی زندگی اور میل ملاپ سے اکتا یا۔ اگرچہ وہ خود زیادہ سماجی میل جول میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن رونق والے علاقے میں اس کا خوب دل لگتا۔ جان سمتھ سن کو ایک شکایت اپنے ساتھی افسروں سے یہ پیدا ہو چکی تھی کہ وہ رات کے کسی وقت بھی منہ اٹھا کر آ جاتے‘ وسکی کی فرمائش کرتے‘ ساتھ ہی کوئی ذاتی کام بھی کروا لیتے۔ وہ سرکاری اوقات کے بعد ذاتی زندگی کو صرف اپنے لئے رکھنا چاہتا تھا۔ وہ مری کی فیکٹری کی تیار کردہ بیئر شوق سے پیتا۔ وائن کو عورتوں کا مشروب تصور کرتا۔ میو گارڈن دوسروں کے لئے جنت کا ٹکڑا تھا لیکن جان سمتھ سن نے محکمے سے درخواست کی کہ اسے لاہور کے کوئنز روڈ پر بنگلہ بنا کر دیا جائے۔ چیئرنگ کراس سے گنگا رام کی طرف جانے والی سڑک کوئنز روڈ ہے‘ اب اسے شاہراہ فاطمہ جناح کہا جاتا ہے۔ ہلال احمر‘ پولیس دفتر وغیرہ کے پاس سے گزرتے ہوئے آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ایک........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play