گزشتہ ہفتے حمید رازی صاحب نے اپنا پنجابی ناولٹ ’’کوٹھی نمبر 8‘‘ بھیجا ۔ پہلے سے خواندگی کی منتظر کئی کتابیں میز پر دھری تھیں۔ حمید رازی حالیہ برسوں میں ریلوے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ لاہور میں فرائض کی انجام دہی کے لیے کئی برس رہے۔ اسی عرصے میں ریلوے افسران کی رہائشی آبادی میوگارڈن میں انہیں کوٹھی نمبر 8الاٹ ہوئی۔ کہانی تو کوٹھی نمبر 8کی ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سی دوسری داستانیں چلتی ہیں۔ ہر داستان اپنی نوع میں مکمل لیکن سارے دریا آخر کار ایک بڑے دریا میں جا ملتے ہیں۔ میرے لئے یہ ناولٹ جلد پڑھنے کی متعدد وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اس میں لاہور کی تاریخ کا ایک ایسا گوشہ شامل ہے جس کی بابت میری معلومات کم تھیں۔ انہوں نے جس طرح ریلوے کے محکمے، انتظامات اور آبادیوں کا نقشہ کھینچا ہے اس سے یہ کہنا بجا ہو گا کہ انگریز نے ناردرن ریلوے کے دفاتر اور عمارات کے نام پر قدیم لاہور کے قریب ایک نیا شہرا ٓباد کر دیا تھا۔ ہندوستان نے اس سے قبل گارڈن سٹی کا تصور تک نہیں کیا تھا۔ ریلوے میں انگریز، اینگلو انڈین اور دیسی باشندوں پر مشتمل تین طبقات تھے۔ اینگلو انڈین کے باپ انگریز تھے لیکن رنگت کالی ہونے کی وجہ سے انگریز انہیں ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس ناولٹ کے تاریخی معلومات والے حصے سے معلوم ہوا کہ انار کلی اور میاں میر چھائونی میں رہنے والے انگریز فوجی ، ریلوے ملازم انگریزوں سے خود کو برتر سمجھتے تھے۔ انگریز حکومت نے اپنے فوجی افسروں کے رویے سے سبق حاصل کیا۔ انگریز فوجی شراب پی کر رات کو باہر نکلتے، مقامی لوگوں کے ساتھ جھگڑے ہوتے۔ فوجیوں میں کئی امراض پھیلنے لگے۔ اسی لئے 1879ء میں انارکلی میں لاک ہاسپٹل قائم کیا۔ انگریز حکومت نے ریلوے کمپنی کے لیے شروع ہی سے الگ کلب، انسٹی ٹیوٹ،ہسپتال، تعلیمی ادارے اور رہائش گاہیں تعمیر کر دیں۔ 1913ء میں ایک بڑا انسٹی ٹیوٹ بنایا گیا جسے ابتدا میں ’’نیو تھیٹر‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعد میں نارتھ ویسٹرن ریلوے ایجنٹ ہنری پی برٹ کے نام سے برٹ انسٹی ٹیوٹ ہو گیا۔ مقامی آبادی اسے ناچ گھر کہتی ہے۔ مغلپورہ کی ریلوے آبادی کے لئے گریفن انسٹی ٹیوٹ بنایا گیا۔ ساتھ کھیلوں کے لیے پندرہ ایکڑ کا میدان تعمیر کیا گیا۔ گالف کلب کی کہانی ہے اور بھی بہت سی عمارتوں، محکموں اور افراد کا ذکر اس ناولٹ میں شامل ہے۔ جو لوگ سرکای کوارٹروں کے ماحول کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ مالی، دھوبی، خانساماں، چوکیدار اور صفائی کرنے والے ملازمین کے خاندان کس طرح رہتے ہیں۔ ناولٹ کا ایک ایسا ہی ملازم کردار ایک دن کھوٹھی نمبر8 کے مقیم کو بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن گیا ہے۔ اس لیے وہ کوٹھی سے ملحق کوارٹر خالی کر کے بیٹے کی کوٹھی میں منتقل ہو رہے ہیں۔ مصنف کا مشاہدہ متاثر کن ہے۔ وہ بظاہر ملازمین سے ضرورت کے مطابق بات کرتا ہے لیکن ملازمین کی نفسیات ان کی خوبیوں اور عادات کی جھلک کرداروں کے ذریعے بڑی سہولت کے ساتھ دکھا دی ہے۔ افسران کے لیے مفید رہنے کی تگ و دو میں مالی ڈرائیونگ اور ککنگ بھی سیکھتا ہے۔ لوگ سرکاری کام کے ساتھ کوئی دوسرا کام کرتے ہیں تا کہ اپنے خاندانوں کے لیے بہتر زندگی کا انتظام کر سکیں۔ ملازمین کی باہمی نوک جھونک اور جھگڑوں کی وجوہات دلچسپ ہیں۔ ایک انگریز افسر کی کہانی ہے، جو میوگارڈن کی اسی ایکڑوں پر مشتمل رہائش گاہوں میں سے ایک میں رہتا تھا لیکن وہ یہاں خوش نہیں تھا۔ کوئنز روڈ پر اس نے ایک شاندار کوٹھی تعمیر کی، من پسند درخت، بوٹے، پھول لگائے لیکن چند سال بعد ہی ملک آزاد ہو گیا اور اسے جانا پڑا۔ اس نے یہ بنگلہ ایک ہندو دینا لال کو فروخت کر دیا جو ریلوے کو زمین خریداری میں مدد دیا کرتا تھا۔ اس دوران کوٹھی نمبر8 کے کمروں، سرسبز گھاس اور ڈیڑھ سو فٹ بلند ارجن کے درخت کے گرد کئی واقعات ناولٹ میں تجسس کا عنصر برقرار رکھنے میں معاونت کرتے ہیں۔ ناولٹ کا مرکزی کردار ریلوے افسر چودھری جب اس کوٹھی میں آیا تو اس کے بیٹے سکول جاتے تھے۔ پھر بڑا بیٹا ڈاکٹر بنا، چھوٹے بھی عملی میدان میں آئے۔ ایک ملازم باپ جو ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک گریڈ سے اگلے گریڈ میں جاتا رہا اس کی گھریلو زندگی خود ایک کہانی ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ریلوے کے مختلف وزیروں کے واقعات، محکمے کی بربادی کی وجوہات، بزنس ٹرین کے قصے، چینی انجنوں کی خریداری، سیاسی بھرتیوں اور میٹنگوں کے متعلق بات کرتے وقت حمید رازی ،چودھری نہیں درد دل رکھنے والے افسر حمید رازی بن گئے۔ ایک روز آتا ہے جب وہ ریٹائر ہو جاتے ہیں، سال بعد انہیں کھوٹھی نمبر8 خالی کرنا پڑتی ہے۔ ان کے سامنے ایک دقت آ کھڑی ہوتی ہے۔ اس گھر کی ڈیڑھ سو سال سے پرانی تاریخ،یہاں رہنے والے انگریز افسروں کی کہانیاں اور درودیوار سے مانوس چودھری کے لئے یہ ایسا ہی تجربہ بن جاتا ہے جیسے مسٹر سمتھ کوئنز روڈ والا بنگلہ چھوڑ کر انگلستان جاتے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔ ناولٹ آسان اور عام فہم پنجابی میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی مرکزی زنانہ کردار نہیں۔ جو کردار ہیں وہ چودھری کی اہلیہ یا پھر گھر کام کرنے والی ملازمائوں کے ہیں۔یہ کردار کوئی نمایاں نہیں۔ کردار کی بجائے کوٹھی نمبر8 کو مرکزی خیال بنا کر ناولٹ لکھنا ایک مشکل امر تھا جسے مہارت کے ساتھ انجام تک پہنچایا گیا۔ حمید رازی کا یہ ناولٹ سانجھ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ میں نے رازی صاحب سے اجازت لی ہے کہ ناولٹ کی کچھ معلومات کی بنیاد پر لاہور سے متعلق کالم لکھ سکوں گا۔
QOSHE - ’’کوٹھی نمبر 8‘‘ - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

’’کوٹھی نمبر 8‘‘

8 0
30.11.2023




گزشتہ ہفتے حمید رازی صاحب نے اپنا پنجابی ناولٹ ’’کوٹھی نمبر 8‘‘ بھیجا ۔ پہلے سے خواندگی کی منتظر کئی کتابیں میز پر دھری تھیں۔ حمید رازی حالیہ برسوں میں ریلوے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ لاہور میں فرائض کی انجام دہی کے لیے کئی برس رہے۔ اسی عرصے میں ریلوے افسران کی رہائشی آبادی میوگارڈن میں انہیں کوٹھی نمبر 8الاٹ ہوئی۔ کہانی تو کوٹھی نمبر 8کی ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سی دوسری داستانیں چلتی ہیں۔ ہر داستان اپنی نوع میں مکمل لیکن سارے دریا آخر کار ایک بڑے دریا میں جا ملتے ہیں۔ میرے لئے یہ ناولٹ جلد پڑھنے کی متعدد وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اس میں لاہور کی تاریخ کا ایک ایسا گوشہ شامل ہے جس کی بابت میری معلومات کم تھیں۔ انہوں نے جس طرح ریلوے کے محکمے، انتظامات اور آبادیوں کا نقشہ کھینچا ہے اس سے یہ کہنا بجا ہو گا کہ انگریز نے ناردرن ریلوے کے دفاتر اور عمارات کے نام پر قدیم لاہور کے قریب ایک نیا شہرا ٓباد کر دیا تھا۔ ہندوستان نے اس سے قبل گارڈن سٹی کا تصور تک نہیں کیا تھا۔ ریلوے میں انگریز، اینگلو انڈین اور دیسی باشندوں پر مشتمل تین طبقات تھے۔ اینگلو انڈین کے باپ انگریز تھے لیکن رنگت کالی ہونے کی وجہ سے انگریز انہیں ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس ناولٹ کے تاریخی معلومات والے حصے سے معلوم ہوا کہ انار کلی اور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play