انیس سو ساٹھ کے لگ بھگ پاکستان میں 750سینما گھر تھے۔ قابل ذکر بات یہ کہ 400سینما صرف پنجاب میں تھے۔ لاہور میں 82سینما فلمیں دکھا رہے تھے‘ لاہور کی فلمی اہمیت کے باعث ہی پاکستانی فلمی صنعت کو لالی ووڈ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں اردو کی کلاسک فلمیں بنائی گئیں لیکن ہمیشہ سے پنجابی سینما زیادہ مقبول رہا۔ پنجابی فلمیں ملنگی‘ ہیر رانجھا ‘ نوکر ووہٹی دا‘ خان چاچا بہت مقبول ہوئیں لیکن پھر گجر‘ جٹ اور بدمعاشوں کے ناموں والی فلمیں بننے لگیں ۔ ایک طرف اچھا شوکر والا فلمی صنعت کی طرف آیا اور پھر ریاض گجر اور دوسرے بڈھا گجر‘ مہر بادشاہ اور بٹ بادشاہ جیسے نام معروف ہونے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے فلم پروڈیوسر بہت طاقتور ہو چکے تھے‘ سنسر بورڈ نے جب ان کی فلموں کے نام پاس کرنے سے انکار کیا تو گجر برادری کے آٹھ فلم سازوں نے فلمی صنعت سے پیسہ نکالنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد فلمی صنعت کا زوال کوئی نہ روک سکا۔ پاکستان میں بدمعاشوں اور دشمن داروں پر بننے والی فلموں میں سب سے زیادہ کام سلطان راہی اور شان نے بطور ہیرو کیا ہے۔ اسلم پرویز‘ الیاس کشمیری‘ ادیب‘ مصطفی قریشی ‘ اسد بخاری‘ ہمایوں قریشی‘ افضال احمد ولن کا کردار نبھاتے رہے۔جوئے کے دھندے سے وابستہ شاہیا پہلوان اور اس کا بیٹا فلم والوں کا موضوع بنے۔بادشاہی مسجد کے قریب ایک چھوٹی مسجد کے امام کا بیٹا ملا مظفر مشہور ہوا ۔اس پر بھی فلم بنی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن میں عبدالرشید ارشد کا ایک مضمون مئی 2004ء میں شائع ہوا۔ اس میں بتایا گیا کہ 1963ء میں جماعت اسلامی نے لاہور میں اجلاس کے لئے انتظامیہ سے پنڈال اور لائوڈ سپیکر کی اجازت طلب کی۔ انتظامیہ پہلے ٹالتی رہی پھر بیرون موچی دروازہ لائوڈ سپیکر کے بنا جلسے کی اجازت دیدی۔ گورنر ملک امیر محمد خان نے سکندر نامی ایس پی کے ذمہ لگایا کہ جلسہ ہر قیمت پر روکنا ہے۔ ایس پی نے بیڈن روڈ کے بستہ ب بدمعاش اچھا شوکر والا کی ڈیوٹی لگا دی۔کسی بھیدی نے آغا شورش کاشمیری سے معاملہ کہہ دیا۔ خبر مولانا مودودی تک پہنچی اور انہوں نے جلسہ میں شرکت نہ کرنے کی تجویز رد کر دی۔ جلسہ کے روز تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بدمعاش خیموں کی طنابیں کاٹنے کو تیار بیٹھے بڑے بدمعاش کی جانب سے فائر کی آواز کے منتظر تھے۔ مولانا مودودی کی تقریر شروع ہی ہوئی تھی کہ بڑے بدمعاش نے فائر کر دیا۔ شامیانوں کی رسیاں کٹ گئیں۔ بھگدڑ مچ گئی۔ گولیاں چلیں اور ایک کارکن اللہ بخش کی جان گئی۔ مولانا اور ان کے ساتھی ڈٹے رہے۔ اس کارروائی کے کچھ عرصے بعد اسی ایس پی کے کہنے پر اچھا شوکر والا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ دشمن دار اور بدمعاش مخالف سے بدلہ لینے کے لئے بسا اوقات بہت منفرد طریقہ اپناتے۔کہا جاتا ہے کہ لاہور میں پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلی دشمنی دو دوستوں نادر اور داود کے مابین ہوئی۔1965 میں ہنجروال کے ملک اشرف اور پیر منا کے درمیان دشمنی شروع ہوئی۔ملک اشرف گروپ نے بارات کا روپ دھار کر حملہ کیا۔اس واقعہ میں درجنوں افراد مارے گئے۔اسے سہریاں والی دشمنی کہتی ہیں۔نواز شریف اور شہباز شریف نے ان دونوں میں صلح کرائی۔اسی طرح کا طریقہ کالو شاہ پوریا نے اختیار کیا اور دولہا بن کر مخالفین پر حملہ کر دیا۔اس واقعہ میں نو افراد مارے گئے۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ایک فلمساز سردار محبت علی ڈوگر تھے ۔انہوں نے ہدایت کار یونس ملک کو لے کر کئی ہٹ فلمیں بنائیں ،شیر خان ان ہی کی فلم تھی۔فلمی ماہرین کہتے ہیں کہ قدیم وقتوں میں جس طرح ڈاکو اور طوائف کا ساتھ رہا ہے اسی طرح جدید دور میں دنیا بھر میں یہی رجحان مقبول ہوا کہ بلیک منی اور شوبز انڈسٹری میں دوستی ہے۔انڈر ورلڈ ڈان بڑی بڑی ہیروئینوں کو طلب کر لیتے ہیں۔ہالی ووڈ اور بالی ووڈ بھی اس چلن میں گرفتار ہیں۔لاہور میں ریت نکالنا راوی کے قریب آباد طاقتور گروپوں کا کاروبار ہے۔ریت نکالنے پر بہت سی دشمنیاں شروع ہوئیں، کئی اب تک جا ری ہیں۔پہلے بستہ الف اور بستہ ب کے بدمعاش تھے اب ایسے لوگوں کو شیڈول بنا کر شامل کر لیا جاتا ہے۔اس وقت لاہور پولیس کے پاس دو سو اڑتیس انتہائی خطرناک افراد کی فہرست بتائی جاتی ہے ۔ایک فرق جو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شاہیا ، قوما قصائی اور بہت سے دوسرے لوگ جرائم سے دشمن داری کی طرف آئے ۔ خوف پھیلانا ان کی کاروباری ضرورت تھی۔ پھر ظفر ی نت ، عاطف چودھری ،عابد چودھری ، ناجی بٹ ، طاہر پرنس جیسے لوگ ہیں جن کا پس منظر طلبا سیاست یا طاقتور کی سرپرستی تھا۔ارشد امین ایم ایس ایف کو طلبا تنظیم کی بجائے جرائم پسند نوجوانوں کا گروپ بنا دیا۔ایسا ایک گروپ بلیک ایگل اور پی ایس ایف کی صورت میں بھی بنا لیکن ایم ایس ایف سے کمزور رہا۔ لاہور میں انگریز کے آخری زمانے سے پہلے بدمعاشی دکھائی نہیں دیتی،انگریز دور میں بدمعاشوں اور چندجرائم پیشہ عناصر نے مزاحمت کی آڑ لے لی لیکن آزادی کے بعد یہ گروہ بے قابو نظر آئے۔آج کل بدمعاشی ٹک ٹاکری کا حصہ بن گئی ہے۔ میری نظر سے کچے کے ڈاکووں سے لے کر لاہور کے بدمعاشوں تک کی ٹک ٹاک ویڈیو گزری ہیں۔نئی ٹیکنالوجی نے بدمعاشی کو ایک بار پھر گلیمرائز کیا ہے۔بظاہر لاہور پر امن ہے لیکن سیاسی لیڈروں نے پولیس اور عدالتوں کے متوازی اب بھی اپنا نظام انصاف قائم کر رکھا ہے۔بہت سے نامی گرامی بدمعاش اور دشمن دار افراد بڑے رئیل سٹیٹ برانڈز کے تنازعات نمٹانے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھی کرائم رپورٹر میاں روف سے کچھ بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ سیاست دان اور پولیس مل کر بدمعاش بناتے ہیں۔ لاہور اس وقت درجنوں شوٹروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اشتہاری اور ڈکیٹ ہمیشہ عورت کی مخبری پر پکڑے جاتے ہیں۔بدمعاشی کی کہانیاں بہت ہیں لیکن سبق ایک ہی ہے کہ لاہور میں فقیروں اور درویشوں کے آستانے صدیوں سے آباد ہیں لیکن کسی بدمعاش کی قبر پر روشنی نہیں ہوتی۔( ختم شد)
QOSHE - لاہور کی دشمن داریاں……(5) - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

لاہور کی دشمن داریاں……(5)

13 0
28.02.2024




انیس سو ساٹھ کے لگ بھگ پاکستان میں 750سینما گھر تھے۔ قابل ذکر بات یہ کہ 400سینما صرف پنجاب میں تھے۔ لاہور میں 82سینما فلمیں دکھا رہے تھے‘ لاہور کی فلمی اہمیت کے باعث ہی پاکستانی فلمی صنعت کو لالی ووڈ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں اردو کی کلاسک فلمیں بنائی گئیں لیکن ہمیشہ سے پنجابی سینما زیادہ مقبول رہا۔ پنجابی فلمیں ملنگی‘ ہیر رانجھا ‘ نوکر ووہٹی دا‘ خان چاچا بہت مقبول ہوئیں لیکن پھر گجر‘ جٹ اور بدمعاشوں کے ناموں والی فلمیں بننے لگیں ۔ ایک طرف اچھا شوکر والا فلمی صنعت کی طرف آیا اور پھر ریاض گجر اور دوسرے بڈھا گجر‘ مہر بادشاہ اور بٹ بادشاہ جیسے نام معروف ہونے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے فلم پروڈیوسر بہت طاقتور ہو چکے تھے‘ سنسر بورڈ نے جب ان کی فلموں کے نام پاس کرنے سے انکار کیا تو گجر برادری کے آٹھ فلم سازوں نے فلمی صنعت سے پیسہ نکالنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد فلمی صنعت کا زوال کوئی نہ روک سکا۔ پاکستان میں بدمعاشوں اور دشمن داروں پر بننے والی فلموں میں سب سے زیادہ کام سلطان راہی اور شان نے بطور ہیرو کیا ہے۔ اسلم پرویز‘ الیاس کشمیری‘ ادیب‘ مصطفی قریشی ‘ اسد بخاری‘ ہمایوں قریشی‘ افضال احمد ولن کا کردار نبھاتے رہے۔جوئے کے دھندے سے وابستہ شاہیا پہلوان اور اس کا بیٹا فلم والوں کا موضوع بنے۔بادشاہی مسجد کے قریب ایک چھوٹی مسجد کے امام کا بیٹا ملا مظفر مشہور ہوا ۔اس پر بھی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play