اس نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا؟ دکاندار نے کہا کہ آپ لاہور کے نہیں لگتے، یہ جگا بادشاہ تھا، لاہور کا اصل بادشاہ۔ سارے لاہور پر اس کا حکم چلتا ہے۔اس دن سے جگا کی گرفتاری کی کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔جگا گجر اور ریاض گجر ڈی آئی جی چودھری محمد الطاف کی گولی سے ہلاک ہوئے تھے ۔ بعد میں لوگ انھیں الطاف جگا کہنے لگے تھے۔ چودھری محمد الطاف نے میاں نواز شریف کے دور میں احمد مختار اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں میاں محمد شریف کو بھی ہتھکڑی لگائی تھی جس کی وجہ سے وہ دونوں حکومتوں میں معتوب رہے۔ ایک دوسری رپورٹ وائس آف امریکہ کی ہے جس میں ہمارے دو سینئر کرائم رپورٹروں کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں کہ پولیس نے خاندانی دشمن داریوں اور گینگ وار میں بہت پیسہ بنایا۔ کئی پولیس افسران ان گینگسٹرز کو تحفظ دیتے رہے ہیں۔بعض سابق پولیس افسران کہتے ہیں کہ ان معاملات میں پولیس کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اْن کے بقول پولیس ایسے عناصر کے خلاف کارروائی بھی کرتی رہی ہے لیکن یہ لوگ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر طاقت ور ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ زمینوں پر قبضے اور سود پر کاروبار میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم قانون کو چکمہ دے کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ ایک اعلیٰ سابق پولیس افسر کہتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے گورنر نے غنڈہ آرڈیننس کا اجرا کیا تھا جب کہ سابق گورنر اور وزیرِ اعلٰی پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کے دور میں بھی انہیں نکیل ڈالنے کی کوششیں ہو چکی تھیں۔ پنجاب میں 1959ء میں غنڈہ ایکٹ منظور کیا گیا۔ اسے ’’دی پنجاب کنٹرول آف غنڈہ آرڈیننس‘1959ء ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں عنڈہ عناصر کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے الگ ٹربیونلز بنانے کی ہدایت کی گئی۔ ٹربیونل کو کسی کے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار دیا گیا‘1898ء کے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت ان ٹربیونلز کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پاور دی گئی۔ ٹربیونل کے سامنے کارروائی کو جوڈیشل پروسیڈنگز قرار دیا گیا۔ اس ایکٹ میں غنڈہ کی تعریف یوں کی گئی کہ: i۔ جو شراب اور جوئے کا کاروبار کرتا ہو۔ منشیات فروشی میں ملوث ہو یا ایسے افراد کا آلہ کار ہو۔ ii۔جو قحبہ خانہ چلاتا ہو‘ کسی جسم فروش کا آلہ کار ہو اور اسی کام سے گزارا کرتا ہو۔ iii۔ جو خیرات کے نام پر لوگوں سے مال ہتھیاتا ہو۔ iv۔ مسلسل شراب پی کر سرعام غل غپاڑ کرتا ہو۔ v۔ جو عوامی مقامات پر بذزبانی اور گالم گلوچ کی عادت میں مبتلا ہو۔ vi۔ جو لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہو۔ vii۔ جو سرعام دانستہ طور پر اپنے مخصوص اعضا کی نمائش کرے۔ viii۔ جو اپنی سرگرمیوں سے دہشت پھیلائے۔ ix۔ غنڈہ ایسا شخص ہے جو اپنی روزی روٹی دھوکہ‘ فراڈ‘ بلیک میلنگ‘ رشوت ستانی وغیرہ سے کماتا ہو۔ ایکٹ میں غنڈوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ان سے ضمانتی مچلکے لینے‘ احکامات نہ ماننے پر ایک سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دینے کا کہا گیا۔ غنڈہ ایکٹ نافذ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہوئیں‘ کئی غنڈے اور بدمعاش مارے گئے۔ 1979میں پنجابی کی مشہور فلم ’’غنڈہ ایکٹ‘‘ بنی جس میں آسیہ‘ سلطان راہی اور ادیب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سانپ ، بدمعاش اور فقیر کی زندگی ہمیشہ بھید بھری ہوتی ہے۔یہ اسرار ہی لوگوں کو ان کی طرف مائل کرتا ہے۔فلمی دنیا میں پچاس فیصد سے زیادہ کہانیاں بھی ان تینوں پراسرار موضوعات سے متعلق ہوتی ہیں۔دوران تحقیق مجھے یہ دلچسپ معلومات ملیں کہ 1931 میں مارس لیبلانگ کی ایک کتاب : کنفیکشنز آف آرسین لوپن کا اردو ترجمہ شریف بدمعاش کے نام سے شائع ہوا۔یہ کتاب جے ایس سنت سنگھ اینڈ سنز بک سیلر سچدیو بلڈنگ لاہور نے شائع کی۔اس نام کی ایک مشہور فلم بعد میں بنی جس میں یوسف خان نے مرکزی کردار ادا کیا۔دشمن داری کی حد تک رہنے والے لوگ خود کو جرائم سے دور رکھتے ہیں لیکن انہیں اپنے کام کے سلسلے میں اکثر جرائم پیشہ افراد کی ضرورت پڑ جاتی ہے اس لئے وہ آہستہ آہستہ خود بھی اسی دلدل میں جا گرتے ہیں۔لاہور کے دشمن دار خاندانوں نے خود کو جرائم سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن کب تک۔جو بہت محفوظ رہا وہ کم از کم قبضہ گروپ ضرور بن گیا، باقی منشیات فروشی، بھتہ خوری کی جانب آ گئے۔ان کے گرد فلمی لوگوں نے اتنے جلوے بکھیرے کہ ان پہلوانوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔پہلوانوں کی دولت فلم سازی کے لئے استعمال ہونے لگی۔انہوں نے فلم کمپنیاں بنا لیں۔جیسے آج طاقتور پولیس افسر اور سیاست دان جسم فروشوں کی سرپرستی کرتے ہیں اسی طرح کچھ عشرے پہلے اداکارائیں پہلوانوں کی چھتری تلے رہتی تھیں۔اداکارہ انجمن نے میرے سینئر باڈی بلڈر شاہد میو کی خدمات حاصل کیں۔شاہد بعد میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ہمارا ایک اور سینئر تن ساز مسٹر پاکستان بنا ۔روزگار کا انتظام نہیں تھا،قومہ قصائی کے گارڈز میں شامل ہوگیا۔ ستر کے عشرے میں مسٹر ایشیا کے سلور میڈلسٹ نصراللہ ملک نے فلموں میں کام شروع کیا تو میرے استاد محترم چوہدری محمد یونس مسٹر پاکستان نے اپنے دوست کولعن طعن کی۔یہ بھرم اور رکھ رکھاو والے زمانے تھے۔پھر دور بدلا اور فلمی صنعت بدمعاشوں کی دولت اور طاقت کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی۔ ضابطہ یہ ہے کہ بدمعاشوں‘ مجرموں ‘ ذات برادری اور تعصب والے ناموں پر فلمیں بنانے کی اجازت نہیں۔ کتنی ہی فلمیں ہیں جن کے نام بدمعاشوں اور جرائم پیشہ افراد پر رکھے گئے۔ ایک فلم بنی ’’ایبا گجر‘‘ سنسر بورڈ نے ’’گجر‘‘ پر اعتراض کیا۔ نام ’’ایبا‘‘ کیا گیا تو سنسر سرٹیفکیٹ مل گیا۔ اسی طرح ایک فلم بنی ’’بٹ بادشاہ‘‘ اس پر بھی اعتراض ہوا لیکن کسی بڑی حکومتی شخصیت کی سفارش پر اسی طرح سرٹیفکیٹ دیدیا گیا۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن گزرے برسوں میں کہتی رہی ہے کہ سنسر بورڈ رشوت لے کر فلمیں پاس کرتا ہے۔ فلمی دنیا سے وابستہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بدمعاشوں پر بننے والی فلموں نے صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ کوئی دس بارہ سال پہلے جب نصیبو لال کے گائے ہوئے فحش گانوں پر سماجی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا تو کسی نے نصیبو لال سے ایسے گیت گانے کی وجہ پوچھی۔ وہ یہ بتاتے ہوئے دکھی ہو رہی تھی کہ ایک طرف عام لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فلمساز اس سے جبراً فحش گانے گنواتے ہیں‘ انکار کی صورت میں تھپڑ اور جوتے مارتے ہیں۔ (جاری ہے)
QOSHE - لاہور کی دشمن داریاں……(4) - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

لاہور کی دشمن داریاں……(4)

12 0
27.02.2024




اس نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا؟ دکاندار نے کہا کہ آپ لاہور کے نہیں لگتے، یہ جگا بادشاہ تھا، لاہور کا اصل بادشاہ۔ سارے لاہور پر اس کا حکم چلتا ہے۔اس دن سے جگا کی گرفتاری کی کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔جگا گجر اور ریاض گجر ڈی آئی جی چودھری محمد الطاف کی گولی سے ہلاک ہوئے تھے ۔ بعد میں لوگ انھیں الطاف جگا کہنے لگے تھے۔ چودھری محمد الطاف نے میاں نواز شریف کے دور میں احمد مختار اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں میاں محمد شریف کو بھی ہتھکڑی لگائی تھی جس کی وجہ سے وہ دونوں حکومتوں میں معتوب رہے۔ ایک دوسری رپورٹ وائس آف امریکہ کی ہے جس میں ہمارے دو سینئر کرائم رپورٹروں کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں کہ پولیس نے خاندانی دشمن داریوں اور گینگ وار میں بہت پیسہ بنایا۔ کئی پولیس افسران ان گینگسٹرز کو تحفظ دیتے رہے ہیں۔بعض سابق پولیس افسران کہتے ہیں کہ ان معاملات میں پولیس کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اْن کے بقول پولیس ایسے عناصر کے خلاف کارروائی بھی کرتی رہی ہے لیکن یہ لوگ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر طاقت ور ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ زمینوں پر قبضے اور سود پر کاروبار میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم قانون کو چکمہ دے کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ ایک اعلیٰ سابق پولیس افسر کہتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے گورنر نے غنڈہ آرڈیننس کا اجرا کیا تھا جب کہ سابق گورنر اور وزیرِ اعلٰی پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کے دور میں بھی انہیں نکیل ڈالنے کی کوششیں ہو چکی تھیں۔ پنجاب میں 1959ء میں غنڈہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play