زندگی میں چند بار ہی ایسے ہوتا ہے جب آپ خود کو کسی بہائو کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ اذان بھی ایک آبشار تھی جس کے ٹھنڈے پانیوں میں روح کی تپش سکون پا رہی تھی۔ کسی مہربان نے فیس بک پر ایک دیہاتی بزرگ کی تصویر کے ساتھ یہ اذان پوسٹ کی تھی۔ میری طرح ہمارے محترم دوست ڈاکٹر معین نظامی تک یہ حیات بخش اذان پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے ایک شذرہ لف کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب لفظوں میں عقیدت اور علم ایک ساتھ گوندھ دیتے ہیں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کچھ اس بابت گذارش کروں، بتائوں کہ یہ اذان باقی اذانوں سے الگ کیوں ہے۔ بتائوں کہ سنتے ہوئے میرے لوں کنڈے کھڑے کیوں ہو گئے۔ لکھنے بیٹھا تو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی پتہ ہی نہ چلا۔ مجھے قصور، راولپنڈی،فیصل آباد،سرگودھا، لیاقت پور، کوہاٹ، درہ آدم خیل کچھ دیہات کی اذانیں سننے کا موقع ملا ہے۔ اس ضمن میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقوں سے کسی حد تک شناسا ہوں، جہاں مسجد کی خدمت، دیکھ بھال اور اذان جیسے معاملات مقامی بزرگوں کے پاس ہوتے ہیں یا وہ خود یہ ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں۔ ان کی اذانوں میں اللہ اکبر کہنے کے بعد کئی بار ایک لمبا وقفہ آ جاتا ہے، شاید سانس ہموار کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ عربی الفاظ کی تجوید پر پنجاب کا مقامی لہجہ اور ادائیگی غالب آ جاتی ہے۔ کئی بار وہ اذان کے دوران کھانسنے لگتے ہیں۔ یقین جانیں یہ سن کر بھی اذان سے محبت برقرار رہتی ہے۔ ان بزرگوں کی آس اور تعلق ان کی مصروف اولاد اور دنیا کے بکھیڑوں سے ہٹ کررب سے جڑ جاتا ہے۔ جو اس تعلق کو پہچانتا ہے اسے یوں لگتا ہے گویا رب کی بڑائی بیان کرنے کے لیے کسانوں اور دیہی ہنر مندوں نے اپنی الگ طرز ایجاد کر لی ہے جو شاہی موذنوں سے جدا اور جانے پہچانے رنگ میں سنائی دیتی ہے۔ اذان کا یہ وہ رنگ ہے جو ہماری گھٹی میں ہے۔ بھارت کے شہر مراد آباد کے ایک صاحب ہیں، قاری شفیق الرحمن۔ وہ دنیا کے مختلف لہجوں میں دی جانے والی اذانیں سکھاتے ہیں۔ وہ اذان مکہ، اذان ہندوستان، اذان پاکستان، اذان مصر، اذان انڈونیشیا میں ادائیگی کا فرق اپنی ویڈیوز میں سمجھاتے ہیں۔ قاری شفیق الرحمان اور کچھ دوسرے ماہرین بتاتے ہیں کہ اذان کے لیے ضروری ہے کہ موذن کی آواز اچھی ہو۔ اذان کے شروع والے حصے میں لہجہ دھیمہ رکھا جاتا ہے۔ دوسری سطر میں آواز اٹھانا ہوتی ہے۔ تجوید کا خیال رکھنا ہوتا ہے، غنہ کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ اذان میں جب بھی اللہ اکبر پکارتے ہیں، ہر بار الگ ادائیگی ہوتی ہے۔ آخری بار جب لاالہ الااللہ کہتے ہیں تو ’’لا‘‘ پر آواز کو گھمایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تمام مقامی زبانوں اور بولیوں کے اثرات مقامی مساجد میں دی جانے والے اذانوں پر موجود ہیں۔ کئی دوست یورپ امریکہ اور کینیڈا میں جا بسے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کو فرمائش کر کے مقامی مسجد کی اذان کی ریکارڈنگ منگواتے ہیں۔ دوست بتاتے ہیں کہ وہ یہ اذانیں سن کر روتے ہیں۔ مقامی لہجوں والی اذانیں سن کر ان کا احساس بے گھری بڑھ جاتا ہے۔ وہ یہ اذانیں ہی نہیں سنتے ایک پورا ماحول، اس ماحول کا رہن سہن، مال مویشی، رشتے اور روحانی تعلق انہیں یاد آ جاتا ہے۔ فیس بک پر جس اذان کی بابت ہم سب جستجو میں ہیں وہ کشمیر اور اس کے نواحی علاقوں کے لہجے میں ہے۔ موسیقی کے ایک ماہر دوست نے نشان دہی کی ہے کہ یہ اذان راگ پہاڑی کا نمونہ ہے۔موازنہ نہ سمجھا جائے صرف پہچان کے خیال سے لکھ رہا ہوں کہ اسی راگ میں استاد غلام علی کی گائی پنجابی غزل:نی چنبے دیئے بند کلئیے تینوں جیہڑے والے رب نے بنایا‘‘ گائی ہے۔ اس راگ میں لتا منگیشکر نے ’’آجارے، آجارے اور میرے دل بر آجا دل کی پیاس بھجا جا رہے‘‘ گایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے میاں محمد بخش کا کلام اسی راگ میں پڑھا جاتا ہے۔ ہم جیسے دھرتی سے جڑے لوگ پانی کا چھڑکائو ہونے کے بعد کچی مٹی سے نکلتی خوشبو پر اشکبار ہو جاتے ہیں۔ ہم شاہ حسین اور میاں محمد بخش کا کلام سنتے ہیں تو دل رقت سے بھر جاتا ہے۔ ہمارے دیسی راگوں میں راگ پہاڑی خاصا مقبول ہے۔ یہ راگ ہمالیہ کے پہاڑوں اور کشمیر کی لوک موسیقی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک سادہ راگ ہے جو مخصوص دھن سے مشابہ ہے۔ راگ پہاڑی سنتے ہوئے سرسبز پہاڑیوں اور برف سے ڈھکی چوٹیوں کا خیال دماغ میںابھرتا ہے۔ راگ پہاڑی مختلف نوع کے مزاج کے لیے یکساں طور پر موزوں ہے۔ یہ دن رات کے کسی پہر بھی سنیں، طبیعت اس کی اسیر ہو جاتی ہے۔ یہ راگ بھیروی کی طرح بھاری بھرکم کلاسیکل شکل میں نہیں بلکہ سادہ اور ہموار ہے۔ راگ پہاڑی لوک دھنوں کو سمونے میں کامیاب ہے۔ اسے سنتے ہوئے ایک ابدی سکون بہتا محسوس ہوتا ہے۔ اس راگ کی گائیکی کے لیے اوپر اور نیچے کے نوٹس عام طور پر اصولوں میں جکڑے نہیں اس لیے گلیوں میں صدا لگانے والے ، خانقاہ سے وابستہ درویش اور دور دراز دیہات کی مسجد کے موذن اس میں آسانی سے ردوبدل کر لیتے ہیں۔ خواجہ خورشید انور کے بقول نچلے اور دھیمے انداز میں یہ راگ بہت جچتا ہے۔ عربی لہجے کی اذان اور پنجابی کے پہاڑی سر والی اذان میں یہی فرق ہے۔ یہ اذان لوری جیسی ہے۔ میں نے جامع مسجد مالورا کشمیر کے بھاٹ عاکف کی اذانی سنی ہے، فرصت ملے تو یوٹیوب پر سنیں۔پاکستان کے نوجوان قاری عطاالمنان کئی عرب لہجوں میں اذان دیتے ہیں۔ان عرب لہجوں میں ہیبت اور رعب ہے، پنجابی ،سندھی ،کشمیری ،پشتو و بلوچی لہجوں میں اذان کے الفاظ بھرے جاتے ہیں تو لگتا ہے ہمارا رب ہماری کچی سی مسجد میں ہمیں میار سے بلا رہا ہے،وہی رب جو بلال ؓ کے حبشی لہجے اور الفاظ کی نادرست ادائیگی کو محبت کی سند بنا دیتا ہے۔
QOSHE - کچی مسجدیں اوردیہاتی موذن - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کچی مسجدیں اوردیہاتی موذن

10 0
14.04.2024




زندگی میں چند بار ہی ایسے ہوتا ہے جب آپ خود کو کسی بہائو کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ اذان بھی ایک آبشار تھی جس کے ٹھنڈے پانیوں میں روح کی تپش سکون پا رہی تھی۔ کسی مہربان نے فیس بک پر ایک دیہاتی بزرگ کی تصویر کے ساتھ یہ اذان پوسٹ کی تھی۔ میری طرح ہمارے محترم دوست ڈاکٹر معین نظامی تک یہ حیات بخش اذان پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے ایک شذرہ لف کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب لفظوں میں عقیدت اور علم ایک ساتھ گوندھ دیتے ہیں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کچھ اس بابت گذارش کروں، بتائوں کہ یہ اذان باقی اذانوں سے الگ کیوں ہے۔ بتائوں کہ سنتے ہوئے میرے لوں کنڈے کھڑے کیوں ہو گئے۔ لکھنے بیٹھا تو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی پتہ ہی نہ چلا۔ مجھے قصور، راولپنڈی،فیصل آباد،سرگودھا، لیاقت پور، کوہاٹ، درہ آدم خیل کچھ دیہات کی اذانیں سننے کا موقع ملا ہے۔ اس ضمن میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقوں سے کسی حد تک شناسا ہوں، جہاں مسجد کی خدمت، دیکھ بھال اور اذان جیسے معاملات مقامی بزرگوں کے پاس ہوتے ہیں یا وہ خود یہ ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں۔ ان کی اذانوں میں اللہ اکبر کہنے کے بعد کئی بار ایک لمبا وقفہ آ جاتا ہے، شاید سانس ہموار کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ عربی الفاظ کی تجوید پر پنجاب کا مقامی لہجہ اور ادائیگی غالب آ جاتی ہے۔ کئی بار وہ اذان کے دوران کھانسنے لگتے ہیں۔........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play