ناول کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں ہوتالیکن انکی آبیاری ضرور کرتاہے۔ شفقت نغمی کا پہلا ناول سات جنم مارکیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستانی ادب میں سرکاری افسروں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی نسبت زیادہ بڑا حصہ ڈالا ہے ۔ شاعری تو افسروں کے علاوہ کلرک بادشا ہ نے بھی کی ہے لیکن نثر میں طبع آزمائی صرف افسروں کے حصے میںآئی ہے۔ علیؑ فرماتے ہیں ’’بولو کہ پہچانے جائو ‘‘ تقریر اور تحریردونوں بولنے کے زمرے میںآتے ہیں ا سلئے اپنی پہچان کراجاتے ہیں ۔غالباً اسی لئے ایک موقعے پر مصطفیٰ زیدی نے کہا تھا ’’ میں افسروں میںشاعر اور شاعروں میں افسر بن جاتا ہوں‘‘۔ شفقت نغمی نے اس قحط زدہ اور خشک سالی کا شکار زمین پر تازہ تازہ ہل چلا کر مایوسیوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں ہلچل مچادی ہے۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے ۔ شفقت نغمی ایک ملنسار شخصیت کانام ہے جو کسی بھی قسم کی شخصی قبضیت کا شکار نہیں۔ ہم نے سات جنم کو اُس کی پرکشش طبعیت کے انہی پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ میں نے جناب مختار مسعود کے ساتھ سرکاری ملازمت کے ابتدائی دنوں میں کام کیا ہے۔ میں آج بھی اُن کے لئے دعا گو رہتاہوں لیکن یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ’’آواز دوست ‘‘ پڑھنے کے بعد جو تاثر ذہن میں ابھرتاہے وہ جناب مختار مسعود کے ساتھ پہلی ملاقات میںزائل ہوجاتاتھا ۔ گفتار اور کردار کا یہ تضاد بڑے بڑے نامور لکھاریوں میںپہلے بھی پایا جاتاتھا اور اب بھی پایا جاتاہے۔ شفقت نغمی اس تضاد سے مبرّا لگتاہے۔ علامہ فرماتے ہیں۔ ؎ اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا دوسری اہم بات یہ ہے کہ دینی علوم سے شغف اور دلچسپی رکھنے کے باوجود دیگر بہت سارے لکھاری افسروں کی طرح اُس نے ریٹائرمنٹ کے بعد ولی اللہ بننے کی کوشش نہیں کی ۔ یعنی دین کو دنیا کے لئے سمجھنے کی بجائے دنیا کو دین کیلئے سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے ایک مرتبہ پھر وہ ستائش کا حقدار ٹھہرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ وہ تجسس کے ندی نالوں بلکہ دریائوں تک کو بچ بچا کر پار کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ چوتھے خلیفہ فرماتے ہیں ’’عزت دولت اور شہرت آدمی کو بدلتی نہیںبے نقاب کردیتی ہے‘‘ پاکستان کی مضحکہ خیز حد تک بدنصیب قوم کے جن مسائل کی ’سات جنم‘ میں استعاراتی چابکدستی کے ساتھ پہلو بچا بچا کر سر کو اُونچا رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے اُس کی منافقت اور بزدلی نہیں بلکہ جرات اور بے باکی بے نقاب ہوتی ہے۔ اُس کے آبائی وطن بہبودی کی ناول میں بیان کردہ کہانی اور کہانی کے کرداروں کی اصل اپنے تمام پیچ وخم اور اتار چڑھائو کے ساتھ درحقیقت مملکت خداد اد پاکستاان کی دلخراش اور عبرتناک کہانی ہے جوا بھی جاری ہے۔ایک مرتبہ جناب جسٹس محمد رستم کیانی مرحوم نے سول سروسز اکیڈمی میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر میں کہا تھا ۔ "Gentlemen No doubt you are the cream of the society but let me tell you with full confidence that you are the cream of a very dirty society." اس کے بعد کے واقعات نے اُن کی بات کو حرف بہ حرف صحیح ثابت کیا جس کا برملا اظہار ’’سات جنم ‘‘ میں کہیں کہیں نظر آتاہے۔ تبھی تو فرمایا گیا ہے ’’ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا ‘‘ ۔ ہم دوسروں کو اپنی دو آنکھوں کے ساتھ ٹھیک ٹھیک نشانے پر دیکھتے ہیں لیکن ان ہزاروں آنکھوں کو خاطر میں نہیں لاتے جن کے احاطہ بصارت میںہم دن رات رہتے ہیں۔اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں وہ سمجھیں جو ہم نہیں ہیں اور وہ نہ سمجھیں جو ہم ہیں۔ ہماری ان باتوں پر دنیا ہنستی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا ہم سے جلتی ہے ۔ہم مزید حماقتوں والے شفیق الرحمن کے اس شوق کا شکار ہیں کہ ’’ آئو ہم دونوں ملکر میرے بارے میںباتیں کریں‘‘ خدا ہمار ا حامی و ناصر ہو کہ یہ وقت دعا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو کھا جانے والے تضادات کی جیتی جاگتی اجتماعی شکل ہیں۔ لہک لہک کر فساد پھیلانے کے بعد جب امام جماعت صفیں درست کرنے اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی ہدایت جاری کرتاہے تو کوئی نمازی بھی شرمندہ ہونے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے کو جب بتایا جاتاہے کہ کافر ہمیں اسلئے گندہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی پشت کی غلاظت اپنے ہاتھوں سے دھوتے ہیں تو یہ بات اسکی سمجھ میں اسلئے نہیں آتی کیونکہ وہ ناتو غیروں کی ظاہر ی صفائی سے واقف ہوتاہے اور ناہی مسلمان کی باطنی طہارت سے آگاہ ہوتاہے۔ سات جنم کا محمد خان صرف سیاست اور امور ِمملکت میں ہی پتلی تماشا بننے والا کردار نہیں ہے بلکہ مصنف کی یاد دہانی کیلئے بتانا ضروری ہے کہ محمد خان پاکستان کی ہر دہلیز ، ہر کٹہرے ،ہر عبادت گاہ ، ہر درسگاہ ، ہرگھر اور خاندان ،قبیلے برادری اور ہر شعبے میں اپنی باری کے انتظار میںتلملاتا رہتاہے ۔ اُسے بتانا ضروری ہے کہ یزید کے دور ظلم وبربریت میں بھی اللہ رسول کا پیغام گھر گھر پھیلانے کے لئے امام زین العابدین ؑ نے اپنی حیرت انگیزاور مسحور کن دعائوں کا سہارا لیکر لوگوں کو راہ راست پر چلائے رکھا جسے بدترین یزیدی جبر بھی نا روک سکا۔ اس لئے جو کچھ گزشتہ سات دہائیوں سے ہوتا چلا آیا ہے لازم نہیں کہ آئندہ بھی ہوتا چلا جائے ۔ شفقت نغمی کے لئے البتہ یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث ہوگی جب اس کے مداح دوست اور احباب اُردو میں لکھے گئے اس کے ناول سات جنم پر تبصر ے انگریزی میں کریں گے ۔ ایک نئے واٹس ایپ گروپ میں اپنا ناول متعارف کرانے اور واہ واہ سمیٹنے کے بعد اُس کا اچانک اعلا ن کہ وہ نوزائدہ واٹس ایپ گروپ ختم کرنا چاہتاہے، ناول سے ملنے والے ایک خوشگوار تاثر سے میل نہیں کھاتا۔ ناول پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیںکہ اس پر آشوب دور میں سات جنم تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوگا۔
QOSHE - سات جنم - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سات جنم

11 0
14.04.2024




ناول کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں ہوتالیکن انکی آبیاری ضرور کرتاہے۔ شفقت نغمی کا پہلا ناول سات جنم مارکیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستانی ادب میں سرکاری افسروں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی نسبت زیادہ بڑا حصہ ڈالا ہے ۔ شاعری تو افسروں کے علاوہ کلرک بادشا ہ نے بھی کی ہے لیکن نثر میں طبع آزمائی صرف افسروں کے حصے میںآئی ہے۔ علیؑ فرماتے ہیں ’’بولو کہ پہچانے جائو ‘‘ تقریر اور تحریردونوں بولنے کے زمرے میںآتے ہیں ا سلئے اپنی پہچان کراجاتے ہیں ۔غالباً اسی لئے ایک موقعے پر مصطفیٰ زیدی نے کہا تھا ’’ میں افسروں میںشاعر اور شاعروں میں افسر بن جاتا ہوں‘‘۔ شفقت نغمی نے اس قحط زدہ اور خشک سالی کا شکار زمین پر تازہ تازہ ہل چلا کر مایوسیوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں ہلچل مچادی ہے۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے ۔ شفقت نغمی ایک ملنسار شخصیت کانام ہے جو کسی بھی قسم کی شخصی قبضیت کا شکار نہیں۔ ہم نے سات جنم کو اُس کی پرکشش طبعیت کے انہی پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ میں نے جناب مختار مسعود کے ساتھ سرکاری ملازمت کے ابتدائی دنوں میں کام کیا ہے۔ میں آج بھی اُن کے لئے دعا گو رہتاہوں لیکن یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ’’آواز دوست ‘‘ پڑھنے کے بعد جو تاثر ذہن میں ابھرتاہے وہ جناب مختار مسعود کے ساتھ پہلی ملاقات میںزائل ہوجاتاتھا ۔ گفتار اور کردار کا یہ تضاد بڑے بڑے نامور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play