پرندہ ہونے میں ایک آسانی ہے کہ جہاں ماحول رہنے کے قابل نہ ہو وہاں سے ہجرت کر جاو۔ایک مسکن کی بات ہے ،وہ کسی پہاڑ کی گھاٹی، ندی کی قربت ، جنگل کے کونے اور ویرانے میں کھڑے کیکر پر بنایا جا سکتا ہے۔مسئلہ ہم انسانوں کے لئے بن گیا ہے کہ جن شہروں کو ہزاروں برس تک عالیشان عمارتوں، باغات ، شاہراوں ، تعلیمی اداروں اور شفا خانوں سے بسایا اب وہاں سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ پانی کی کمی اور بجلی کے تعطل کے ساتھ اب شہر ہر وقت دھوئیں سے بھرے رہتے ہیں۔ستم یہ کہ منتخب نمائندے، ادارے اور حکومتیں ہماری جانب بڑھتی موت کی چاپ سننے سے عاری ہیں۔کچھ صاحب ثروت ارد گرد پیڑ لگواتے ہیں، سرکاری افسروں نے ورنہ شجرکاری کو ایک منافع بخش کام بنا لیا ہے، ہر سال اپنے لوگوں سے من چاہے نرخوں پر پودے خریدتے ہیں، اگلے سال تک دیکھ بھال نہ ہونے سے یہ پودے مرجاتے ہیں ،ایکبار پھر شجرکاری کی ضرورت پر لیکچر ہوتے ہیں ، حکومت فنڈز جاری کرتی ہے اور سال بعد سوکھے پودے نظر آتے ہیں۔ یہ چکر کئی عشروں سے جاری ہے۔پی ٹی آئی حکومت سے پہلے بھی شجر کاری ہوتی تھی، بلین ٹری سونامی میں درخت لگائے گئے اور اب پنجاب حکومت نے جنگلاتی و ماحولیاتی تحفظ کا منصوبہ ترتیب دیا ہے۔جب تک افسر شاہی سے یہکام واپس نہیں لیا جاتا ،امکان ہے ملک میں نیا پودا تناور درخت نہیں بن سکے گا۔ پاکستان نے 2030 تک کاربن کے متوقع اخراج میں 50 فیصد کمی کا عہد کر رکھا ہے۔2022 میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا تھا کہ فوسل فیول کے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے زیادہ سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور منصوبے لگانے چاہئیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ معاشی بحران نے لوگوں کے معاشی حقوق کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، انہیں ضروری وسائل اور مواقع سے محروم کر دیا ہے۔پی ڈی ایم حکومت نے سولر پاور کے گھریلو یونٹس کے لئے مالیاتی مدد کا اعلان کیا تھا۔یقینی طور پر اس سے بجلی کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوگا لیکن جب تک گھروں کا تعمیراتی ماڈل نہیں بدلے گا درجہ حرارت نیچے نہیں آ سکے گا۔یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے جسے اب بجلی کی مشینیں حل نہیں کر سکیں گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے گرمی کی لہروں کو تیز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ بتایا گیا دو سال پہلے سیلاب میں 1100 سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 33 ملین متاثر ہوئے۔ تقریباً 750,000 لوگوں کو محفوظ اور مناسب رہائش، تعلیم یا صحت کے بنیادی ڈھانچے تک رسائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔ابھی تک عالمی اداروں سے ملنے والے فنڈز سے لوگوں کو گھر تعمیر میں مدد نہیں دی جا سکی۔ ناانصافی کا ایک مروجہ طریقہ پھیل رہا ہے ۔ پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود اپنے جغرافیائی حالات کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے غیر متناسب طور پر شدید متاثر ہو رہا ہے۔اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات خطے کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور ماحولیاتی آفات وقت کے ساتھ بڑھیں گی۔ یہ تبدیلیاں متوقع ماحولیاتی عمل اور انسانی سرگرمیوں میں خلل ڈالیں گی۔ کرہ ارضکے مختلف خطوں اور وقت کے مختلف حصوں میں افراتفری اور متواتر تغیرات دیکھے گئے ہیں۔مئی 2022 میں پاکستان اور بھارت میں شدید گرمی کی لہر ریکارڈ کی گئی۔ درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ موسمیاتی تبدیلی ایسی ہیٹ ویوز کا امکان 100 گنا زیادہ کر دیتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی لہروں کے ہر 3 سال بعد آنے کی توقع ہے۔مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کے لیے آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ بتاتی ہے کہ گرمی کی لہریں اور مرطوب گرمی کا دباؤ زیادہ شدید اور متواتر ہوگا اور یہ کہ ہر سال موسم گرما میں مون سون کی بارشوں میں اضافہ ہو گا۔ نتیجتاً، یہ زراعت اور پانی پر انحصار کرنے والے شعبوں کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو نمایاں طور پر متاثر کرے گا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی، پاکستان کے مطابق 1856 سے سن2000 کے دوران کراچی کے ساحل کے ساتھ سطح سمندر میں اضافے کا تخمینہ 1.1 ملی میٹر فی سال لگایا گیا ہے۔ آئی پی سی سی کے اندازوں کے مطابق، 1901 اور 2010 کے درمیان عالمی سطح پر سمندر کی سطح میں اوسط اضافے کی اوسط شرح 1.7 ملی میٹر فی سال اور 1993 اور 2010 کے درمیان 3.2 ملی میٹر فی سال تھی۔سمندر کی سطح میں یہ تبدیلی دو بڑے عوامل، سمندروں کی تھرمل توسیع اور گلیشیر ماس کے پگھلنے کی وجہ سے آرہی ہے۔ ہمالیہ کے کچھ حصوں میں برف پگھلنے سے بننے والے پانی سے سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ 2020 میں، شیسپارے میں ایک گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے گاؤں حسن آباد، ہنزہ کو خالی کرایا گیا۔ 2014 کے ایک ریموٹ سینسنگ مطالعہ نے تجویز کیا کہ پاکستان میں گلیشیئرز کی صورتحال ملک کے مختلف علاقوں میں الگ الگ ہے ۔ 2022 کا تباہ کن سیلاب گلیشیئرز کے پگھلنے کے نتیجے میں آیا۔ ایک تحقیق کے مطابق، 2040 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زراعت پرلاگت 7 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے لیکن موسمیاتی موافقت کے اچھے طریقوں کے نتیجے میں خالص پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔2022 میں آنے والے سیلاب نے بنیادی طور پر بارشوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پاکستان کی تقریباً 50 فیصد فصلوں کو تباہ کیا۔یہ ٹرینڈ تسلسل سے جاری رہا تو خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔شدید موسم اور غیر یقینی معاشی مواقعکی وجہ سے پاکستان میں دیہی کمیونٹیز بڑے شہروں میں آکر بے گھر ہو گئی ہیں۔ ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے چند سال میں 20% آبادی بڑے شہروں میں منتقل ہو جائے گی۔ نقل مکانی کے موجودہ نمونوں کے مطابق ایک سال میں 700,000 لوگ شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں ۔ شدید موسم کی وجہ سے بڑی نقل مکانی ہوتی ہے۔لوگ بار بار قدرتی اور ماحولیاتی آفات کی وجہ سے تباہ ہونا نہیں چاہتے ، 2010 کے بعد سے تقریباً 20 ملین دیہی آبادی نے شہروں کی طرف ہجرت کی ۔سوال مگر یہ ہے کہ اب جب ٹریفک کے سیلاب ، پانی کی قلت ،بجلی کی کمی ،صفائی کی ابتر حالت اور درختوں کی کمیابی کی وجہ سے شہر ماحولیاتی آفت کا نشانہ بننے کے قریب پہنچ چکے ہیں تو لوگ کہاں جائیں؟
QOSHE - ماحولیاتی خرابی: شہری کہاں جائیں؟ - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ماحولیاتی خرابی: شہری کہاں جائیں؟

11 0
14.03.2024




پرندہ ہونے میں ایک آسانی ہے کہ جہاں ماحول رہنے کے قابل نہ ہو وہاں سے ہجرت کر جاو۔ایک مسکن کی بات ہے ،وہ کسی پہاڑ کی گھاٹی، ندی کی قربت ، جنگل کے کونے اور ویرانے میں کھڑے کیکر پر بنایا جا سکتا ہے۔مسئلہ ہم انسانوں کے لئے بن گیا ہے کہ جن شہروں کو ہزاروں برس تک عالیشان عمارتوں، باغات ، شاہراوں ، تعلیمی اداروں اور شفا خانوں سے بسایا اب وہاں سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ پانی کی کمی اور بجلی کے تعطل کے ساتھ اب شہر ہر وقت دھوئیں سے بھرے رہتے ہیں۔ستم یہ کہ منتخب نمائندے، ادارے اور حکومتیں ہماری جانب بڑھتی موت کی چاپ سننے سے عاری ہیں۔کچھ صاحب ثروت ارد گرد پیڑ لگواتے ہیں، سرکاری افسروں نے ورنہ شجرکاری کو ایک منافع بخش کام بنا لیا ہے، ہر سال اپنے لوگوں سے من چاہے نرخوں پر پودے خریدتے ہیں، اگلے سال تک دیکھ بھال نہ ہونے سے یہ پودے مرجاتے ہیں ،ایکبار پھر شجرکاری کی ضرورت پر لیکچر ہوتے ہیں ، حکومت فنڈز جاری کرتی ہے اور سال بعد سوکھے پودے نظر آتے ہیں۔ یہ چکر کئی عشروں سے جاری ہے۔پی ٹی آئی حکومت سے پہلے بھی شجر کاری ہوتی تھی، بلین ٹری سونامی میں درخت لگائے گئے اور اب پنجاب حکومت نے جنگلاتی و ماحولیاتی تحفظ کا منصوبہ ترتیب دیا ہے۔جب تک افسر شاہی سے یہکام واپس نہیں لیا جاتا ،امکان ہے ملک میں نیا پودا تناور درخت نہیں بن سکے گا۔ پاکستان نے 2030 تک کاربن کے متوقع اخراج میں 50 فیصد کمی کا عہد کر رکھا ہے۔2022 میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا تھا کہ فوسل فیول کے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play