ایک مہینہ ہو چکا ، عام انتخابات ہوئے ۔الیکشن کمیشن کی طرح نئی پارلیمنٹ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی۔تنازعات بڑھنے کا اندیشہ ہے لیکن متعلقہ فورمز کوئی حل نہیں نکال رہے۔برسوں سے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی باتیں کرنے والے وہ طریقہ اختیار نہیں کر رہے جو مغربی ممالک کی مثالی پارلیمینٹس بروئے کار لا کر داخلی تنازعات طے کرتی ہیں ۔جیتنے اور ہارنے والے سیاسی استحکام کے لئے ایک غیر سیاسی ادارے پر غیر ضروری بوجھ ڈال رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے عام انتخابات کے بارے میں اپنی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر حتمی نتائج کی فراہمی، ریکارڈ میں مطابقت اور اعلان میں تاخیر کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ 2024 کی یہ جائزہ رپورٹ سول سوسائٹی کے مختلف ماہرین نے ترتیب دی ہے، ان میں سیاستدان، وکلاء ، سماجی کارکن، ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر آگاہ نوجوان شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق ای ایم ایس کے ناکارہ ہونے کی صورت میں نتائج کے اجراء کو چودہ روز کی مدت میں یقینی بنانے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کا فقدان رہا اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت پولنگ کے 14 دنوں کے اندر فارم 45، 46، 48 اور 49 کی تصدیق شدہ کاپیاں شائع کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کی گئی ہے۔پلڈاٹ نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کو ہر کیس کی بنیاد پر تنازعات حل کرنے کی اجازت دی جائے۔ الیکشن ٹربیونلز کو انتخابی پٹیشنوں پر فیصلہ کرنے کے لیے 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اس بار الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عذرداریاں سننے کے لئے 9 ٹربیونلز کی درخواست کی گئی تھی۔ پلڈاٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ تمام انتخابی درخواستوں کا 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن کے اندر فیصلہ کیا جا سکے۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں انتخابات کے شیڈول میں تاخیر، سیاسی سختیاں، نگراں حکومتوں اور لیول پلئینگ فیلڈکے فقدان اور قبل از انتخابات کے مرحلے کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی خرابی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انتخابی نتائج پر معترض پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس کی ویب سائٹ پر جاری کردہ فارم 45 میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر علی خان نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے پاس اب ان حلقوں میں دھاندلی کے شواہد موجود ہیں جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو راتوں رات نتائج بدل کر کے ساتھ شکست دی گئی، ای سی پی کے فارم 45 کا تمام امیدواروں کے پاس دستیاب اصل فارمز سے موازنہ کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں ووٹروں کی مجموعی شرح 40 فیصد رہی لیکن کچھ جگہوں پر ووٹ ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ ای سی پی کے فیصلوں کے خلاف ٹربیونلز میں جائیں گے اور چوری شدہ عوامی مینڈیٹ کی واپسی تک احتجاجی مظاہرے کریں گے۔ پاکستان کا انتخابی نظام اپنے نقائص کے ساتھ ناقص جمہوریت لانے کا سبب بنتا رہا ہے۔انتخابی دھاندلی ہر انتخابات کے بعد پاکستان میں زیر بحث رہی ہے۔کبھی ،پاکستان قومی اتحاد ، کبھی تحریک انصاف، کبھی جے یو آئی اور کبھی پیپلز پارٹی کو انتخابی نتائج پر اعتراض رہا۔مسلم لیگ ن پر الزام رہا کہ وہ دھاندلی سے فائدہ اٹھانے والی جماعت رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئی جے آئی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ تمام جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود انتخابی شفافیت یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کا کردار قابل قدر نہیں رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اعظم نذیر تارڑ نے انتخابی دھاندلی کے الزامات سے نمٹنے کے لیے قانونی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔اعظم نذیر تارڑ کے مطابق وہ عدالت میں اپنے کیس کا مکمل دفاع کریں گے۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں لیکن ہم نے مینڈیٹ کو قبول کیا ۔ سیاسی جماعتوں کے رویئے کی بابت دیکھا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر دھاندلی کے بارے میں جس موقف کا اظہار کرتی ہیں بطور اپوزیشن ان کا نکتہ نظر اس کے متضاد ہوتا ہے۔انتخابی عمل کی غیر شفافیت اور الیکشن کمیشن کی کوتاہی ایک بار کا مسئلہ نہیں۔ ہر انتخاب کا متنازع ہونا ملک میں جمہوریت کے متعلق بد گمانی پیدا کر رہا ہے، اسی طرح پاک فوج اور دیگر اہم اداروں کو بسا اوقات الزامات کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے حالانکہ یہ بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل قانون اور آئین کے مطابق انجام دے ۔حالیہ انتخابات پر رزلٹ ٹیمپرنگ ، غیر منصفانہ طور پر ہارنے والوں کو کامیاب کرنے، جعلی نتائج کی وجہ سے ٹرن آوٹ کی غلط بیانی ،انتخابی نظام کا غیر فعال ہونا اور نتائج جمع کرنے کے نظام کی خامیوں جیسے داغ لگے ہیں۔ حکومت کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ ایک بار تفصیل کے ساتھ انتخابی نتائج اور انتخابی نظام کے آڈٹ کا انتظام کرے۔یہ آڈٹ پارلیمنٹ خود کرے تاکہ اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب عوام کے نمائندوں سے وصول کیا جا سکے۔ہمارے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ کی پارلیمنٹ رہتی ہیں، ہم ان کے طریقہ کار کی تحسین کرتے ہیں لیکن جب خود پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں تو سارے سبق بھول جاتے ہیں۔بس بے جا الزام تراشی یاد رہتی ہے جس کی لپیٹ میں وہ ادرے بھی آ جاتے ہیں جو بار بار اپنی سکیورٹی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن بے دھڑک تنقید کا ہدف بن جاتے ہیں۔خالص جمہوریت میں پانی نہ ملنے کی خواہش ہو تو جھگڑے سڑکوں اور ٹی وی پر حل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں نمٹانے کا ہنر سیکھنا ہو گا۔حکومت اور اپوزیشن کو انتخابی عمل کی ساکھ بحال کرنے کے لئے وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔
QOSHE - انتخابی نتائج کے تنازعات سے متعلق پارلیمنٹ کا کردار - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتخابی نتائج کے تنازعات سے متعلق پارلیمنٹ کا کردار

10 0
11.03.2024




ایک مہینہ ہو چکا ، عام انتخابات ہوئے ۔الیکشن کمیشن کی طرح نئی پارلیمنٹ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی۔تنازعات بڑھنے کا اندیشہ ہے لیکن متعلقہ فورمز کوئی حل نہیں نکال رہے۔برسوں سے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی باتیں کرنے والے وہ طریقہ اختیار نہیں کر رہے جو مغربی ممالک کی مثالی پارلیمینٹس بروئے کار لا کر داخلی تنازعات طے کرتی ہیں ۔جیتنے اور ہارنے والے سیاسی استحکام کے لئے ایک غیر سیاسی ادارے پر غیر ضروری بوجھ ڈال رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے عام انتخابات کے بارے میں اپنی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر حتمی نتائج کی فراہمی، ریکارڈ میں مطابقت اور اعلان میں تاخیر کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ 2024 کی یہ جائزہ رپورٹ سول سوسائٹی کے مختلف ماہرین نے ترتیب دی ہے، ان میں سیاستدان، وکلاء ، سماجی کارکن، ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر آگاہ نوجوان شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق ای ایم ایس کے ناکارہ ہونے کی صورت میں نتائج کے اجراء کو چودہ روز کی مدت میں یقینی بنانے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کا فقدان رہا اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت پولنگ کے 14 دنوں کے اندر فارم 45، 46، 48 اور 49 کی تصدیق شدہ کاپیاں شائع کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play