عدالت کو پچاس سال لگے غلطی کا اعتراف کرنے میں۔اس دوران تاریخ لکھنے والوں نے کتنے ہزار بار پاکستانی عدلیہ کی مصلحتوں کے نوحے لکھے۔کروڑوں پاکستانی اسے ناحق موت اور انصاف کا قتل کہتے رہے لیکن چند ججوں نے اپنے ہاتھ خون سے رنگنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔بھٹو صاحب کا خون انصاف انصاف پکارتا رہا ۔گیارہ سال ہوئے جب صدر آصف زرداری نے بھٹو کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا، گیارہ سال بعد تب اس تاریخی ریفرنس پر معزز سپریم کورٹ کی رائے آئی جب آصف زرداری دوبارہ صدر بننے والے ہیں۔مجھے بھٹو خاندان کے سب سے پرانے اور بااعتماد دوست بشیر ریاض صاحب سے کچھ برس سیکھنے کا موقع ملا۔بھٹو صاحب ابھی وزیر خارجہ بنے تھے جب بشیر ریاض کی ان سے ملاقات ہوئی۔یہ تعلق بے نظیر بھٹو کے فارن سپوکس پرسن اور اب بلاول بھٹو زرداری کے سینئر ایڈوائزر کی شکل میں زندہ ہے۔بشیر صاحب پورے عہد کی تاریخ ہیں۔انہوں نے بھٹو خاندان اور پارٹی کے متعلق بہت سی معلومات بھٹو لیگیسی فاونڈیشن سے شائع کی ہیں۔میرے پاس دختر مشرق، بھٹو خاندان جہد مسلسل اور دوسری کئی کتابیں بشیر صاحب کی فراہم کی ہوئی ہیں۔بھٹو خاندان جہد مسلسل میں بھٹو کیس کے متعلق بہت سی معلومات ہیں۔آج جب بلاول بھٹو کو انصاف ملنے پر اشکبار دیکھا تو وہ تاریخی حقائق پھر سے میرے سامنے آگئے جب ایک منتخب وزیر اعظم کو راستے سے ہٹانے کے لئے عدالت کا کندھا استعمال کیا گیا۔ دو روز قبل بشیر صاحب نے عدالتی فیصلہ سے متعلق ایک میسج بھیجا۔ میں نے بہتر جانا کہ ان سے بات کرکے ریکارڈ کو درست پیش کیا جائے ۔ میں نے اس کیس میں عدلیہ کے کردار سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’’بھٹو صاحب پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں جو مقدمہ درج کیا گیا وہ بذات خود مروجہ عدالتی ضابطوں کی خلاف ورزی تھا۔ قتل کے عام مقدمات پہلے مرحلے میں سول اور سیشن عدالتوں میں جاتے ہیں۔ پھر ان کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیلیں کی جاتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی بدنیتی کا یہ منہ بولتا ثبوت تھا کہ یہ مقدمہ براہ راست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا۔ پھر ایسے جج کی عدالت کے سپرد کیا گیا جو بھٹو خاندان سے شدید کینہ رکھتا تھا۔ یوں پہلے مرحلے میں ہی بھٹو صاحب کو اپیل کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی کو صرف اس جرم پر عدالتی منصب سے ہٹا دیا گیا کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی ضمانت منظور کی تھی۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کا جو بنچ تشکیل دیا گیا اس نے سب سے پہلے بھٹو صاحب کی ضمانت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ مسعود محمود کی گواہی پر بہت بات ہوتی ہے ،اس بابت بشیر ریاض صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر مسعود محمود کو 5جولائی 1977ء کی شب گرفتار کیا گیا۔ دو ماہ حراست میں رکھ کر وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کیا گیا۔ اسی کے بیان کی بنیاد پر استغاثہ نے مقدمہ کھڑا کیا کہ بھٹو صاحب کے حکم سے نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کیا گیا۔ سماعت کے پہلے روز ہی ایف ایس ایف کے اہلکار میاں عباس نے بھری عدالت میں بیان دے کر استغاثہ کو ڈھیر کر دیا کہ اسے ’’شدید تشدد کا نشانہ بنا کر بیان لیا گیا ہے‘‘۔ عدالتی کارروائی سننے کے لئے غیر ملکی میڈیا اور ماہرین قانون کی بڑی تعداد موجود ہوتی۔ جنہوں نے بعد میں کھل کر کہا کہ کارروائی بددیانتی سے چلائی جا رہی ہے۔ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کارک نے کارروائی سننے کے بعد اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’بھٹو صاحب کا مقدمہ جس طرح چل رہا ہے اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ہر صورت میں انہیں تختہ دار پر چڑھایا جائے۔ مولوی مشتاق حسین نے 18مارچ 1978ء کی صبح بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنا دی۔ سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد بھٹو صاحب کو کوٹ لکھپت جیل سے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔4اپریل کو بھٹو صاحب کو شہید کر دیا گیا۔‘‘ اس شہادت پر پوری دنیا میں سیاسی کارکنوں اور قانونی ماہرین نے رد عمل دیا۔ اگر کوئی اس عالمی رد عمل سے لاتعلق بنا رہا تو وہ ضیا الحق کی بے حس حکومت اور اس وقت کے جج تھے جنہوں نے انصاف کی بجائے ذاتی انتقام کو مقدم جانا۔ بشیر صاحب بتا رہے تھے کہ برطانیہ میں کئی ممتاز شخصیات بھٹو صاحب کی شاگرد ‘ دوست اور عقیدت مند تھیں۔ پوری دنیا میں ان کی موت پر سخت ردعمل آیا۔ 6اور 7اپریل کو لندن میں بین الاقوامی جیورسٹ کانفرنس کا انتظام بھٹو صاحب کی شہادت سے پہلے کیا گیا تھا۔ بشیر ریاض صاحب بتاتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اب اس کانفرنس کا کوئی فائدہ نہیں مگر مرتضیٰ بھٹو نے اسی جوش و جذبے سے آمر حکومت کی ناانصافی بے نقاب کرنے کا عزم دہرایا۔ دو روزہ کانفرنس نائٹس برج میں کارلٹن ہوٹل میں ہوئی۔ دنیا کے ممتاز قانون دانوں اور دانشوروں نے بھٹو صاحب کے مقدمے کے تمام پہلوئوں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور اسے’’ جوڈیشل مرڈر‘‘ قرار دیا۔ اس کانفرنس نے یہ نتائج اخذ کئے: 1۔ مقدمہ چلانے والی عدالت مدعا علیہ سے ذاتی مخاصمت رکھتی تھی۔2۔ مقدمہ کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا۔3۔ عدالت مقدمے کی کارروائی کا صحیح ریکارڈ رکھنے میں ناکام رہی۔4۔ مدعا علیہ کو اپنے دفاع کے لئے مناسب سہولیات سے محروم رکھا گیا۔5۔ شہادتیں خود ساختہ تھیں اور کئی دوسری قانونی خامیاں مقدمہ میں موجود تھیں۔6۔ مدعا علیہ کو جسمانی اذیتیں دی گئیں۔7۔ عدالت نے وکلاء صفائی کو دھمکیاں دیں۔ کانفرنس نے یہ بات نوٹ کی کہ جرم میں شریک بتائے گئے وعدہ معاف گواہان کے بیانات کی دو آزادانہ شہادتوں کے ذریعے تصدیق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسلامی قانون کے تحت ایسی شہادتیں باطل قرار پاتی ہیں۔ بھٹو آج سرکاری تاریخ میں بھی مظلوم تسلیم کر لیا گیا۔عدلیہ نے اپنے دامن پر لگے نا انصافی کے داغ دھو دیئے۔لیکن پورا انصاف ابھی نہیں ہوا۔وقت کا دریا کچھ اور بہنے دیں ،ظلم و زیادتی اور عوام دشمنی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہونے والا ہے ۔اسی روز عوام اور قائد عوام کو انصاف ملے گا۔
QOSHE - بھٹو کیس: عدلیہ نے داغ دھو دیا - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

بھٹو کیس: عدلیہ نے داغ دھو دیا

12 0
10.03.2024




عدالت کو پچاس سال لگے غلطی کا اعتراف کرنے میں۔اس دوران تاریخ لکھنے والوں نے کتنے ہزار بار پاکستانی عدلیہ کی مصلحتوں کے نوحے لکھے۔کروڑوں پاکستانی اسے ناحق موت اور انصاف کا قتل کہتے رہے لیکن چند ججوں نے اپنے ہاتھ خون سے رنگنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔بھٹو صاحب کا خون انصاف انصاف پکارتا رہا ۔گیارہ سال ہوئے جب صدر آصف زرداری نے بھٹو کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا، گیارہ سال بعد تب اس تاریخی ریفرنس پر معزز سپریم کورٹ کی رائے آئی جب آصف زرداری دوبارہ صدر بننے والے ہیں۔مجھے بھٹو خاندان کے سب سے پرانے اور بااعتماد دوست بشیر ریاض صاحب سے کچھ برس سیکھنے کا موقع ملا۔بھٹو صاحب ابھی وزیر خارجہ بنے تھے جب بشیر ریاض کی ان سے ملاقات ہوئی۔یہ تعلق بے نظیر بھٹو کے فارن سپوکس پرسن اور اب بلاول بھٹو زرداری کے سینئر ایڈوائزر کی شکل میں زندہ ہے۔بشیر صاحب پورے عہد کی تاریخ ہیں۔انہوں نے بھٹو خاندان اور پارٹی کے متعلق بہت سی معلومات بھٹو لیگیسی فاونڈیشن سے شائع کی ہیں۔میرے پاس دختر مشرق، بھٹو خاندان جہد مسلسل اور دوسری کئی کتابیں بشیر صاحب کی فراہم کی ہوئی ہیں۔بھٹو خاندان جہد مسلسل میں بھٹو کیس کے متعلق بہت سی معلومات ہیں۔آج جب بلاول بھٹو کو انصاف ملنے پر اشکبار دیکھا تو وہ تاریخی حقائق پھر سے میرے سامنے آگئے جب ایک منتخب وزیر اعظم کو راستے سے ہٹانے کے لئے عدالت کا کندھا استعمال کیا گیا۔ دو روز قبل بشیر صاحب........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play