لاہور کی دشمن داریوں پر حالیہ کالموں کی اشاعت پر پڑھنے والوں کا ردعمل حیران کن رہا، یہ بات سچ لگی کہ سانپ، فقیر اور بدمعاش کی زندگی ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہتی ہے۔ میرے کالج دور کے استاد اور فیس بک کی مشہور بزلہ سنج شخصیت غلام ربانی صاحب نے محمد خان ڈاکو پر بنی فلم کا ذکر کیا۔ ذکر کیا ہوا میری یادوں میں ایک کہانی زندہ ہو گئی۔ انٹر میں میری دوستی شافی سے ہوئی۔ شافی کے خاندان کا ایک میڈیکل سٹور ڈیفنس کے عادل ہسپتال کے بالکل سامنے تھا۔ ایک روز مجھ سے پوچھا: فلم میں کام کرو گے۔ میں نے انکار کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے باڈی بلڈنگ کے لیے درکار خوراک میسر نہ تھی۔ گھر آنا جانا تھا، باقی مسائل بھی اس کے علم میں تھے۔ شافی نے کچھ دیر مجھے سمجھایا اور پھر کہا کہ پیسے ملیں گے۔ سچ کہوں! شہرت اور باقی فوائد سے زیادہ مجھے اپنی ضروریات نے رضا مند کیا۔ شافی کا بھائی شیخ طاہر اس زمانے میں کئی فلمیں بنا رہا تھا۔ شیخ طاہر کا گھر عادل ہسپتال کے عقب میں ہی تھا۔ یہ غالباً 1990ء کی بات ہے۔ اس وقت ڈیفنس پوری طرح آباد نہیں تھا۔ ورزش اور کچھ نوعمری نے میری اچھی قامت کو قابل توجہ بنا دیا تھا۔ شافی ایک روز گھر آیا اور مجھے سارے کپڑے لانے کو کہا۔ جو چند جوڑے تھے وہ سامنے رکھ دیئے۔ اس نے کالر والی ایک ٹی شرٹ اور گرے برائونش رنگ کی پتلون الگ نکال لی۔ اس لباس میں واقعی میں سینڈو لگتا تھا۔ ہم شیخ طاہر علی کی کوٹھی پہنچے تو مغرب ہو چکی تھی۔ وہ سبز لان میں بیٹھے تھے۔جوان آدمی تھے۔ چائے کے دوران وہ مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ان کی بنائی فلم ’’محمد خان ڈاکو‘‘ مکمل ہوئی ہے۔ عجیب اتفاق یہ کہ فلم کے کچھ عرصہ بعد ہی محمد خان ڈاکو لمبی قید کاٹ کر رہا ہو گیا۔ محمد خان نے جب اپنے نام پر بنی فلم کا سنا تو اس نے فلمساز شیخ طاہر علی پر مقدمہ کر دیا کہ اس کی اجازت کے بنا اس کا نام کیوں استعمال کیا گیا۔ فلم میں مرکزی کردار سلطان رہی نے ادا کیا تھا۔ دیگر اداکاروں میں افضال احمد، نادرہ، ریما اور ریمبو شامل تھے۔ شاید 1992ء میں یہ تنازع طے پایا اور فلم ریلیز ہوئی۔ شیخ طاہر علی نے مجھے بتایا کہ جونہی محمد خان پر بننے والی فلم ریلیز ہو گی وہ دو نئی فلمیں شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ایک فلم کا نام انہوں نے ’’ملکہ حسن‘‘ اور دوسری کا ’’باکسر‘‘بتایا۔ میرے لیے انہوں نے باکسر فلم میں شان کے مقابل ایک باکسنگ فائٹر کا کردار سوچ رکھا تھا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں شیخ طاہر علی نے مجھے فلم کے بارے میں کئی باتیں سمجھائیں جو اب یاد نہیں۔ بس یہ یاد ہے کہ انہوں نے فلم میں میرا کردار ساڑھے بارہ منٹ کا بتایا۔ میں ساڑھے بارہ منٹ کا سن کر بجھ گیا۔ تھوڑی دیر پہلے جو جوش اور سنسنی محسوس کر رہا تھا اس پر گویا پانی پھر گیا۔ شافی میرے ساتھ تھا۔ اس نے میری حالت کا اندازہ کر لیا۔ ملاقات کے بعد جب ہم شیخ صاحب کے گھر سے باہر نکلے تو اس نے وجہ پوچھی ،میں نے اپنی مایوسی بتا دی۔ وہ ہنسنے لگا۔ پھر پوچھا کہ ہماری فلمیں کتنے گھنٹے کی ہوتی ہیں۔ میں نے اندازے سے بتا دیا کہ دو گھنٹے کے لگ بھگ۔ اس نے پھر پوچھا کہ ایک گانا کتنے منٹ کا ہوتا ہے۔ بتایا چار منٹ کے لگ بھگ کا۔ شافی نے پوچھا فلم میں اوسطاً کتنے گانے ہوتے ہیں۔ میں نے بتایا 6کے قریب۔ اس نے سمجھایا کہ اس کا مطلب ہے دو گھنٹے کی فلم میں 24منٹ گانوں کو مل گئے۔ فلم میں ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس میں ہیرو، ہیروئن اور دوسرے کردار بھی ہوتے ہیں۔ ان سب کو منٹوں کے حساب سے کردار دئیے جاتے ہیں۔پھر کیمرہ نے کچھ مناظر ،جیسے کھیت، سورج کا غروب، نہر کا بہاو،پرندے ، راستے وغیرہ دکھانے ہوتے ہیں۔ اس حساب سے تمہارا کردار سکرین پر کافی دیر رہے گا۔ بات مجھے سمجھ آ گئی اور دل مطمئن ہو گیا۔ مجھے انتظار تھا کہ محمد خان ڈاکو پر بنی فلم ریلیز ہو تو میری فلم شروع ہو۔ ان دنوں ایک واقعہ ہوا۔ محمد خان فلم ریلیز ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ لاہور کے مشہور سونے کے بازار ’’سوہے بازار‘‘ میں ایک بڑی ڈکیتی ہو گئی۔ 44لاکھ کی رقم لوٹ لی گئی۔ یہ بہت بڑی رقم تھی۔شائد ایک دو آدمی بھی مارے گئے تھے۔ ڈاکوئوں نے جو پجارو گاڑی استعمال کی تھی وہ فلم ساز شیخ طاہر علی کی تھی۔ ہوا یوں کہ شیخ طاہر علی کے کسی جاننے والے نے ان سے گاڑی مانگی اور آگے اپنے دوست ڈاکوئوں کو دیدی۔ شیخ طاہر علی تو فرار ہو گئے لیکن سلطان راہی، ریما اور کئی دوسری فلمی شخصیات کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ شیخ طاہر علی کئی ماہ غائب رہے۔ اس دوران میری زندگی میں ایسے اتار چڑھائو آئے کہ احباب کے پرانے دائرے تحلیل ہو گئے۔ بہت کچھ چھوٹ گیا۔ دوچار کے سوا سب فلمی لوگوںکو صنعت کا بحران نگل گیا۔ کتنے ہی نامور اور بڑے فلمساز، ہدایت کار، موسیقار اور اداکار آج بھی زندہ ہیں مگر نہ کوئی ان کی خیریت سے واقف ہے نہ کوئی انہیں کام دیتا ہے۔ ہمارے بزرگ دوست اور نامور فلمساز و ہدایت کار دلجیت مرزا قیام پاکستان کے وقت فلموں میں اداکاری کر رہے تھے۔ دلجیت مرزا نے بہت سی ہیروئنوں کو متعارف کرایا۔ ہم ان سے جب کبھی اس سلسلے میں شرارتی سوال پوچھتے وہ شرما جایا کرتے۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ کوئی پانچ سال ہوئے مرزا صاحب کا انتقال ہوا۔ ان کا ایک دکھ جوان اکلوتے بیٹے کی وفات تھا۔ علی رضا احمد اور میں ان کے گھر گئے تو مرزا صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔مرزا صاحب بتاتے تھے کہ فلموں نے جرائم سے نفرت کی بجائے مجرموں کو گلیمرائز کر کے سماج سے ثقافتی شناخت چھین لی ہے۔ ٭٭٭٭
QOSHE - قصہ فلم میں کام ملنے کا - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

قصہ فلم میں کام ملنے کا

9 0
07.03.2024




لاہور کی دشمن داریوں پر حالیہ کالموں کی اشاعت پر پڑھنے والوں کا ردعمل حیران کن رہا، یہ بات سچ لگی کہ سانپ، فقیر اور بدمعاش کی زندگی ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہتی ہے۔ میرے کالج دور کے استاد اور فیس بک کی مشہور بزلہ سنج شخصیت غلام ربانی صاحب نے محمد خان ڈاکو پر بنی فلم کا ذکر کیا۔ ذکر کیا ہوا میری یادوں میں ایک کہانی زندہ ہو گئی۔ انٹر میں میری دوستی شافی سے ہوئی۔ شافی کے خاندان کا ایک میڈیکل سٹور ڈیفنس کے عادل ہسپتال کے بالکل سامنے تھا۔ ایک روز مجھ سے پوچھا: فلم میں کام کرو گے۔ میں نے انکار کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے باڈی بلڈنگ کے لیے درکار خوراک میسر نہ تھی۔ گھر آنا جانا تھا، باقی مسائل بھی اس کے علم میں تھے۔ شافی نے کچھ دیر مجھے سمجھایا اور پھر کہا کہ پیسے ملیں گے۔ سچ کہوں! شہرت اور باقی فوائد سے زیادہ مجھے اپنی ضروریات نے رضا مند کیا۔ شافی کا بھائی شیخ طاہر اس زمانے میں کئی فلمیں بنا رہا تھا۔ شیخ طاہر کا گھر عادل ہسپتال کے عقب میں ہی تھا۔ یہ غالباً 1990ء کی بات ہے۔ اس وقت ڈیفنس پوری طرح آباد نہیں تھا۔ ورزش اور کچھ نوعمری نے میری اچھی قامت کو قابل توجہ بنا دیا تھا۔ شافی ایک روز گھر آیا اور مجھے سارے کپڑے لانے کو کہا۔ جو چند جوڑے تھے وہ سامنے رکھ دیئے۔ اس نے کالر والی ایک ٹی شرٹ اور گرے برائونش رنگ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play