پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ہمیں بجٹ سیشن دیکھنے کے لئے قومی اسمبلی کی گیلری میں مدعو کیا گیا۔ بجٹ پیش کرنا اور اس پر بحث اسمبلی کا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اراکین اس موقع پر سنجیدگی کے ساتھ اپنی رائے پیش کریں گے۔ جونہی وزیر خزانہ نے تقریر شروع کی مسلم لیگ کی کچھ خواتین نے شور مچاتے ہوئے وزیر خزانہ کا گھیرائو کرنے کی کوشش کی۔اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ احسن اقبال حسب معمول سوٹ میں ملبوس تیز تیز چلے آ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کے پاس آ کر انہوں نے کوٹ کے بٹن کھول دیے۔ ان کے اندر روٹیاں تھیں۔ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ عام آدمی کو روٹی نہیں مل رہی۔ اس وقت بازار میں روٹی کی قیمت ایک روپہ کے قریب تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں یہی روٹی 12روپے سے بڑھ کر 25روپے کی ہو گئی۔ شہباز شریف نئے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے بہت سے باقی لوگ وزیر گے۔نومنتخب وزیر اعظم نے ایک طویل اور بھرپور تقریر میں اپنی جن ترجیحات کا ذکر کیا ہے وہ قابل قدر سہی لیکن ایوان میں موجود اراکین کی استعداد کو دیکھتے ہوئے جانے کیوں یقین نہیں آرہا کہ یہ لوگ وزیر اعظم کا بوجھ کم کر سکیں گے۔اکثر ایک بار پھر کوئی دس بیس سال کا پروگرام ترتیب دیں گے اور بس۔ ایک نشست کے دوران پچھلے دنوں دوست نے سوال کیا کہ بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ لائق اور سمجھدار معاشی ماہرین کیوں ہیں۔ میں نے عرض کی کہ پاکستانی معیشت چونکہ قرض پر چلتی ہے اس لئے ہم اکائونٹنٹ اور مالیاتی شعبے کے ماہرین کو وزیر خزانہ بنا دیتے ہیں۔ جیسے اسحق ڈار ‘ جیسے ڈاکٹر شمشاد اختر۔ بھارت میں قومی ترقی کے لئے مالیاتی نہیں بلکہ معاشی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ وہاں ایسے ماہرین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو تمام شعبوں میں ہم آہنگی پیدا کر کے معیشت کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی حکومتیں انہیں عزت دیتی ہیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم بننے سے پہلے وزیر خزانہ بنے۔ آج بھارت جہاں کھڑا ہے وہ ان ہی کی پالیسیوں کے طفیل ہے۔ بعد میں بی جے پی نے بھی اسی ماڈل کو جاری رکھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اعلیٰ گروتھ ریٹ چین اور بھارتی معیشت میں قدر مشترک ہے تاہم چین کے برعکس بھارت نے سروسز سیکٹر میں گروتھ بڑھانے کے معجزے دکھائے ہیں۔ بھارت نے مینو فیکچرنگ سیکٹر کو ایک طرف رکھتے ہوئے زراعت سے سیدھے سروسز کے شعبے میں چھلانگ لگا دی ہے۔ بھارت کا معاشی ترقی کا ماڈل دو مرحلوں پر مشتمل ہے جن میں ریاست اور مارکیٹ کے تعلق کو ازسرنو استوار کیا گیا۔ پہلا دور 1950کے عشرے سے 1991ء تک کا ہے۔ اس دور میں ترقی کا عمل ریاست کے قابو میں رہا۔ یہ نہرو ماڈل کہلاتا ہے۔ موجودہ بھارت مکس اکانومی کے ماڈل پر کام کر رہا ہے۔ نجی اور سرکاری شعبے مل کر بین الاقوامی تجارت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ اس وقت 6.5فیصد کی شرح نمو بھارت میں یکم اپریل 2024ء کے بعد بھی جاری رہے گی۔ پاکستان کی شرح نمو دو فیصد کے قریب ہے جسے ایسے لوگ معاشی بہتری قرار دے رہے ہیں جنہیں معیشت چلانے کا موقع کئی بار ملا لیکن وہ کوئی کامیاب ماڈل پیش نہ کر سکے۔ پی ڈی ایم تو خیر بالکل ناکام رہی جس کے پاس ’’ڈیفالٹ‘‘ سے بچانے کے دعوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ دعویٰ بھی بوجوہ درست نہیں مانا جاتا۔ بھارت کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے بھی مکس اکانومی کا تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے کی حالت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی پیداوار سے جی ڈی پی کا بڑا حصہ تشکیل پاتا ہے۔ پاکستان میں زراعت قومی جی ڈی پی کا 22.35فیصد ہے۔20.42فیصد جی ڈی پی صنعتوں سے آتی ہے جبکہ جی ڈی پی کا نصف حصہ سروسز کے سیکٹر سے ملتا ہے۔اسی سیکٹر نے عام آدمی کو محدود سہی لیکن معاشی و سیاسی خودمختاری دی ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی ہر منصوبہ بندی اس وجہ سے ناکام رہی ہے کہ آبادی میں تیز رفتار اضافے اور بدعنوانی پر قابو پانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ شہریوں کو ان کے آئینی و قانونی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے قائم ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔ مسلح ذاتی محافظوں کی سپاہ رکھنے والا ہی سب سے امیر بن سکتا ہے۔ کاروبار کرنے کے لئے قانون کی بالادستی کی بجائے قانون شکنوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اس سے ایسا ماحول بن گیا ہے جہاں خالص کاروباری اور قانون پسند افراد کا کاروبار کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ چند برسوں سے قومی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کا رواج زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھنے نہیں دے رہا۔ اس وجہ سے قومی معیشت کا حجم اور استعداد میں اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ پاکستان کی ناکام پالیسیوں سے نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ قریبی خطے میں اگر کوئی دو ممالک آپس میں لڑ پڑیں تو اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر سب سے زیادہ منفی مرتب ہوتے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام دور نہیں ہو رہا۔ انفارمل سیکٹر بڑا ہے اور ٹیکس محاصل کم۔ پاکستان میں تعلیم کی شرح 40فیصد ہے جس سے جدید دور کے کاروبار نہ سمجھے جا سکتے ہیں نہ چلائے جا سکتے ہیں۔ صحت ‘ انفراسٹرکچر اور زراعت پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے ۔توانائی کے بحران‘ افسر شاہی کی رکاوٹیں اور سکیورٹی خدشات نے معاشی سرگرمیوں کے لئے نئے چیلنج پیدا کر دیے ہیں۔ اب جب معاشی بحالی کی رکاوٹوں کی نشاندہی ہو چکی ہے تو ایک ایک کر کے انہیں دور کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری نبھائے۔ غیر آئینی عمل کا راستہ روکے۔ آئین پر عمل ہو گا تو سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکتا ہے۔ عدالتیں انصاف کریں تو مجرم سزا پائیں۔ بے گناہ رہا ہو سکیں گے۔ لوگوں کا تنازعات اور شکایات دور کرنے کے نظام پر بھروسہ بڑھے گا تو قانون شکنوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لوگ محفوظ اور مستحکم ماحول میں اپنی دولت واپس لائیں گے اور نئے کاروبار کریں گے۔مصلحتوں سے بندھے شہباز شریف اس صورتحال میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ایسا کیا تو ان کا خاندان بکھر سکتا ہے۔
QOSHE - مصلحتوں سے بندھے نو منتخب وزیر اعظم - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مصلحتوں سے بندھے نو منتخب وزیر اعظم

13 0
05.03.2024




پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ہمیں بجٹ سیشن دیکھنے کے لئے قومی اسمبلی کی گیلری میں مدعو کیا گیا۔ بجٹ پیش کرنا اور اس پر بحث اسمبلی کا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اراکین اس موقع پر سنجیدگی کے ساتھ اپنی رائے پیش کریں گے۔ جونہی وزیر خزانہ نے تقریر شروع کی مسلم لیگ کی کچھ خواتین نے شور مچاتے ہوئے وزیر خزانہ کا گھیرائو کرنے کی کوشش کی۔اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ احسن اقبال حسب معمول سوٹ میں ملبوس تیز تیز چلے آ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کے پاس آ کر انہوں نے کوٹ کے بٹن کھول دیے۔ ان کے اندر روٹیاں تھیں۔ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ عام آدمی کو روٹی نہیں مل رہی۔ اس وقت بازار میں روٹی کی قیمت ایک روپہ کے قریب تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں یہی روٹی 12روپے سے بڑھ کر 25روپے کی ہو گئی۔ شہباز شریف نئے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے بہت سے باقی لوگ وزیر گے۔نومنتخب وزیر اعظم نے ایک طویل اور بھرپور تقریر میں اپنی جن ترجیحات کا ذکر کیا ہے وہ قابل قدر سہی لیکن ایوان میں موجود اراکین کی استعداد کو دیکھتے ہوئے جانے کیوں یقین نہیں آرہا کہ یہ لوگ وزیر اعظم کا بوجھ کم کر سکیں گے۔اکثر ایک بار پھر کوئی دس بیس سال کا پروگرام ترتیب دیں گے اور بس۔ ایک نشست کے دوران پچھلے دنوں دوست نے سوال کیا کہ بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ لائق اور سمجھدار معاشی ماہرین کیوں ہیں۔ میں نے عرض کی کہ پاکستانی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play