بچیوں کے ایک سکول کی تقریب میں ہاکی کے شہرہ آفاق کھلاڑی شہباز سینئر، پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی سپر سٹار آل راونڈر عالیہ ریاض اور خاکسار بطور مہمان مدعو تھے۔چودھری رحمت علی ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا یہ سکول اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے پاس کھیلوں کے لئے کشادہ میدان چار دیواری کے اندر موجود ہے ۔میں نے برادرم خالد رسول کو تجویز دی کہ وہ شام کے اوقات میں یہاں لڑکیوں کے لئے سپورٹس اکیڈمی بنا دیں۔ارد گرد ٹاون شپ و گرین ٹاون کے علاقے کی ہزاروں بچیوں کو محفوظ ماحول میں کھیلنے کی سہولت مل جائے گی۔سڑک کے دوسری طرف سرکاری گرلز ہائی سکول ہے۔اس کے پاس بھی کھلا میدان ہے۔ پورے پاکستان میں سرکاری سکولوں کے پاس لیبارٹری ، لائبریری یا اچھے اساتذہ چاہے نہ ہوں ،کھلے میدان ضرور دستیاب ہیں جن سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش محض اس لئے کامیاب نہ ہو سکی کہ حکمران شخصیات کو بچیوں کی تعلیم اور کھیلوں میں ان کے کردار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے عثمان بزدار کی حکومت کو یہ تجویز دی، اہم شخصیات کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی لیکن مڈل کلاس کی بچیوں کے لئے کون اتنا سوچے؟ یہ سارا قصہ ایک بار پھر یوں یاد آیا کہ اب پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شریف میں۔وہ صوبے کی معاشی حالت، صحت کی سہولیات،ماحولیاتی منصوبوں ،امن و امان اور روزگار کے لئے اپنا وژن لائیں گی۔مجھے لگا کہ سرکاری گرلز سکولوں میں شام کے وقت لڑکیوں کی سپورٹس اکیڈمی والی تجویز ان کے سامنے جانی چاہئے۔ پنجاب نصف پاکستان ہے، بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ لیکن اس کی آدھی آبادی یعنی خواتین صحت ، معاش اور سماجی کردار سے متعلق مسائل کا شکار ہیں۔میں اپنی بیٹی کے لئے جو ماحول چاہتا ہوں وہی باقی بیٹیوں کے لئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔لکھنے کو ہم کالموں میں کیا کیا نہیں لکھتے لیکن اس لکھے سے سماج کا کتنا بھلا ہوا اس پر ضرور سوچا جانا چاہئے۔ میں ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہوں جہاں مسابقت کے سبھی شعبوں میں خواتین کو والدین کی جانب سے سرپرستی دیکھی ۔پھر والدین عدم تحفظ کا شکار ہوتے گئے، حکومتوں نے ریاستی مسائل میں الجھ کر والدین کی خواہشات کو کبھی ایک نظر دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ نتیجہ یہ کہ اب خواتین کے لئے کھیل کی سہولیات ہیں نہ کوچنگ کا عملہ۔کروڑوں ڈالر کے مواقع ان سے دور ہو چکے ہیں۔انہیں بین الاقوامی وظائف نہیں مل پا رہے۔کرکٹ کے علاوہ بھی لڑکیاں کھیلوں سے پیسہ اور ملک کے لئے نیک نامی کما سکتی ہیں۔ ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا ۔جس میں بتایا گیا ہے کہ چودہ سال کی عمر تک، بہت سی لڑکیاں لڑکوں کی نسبت دو گنا تعداد میں کھیل چھوڑ رہی ہیں۔ کون سے عوامل کس طرح لڑکیوں کے کھیلوں کے تجربات کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں کھیل میں کیوں رہنے کی ضرورت ہے اس پر سنجیدہ مشاورت درکار ہے۔ لڑکیوں کے پاس لڑکوں کے مقابلے ہائی سکول میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینیکے مواقع کم ہیں۔ سکولوں میں جسمانی تعلیم کی کمی اور ہائی سکول و کالج میں کھیلوں کے محدود مواقع کا مطلب ہے کہ لڑکیوں کو کھیلوں کے لیے کہیں اور جگہ تلاش کرنا پڑتی ہے ۔ اس وجہ سے زیادہ رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ اکثر ان کے گھروں کے قریب کھیل کی مناسب سہولیات موجود نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے کھیلوں کو کیرئر بنانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سماجی رویئے بدلنے کے باوجود خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک برقرار ہے۔ کھیلوں میں لڑکیوں کو غنڈہ گردی، سماجی تنہائی، کارکردگی کی منفی تشخیص یا اپنی پوزیشن کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سماجی طور پر کمزور اور نوجوانی کے عہد میں کئی طرح کے ٹیگ کیے جانے کا خوف بہت سی لڑکیوں کو کھیل سے دور رکھنیکے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہمارے سماج کی حوصلہ شکنی اور سہولیات کی عدم موجودگی کے سبب جیسے جیسے لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں، ان کے کھیلوں کا معیار گر سکتا ہے۔ سہولیات اتنی اچھی نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں ، ہو سکتا ہے کہ کھیلنے کے اوقات مناسب نہ ہوں۔ لڑکیوں کے لئے ایتھلیٹکس، ٹینس،والی بال،ٹیبل ٹینس، جمناسٹک، کرکٹ ،فٹ بال،روئنگ، باکسنگ اور سائیکلنگ میں معیاری، تربیت یافتہ کوچز کی دستیابی نہیں ہے یا یہ کوچز لڑکوں کے پروگراموں پر زیادہ توجہ مرکوز کر تے ہیں جن کے پاس تربیت کے لیے زیادہ رقم اور مواقع ہیں۔ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے مقابلوں کے لیے سازوسامان اور یہاں تک کہ یونیفارم بھی فراہم نہیں کیے جاتے ہیں اس لیے ان کی ترقی اور کھیل سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے لئے کھیل اب مزید "تفریح" نہیں رہے ۔ کھیل سماجی میل جول اور ہم آہنگی کے لیے ایک متحرک اور جامع پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ ان کے پاس متنوع پس منظر اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو اکٹھا کرنے کی طاقت ہے، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا جو ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام، افہام و تفہیم اور تعریف کو فروغ دیتا ہے یہ کھیل ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ ایک ٹیم کا حصہ بن کر، افراد اپنے تعلق اور دوستی کے احساس کی پرورش کر سکتے ہیں،تقسیم شدہ سماج کو ایک کرنے کے لئے کھیلوں کا نسخہ بھی آزما لیا جائیتو کیا حرج ہے۔ جو خاص طور پر ابتدائی اور بعض اوقات ہنگامہ خیز نوعمری کے برسوں کے دوران قیمتی ہو سکتا ہے۔ کھیلوں کے میدان میں مشترکہ تجربات، چیلنجز اور کامیابیاں کردار کی تشکیل کرتی ہیں، شخصیت میںلچک پیدا کر تی ہیں اور زندگی بھر کی دوستی قائم کر سکتی ہیں۔ ٹیم والیکھیل سٹریٹجک سوچ اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں، مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں اور فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت کو ابھارتے ہیں۔ کھیلوں میں شرکت کے ذریعے، طلباء میں قانون اور ریاست کے لیے احترام کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اصول انصاف اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ زندگی کے یہ قیمتی اسباق لڑکیوں کی مجموعی ترقی اور نشوونما میں حصہ ڈالتے ہیں، انہیں ایسی مہارتوں سے آراستہ کرتے ہیں جو کھیل کے میدان سے باہر سکول، کام اور زندگی کی دنیا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سکولوں میں کھیلوں کی تعلیم بچوں کی مجموعی نشوونما کے لیے ایک کثیر جہتی ذریعہ ہے۔ یہ مختلف کھیلوں کی بنیادی باتیں سکھانے، دوسرے کھیلوں میں دلچسپی پیدا کرنے اور ہماری زندگیوں میں کھیل کے فوائد کے بارے میں گہری سمجھ بوجھ پیدا کرنے سے بالاتر ہے۔ کم عمری سے ہی جسمانی سرگرمی کی قدر کو تقویت دینے اور صحت مند طرز زندگی کو فروغ دے کر ہم اپنے بچوں کو متوازن، بھرپور زندگی گزارنے اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مستعد بنا سکتے ہیں۔امید ہے کہ نئی وزیر اعلیٰ بچیوں ، خصوصا مڈل کلاس اور پسماندہ بستیوں کی بچیوں کے لئے گھروں کے قریب کھیل کی سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دیں گی۔
QOSHE - پنجاب میں بچیوں کے لئے کھیلوں کی سہولیات کا مسئلہ - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پنجاب میں بچیوں کے لئے کھیلوں کی سہولیات کا مسئلہ

9 0
29.02.2024




بچیوں کے ایک سکول کی تقریب میں ہاکی کے شہرہ آفاق کھلاڑی شہباز سینئر، پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی سپر سٹار آل راونڈر عالیہ ریاض اور خاکسار بطور مہمان مدعو تھے۔چودھری رحمت علی ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا یہ سکول اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے پاس کھیلوں کے لئے کشادہ میدان چار دیواری کے اندر موجود ہے ۔میں نے برادرم خالد رسول کو تجویز دی کہ وہ شام کے اوقات میں یہاں لڑکیوں کے لئے سپورٹس اکیڈمی بنا دیں۔ارد گرد ٹاون شپ و گرین ٹاون کے علاقے کی ہزاروں بچیوں کو محفوظ ماحول میں کھیلنے کی سہولت مل جائے گی۔سڑک کے دوسری طرف سرکاری گرلز ہائی سکول ہے۔اس کے پاس بھی کھلا میدان ہے۔ پورے پاکستان میں سرکاری سکولوں کے پاس لیبارٹری ، لائبریری یا اچھے اساتذہ چاہے نہ ہوں ،کھلے میدان ضرور دستیاب ہیں جن سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش محض اس لئے کامیاب نہ ہو سکی کہ حکمران شخصیات کو بچیوں کی تعلیم اور کھیلوں میں ان کے کردار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے عثمان بزدار کی حکومت کو یہ تجویز دی، اہم شخصیات کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی لیکن مڈل کلاس کی بچیوں کے لئے کون اتنا سوچے؟ یہ سارا قصہ ایک بار پھر یوں یاد آیا کہ اب پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شریف میں۔وہ صوبے کی معاشی حالت، صحت کی سہولیات،ماحولیاتی منصوبوں ،امن و امان اور روزگار کے لئے اپنا وژن لائیں گی۔مجھے لگا کہ سرکاری گرلز سکولوں میں شام کے وقت لڑکیوں کی سپورٹس اکیڈمی والی تجویز ان کے سامنے جانی چاہئے۔ پنجاب نصف پاکستان ہے، بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ لیکن اس کی آدھی آبادی یعنی خواتین صحت ، معاش اور سماجی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play