تین روز قبل لاہور کے نوجوان بالاج کو شادی کی تقریب میں قتل کر دیا گیا۔گارڈز کی جوابی فائرنگ سے قاتل شوٹر موقع پر مر گیا۔بالاج ایک خوبصورت لہوریا تھا۔اس کا باپ اور دادا بھی دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔وارثان نے گوالمنڈی والے گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔دونوں خاندانوں میں عشروں سے چلی آ رہی دشمنی درجنوں افراد کی جان لے چکی ہے۔اللہ کرے یہ سلسلہ آگے نہ چلے۔بالاج کا ڈیرہ شاہ عالم چوک سے بانساں والے بازار کی طرف آتے ہوئے شروع والی نکر پر ہے ۔یہ پہلے بلا ٹرکاں والے کا ڈیرہ ، پھر ٹیپو ٹرکاں والے کا ڈیرہ اور اب بالاج ٹیپو کا ڈیرہ کہلاتا تھا۔اسی سڑک پر تھوڑا آگے جائیں تو چوک گوالمنڈی ہے۔دائیں طرف میو ہسپتال اور بائیں طرف مڑیں تو فوڈ سٹریٹ ہے۔یہ سارا علاقہ قطب الدین ایبک کے فرزند کی جاگیر تھا،اسی علاقے میں مغرب کی طرف وہ میدان تھا جہاں قطب الدین ایبک چوگان کھیلتے ہوئے مرا۔اس کا مزار وہیں ہے۔مائی لاڈو کا باغ یہیں تھا، ہری سنگھ نلوہ نے اس باغ کو اپنی ملکیت بنا لیا۔اسی باغ میں چھجو بھگت کی سمادھی ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مشیر رتن چند نے یہاں ایک مندر، تالاب اور سرائے بنائی ۔پھر یہاں نمک منڈی بن گئی۔اب ایک بستی ہے۔بالاج کا ڈیرہ اس بستی کے بالکل سامنے ہے درمیان میں بانسوں والا بازار ہے۔ پنجاب موسمی تہواروں ، کھیتوں اور محبتوں کی سرزمین ہے لیکن جس تاریخ نے اس کی زمین کو اپنے ہی خون سے رنگین کیا وہ برسہا برس تک جاری رہنے والی خاندانی دشمنیاں ہیں۔ پنجاب میں دو خاندانوں کے درمیان تقسیم سے پہلے کی دشمنی میں 125 افراد ہلاک ہوئے تھے، دونوں فریقوں کے درمیان مصالحتی معاہدے کے بعد یہ دشمنی ختم ہو گئی ۔ کچھ سال پہلے 45 سالہ شریفاں بی بی اور اس کے خاندان کے 20 افراد حریف گروپ کے ساتھ ’صلح نامے‘ پر دستخط کرنے کے لیے تھانے میں موجود تھے۔حریف گروپ کی خاتون کو گلے لگاتے ہوئے شریفاں بی بی نے کہا کہ اگرچہ میں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو دونوں گروپوں کے درمیان صلح کی خاطر معاف کر دیا ہے لیکن میرے لئے ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔ شریفاں کی طرح دونوں گروپوں کی بہت سی خواتین نے لڑائی میں باپ، چچا، بھائی یا بیٹے کو کھو دیا ہے۔تقریباً 70 سال قبل لاہور سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع قصور کے نوبہ اور جمالے گروپوں کے درمیان دشمنی اس وقت شروع ہوئی جمالے گروپ کے محمد دین کو نوبہکے تین افراد نے قتل کر دیا۔صلح کروانے والے سینئر پولیس افسر داکٹر حیدر اشرف کے مطا بق ایک نسل کی دشمنی نے اگلی نسل کے 125 سے زیادہ لوگوں کا خون بہایا۔ڈاکٹر حیدر اشرف و دیگر ٰ افسران حریف گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لائے اور انہیں دہائیوں پرانی دشمنی چھوڑنے پر آمادہ کیا۔انہیں دشمنی چھوڑنے اور اپنے ضلع میں امن سے رہنے پر راضی کرنا آسان نہیں تھا، دونوں گروپوں کے بزرگوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا تھا کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد پرانے جھگڑوں میں ملوث نہ ہو اور دوسرے گروپ کے افراد کے ساتھ دوستوں جیسا برتاؤ کرے۔ ایک صحافی کی رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں دشمنی کے نام پر ہرسال کم و پیش 200 افراد لقمہ ا جل بن جاتے ہیں، شہر کے نواح میں تقریباً ساٹھ سال قبل کئی دشمنیوں کی کہانی نے جنم لیا،آزادی کے بعد جلد ہی شہر کے مختلف علاقوں پر کنٹرول کے جھگڑے شروع ہوگئے جس میں اندرون شہر سمیت مختلف علاقوں میں ان دشمنیوں کی نظر لگے رشتوں کا خون بھی سفید ہوتے دیکھا گیا۔ یہ دشمنیاں چودھراہٹ،ذاتی رنجش ، اناپسندی ،رشتوں ،رقم اور جائیداد کے نتازعات سے شروع ہوئیں۔ ان دشمنیوں کے پیچھے سیاسی سر پرستی موجود ہونے کے باعث قانون کی گرفت کمزور رہی۔ سیاسی خاندانوں کے درمیان ان دشمنیوں کا سلسلہ دھڑے بندی کی صورت کئی سال تک جاری رہا ۔خاندانی دشمنی اور سیاسی مفادات ایک ہوئے تو نیا خون دشمن داری میں استعمال کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے سیاسی چھتری تلے خوب دشمنیاں کمائیں۔ان طالب علموں نے اپنی دہشت کو قبضہ گروپوں ، بھتہ خور مافیا اور دوسرے ناجائز دھندوں کے لئے استعمال کیا۔پرانے گروپوں کی سرپرستی میں کام کرنے والے نئے گروپوں کو ختم کرنے کیلئے حکومتوں نے پولیس کی مدد حاصل کی اور متعدد پولیس افسربھی ان دشمن داروں کی زد میں آئے۔رپورٹ کے مطابق لاہور کے گرد و نواح میں دشمنیوں نے سب سے پہلے جنم لیا، اسلم نین سکھیا کی آگ نے جنم لیا، سرحدی علاقہ باٹاپور (جلو پنڈ) میں سلیم فوجی اور بھیلابٹ گروپوں کے درمیان چودھرا ہٹ پر دشمنی نے جنم لیا، شاہ پور کانجراں ، اور ٹھوکر نیاز بیگ میں کالوشاہ پوریا، بشریٰ عرف بچھو اور افتخار استو گروپوں نے جنم لیا جبکہ شہر کے وسط میں عبدالقیوم عرف قوما قصائی کی جگا گجر گروپ کے ساتھ دشمنی بڑی مشہور ہوئی، باغبانپورہ کے معراج دین عرف ماجھاسکھ گروپ کی شیخ اصغر گروپ سے کئی سال تک دشمنی رہی۔معراج دین کے فرزند میاں اخلاق گڈو اورشیخ اصغرکے فرزند شیخ روحیل اصغر نے عشروں تک جاری رہنے والی دشمنی کو ختم کیا،دونوں خاندان بعد میں سیاست میں نمایاں ہوئے ۔ اندرون شہر بلاٹر کاں والا، اسلم ٹانگے والا، سیالکوٹ گروپ ، بلاسینتیاں والا، بھولا سنیارا،ناجی بٹ اور تھانیدار گروپ کے درمیان دشمنیوں کی کہانی بہت عرصہ تک لاہور میں دہشت پھیلاتی رہیں ۔ مضافاتی علاقوں میں گُھر کی خاندان اور کشمیری خاندان ، ڈیال خاندان اور ٹھوکر نیاز بیگ ، ستوکتلہ میں کھوکھر گروپ اور گجر گروپ کے درمیان دشمنی کی آگ نے جنم لیا۔ سیاسی خاندانوں نے اپنے دشمن داروں کو مات دینے کیلئے طالب علموں کو استعمال کیا ۔ اپنا الگ نام پیدا کرنے پر سیاسی شخصیات کو ان طلباکے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ ان میں باباحنیفا، ارشد امین چودھری، ارشد اعوان، عبیداللہ شیخ، نوید سمی والا، طاہر سندھو ، بلوبٹ، پیرستی طلال بٹ، اکرم گجر سمیت درجنوں طالب علموں کے دشمنیوں میں نام ہوئے۔ان طالب علم رہنماؤں کی دشمنیوں میں مدد حاصل کرنے پر جہاں سیاست دانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، وہاں ان طالب علموں نے سیاسی چھتری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سنگین جرائم کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔ کئی پولیس افسر لاہور میں بھڑکتی دشمنیوں میں شریک ہو گئے۔ نوید سعید ، عاشق مارتھ ،ڈی ایس پی نیازی، عمرورک، طارق سجوار، شریف سندھو،بشیر نیازی جیسے پولیس افسران نے دشمنیوں کو ختم کرنے میں کردار توادا کیا لیکن دشمن دار ان پولیس افسروں کے دشمن بھی بن گئے، دشمنیوں کی کئی سال پرانی کہانی کے بارے میں اعلیٰ ریٹائرڈ پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ دشمنیوں کی کہانی میں سیاسی ہاتھ سے شہر کی فضا گرم رہی ہے تاہم امن وامان کے بہتر ہونے پر ان دشمنیوں کے باب بھی ختم ہوتے جارہے ہیں لیکن نسل درنسل چلنے والی ان دشمنیوں کی آگ کبھی کبھار اب بھی اپنی شدت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔(جاری ہے)
QOSHE - لاہور کی دشمن داریاں - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

لاہور کی دشمن داریاں

9 0
22.02.2024




تین روز قبل لاہور کے نوجوان بالاج کو شادی کی تقریب میں قتل کر دیا گیا۔گارڈز کی جوابی فائرنگ سے قاتل شوٹر موقع پر مر گیا۔بالاج ایک خوبصورت لہوریا تھا۔اس کا باپ اور دادا بھی دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔وارثان نے گوالمنڈی والے گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔دونوں خاندانوں میں عشروں سے چلی آ رہی دشمنی درجنوں افراد کی جان لے چکی ہے۔اللہ کرے یہ سلسلہ آگے نہ چلے۔بالاج کا ڈیرہ شاہ عالم چوک سے بانساں والے بازار کی طرف آتے ہوئے شروع والی نکر پر ہے ۔یہ پہلے بلا ٹرکاں والے کا ڈیرہ ، پھر ٹیپو ٹرکاں والے کا ڈیرہ اور اب بالاج ٹیپو کا ڈیرہ کہلاتا تھا۔اسی سڑک پر تھوڑا آگے جائیں تو چوک گوالمنڈی ہے۔دائیں طرف میو ہسپتال اور بائیں طرف مڑیں تو فوڈ سٹریٹ ہے۔یہ سارا علاقہ قطب الدین ایبک کے فرزند کی جاگیر تھا،اسی علاقے میں مغرب کی طرف وہ میدان تھا جہاں قطب الدین ایبک چوگان کھیلتے ہوئے مرا۔اس کا مزار وہیں ہے۔مائی لاڈو کا باغ یہیں تھا، ہری سنگھ نلوہ نے اس باغ کو اپنی ملکیت بنا لیا۔اسی باغ میں چھجو بھگت کی سمادھی ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مشیر رتن چند نے یہاں ایک مندر، تالاب اور سرائے بنائی ۔پھر یہاں نمک منڈی بن گئی۔اب ایک بستی ہے۔بالاج کا ڈیرہ اس بستی کے بالکل سامنے ہے درمیان میں بانسوں والا بازار ہے۔ پنجاب موسمی تہواروں ، کھیتوں اور محبتوں کی سرزمین ہے لیکن جس تاریخ نے اس کی زمین کو اپنے ہی خون سے رنگین کیا وہ برسہا برس تک جاری رہنے والی خاندانی دشمنیاں ہیں۔ پنجاب میں دو خاندانوں کے درمیان تقسیم سے پہلے کی دشمنی میں 125 افراد ہلاک ہوئے تھے، دونوں فریقوں کے درمیان مصالحتی معاہدے کے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play