ـ’’آخر دانشور کون ہوتاہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیںجنتا نظر آتا ہے ۔آسان سا جواب تو یہی ہے کہ ہ دانشور علم رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ علم جو جسم اور روح کے ذرے ذرے میں سرایت کرجائے۔علم کی صرف ایسی ہی قسم کو دانش کہتے ہیں اور جو اس دانش کو اپنے پاس رکھ سکے اسے دانشور کہا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ علم کی یہ مخصوص قسم مروجہ علوم کا احاطہ کرنے کے باوجود اُن سے مبرا بھی ہے اور اعلیٰ بھی۔ بات کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ اسے پھیلا یا جائے اور کھول کررکھدیا جائے کیونکہ جو چیز کھول دی جاتی ہے واضح ہوجاتی ہے۔ علم کے میدان لاتعداد ہیں اور آگے اُن میدانوں کے بے شمار رستے ہیںجن کے الگ الگ ماہرین دندناتے پھر تے ہیں۔ مثال کے طور پر علم طب کے اندر مختلف اعضائے کے ماہرین اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں جبکہ مختلف بیماریوں کے ماہرین الگ سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ناک کے ماہرین کی مزید تقسیم موجود ہے ۔ یعنی دائیں نتھنے کے ماہرین یا بائیں نتھنے کے ماہرین ۔ لیکن انھیں ڈاکٹر یا اسپشلسٹ کہاجاتا ہے اور انگریزی زبان میں انھیں intellectual نہیں کہاجاتا۔ اسی طرح دوسرے علوم کے ماہرین کو بھی دانشور کہنے کی بجائے فلسفی ، سائینس دان ، کیمیادان ، ریاضی دان، وکیل،صحافی، دندان ساز ، مجسمہ ساز ، مصور ، شاعر ادیب یا مولوی کہاجاتا ہے اور دانشور نہیں کہا جاتاہے۔مختلف ہنروں کے ماہرین اپنے ہنر کی معرفت پہنچانے جاتے ہیں مثلاً درزی ، مکینک ، ترکھان ، نائی ، کمہا ر ، موچی ، وغیرہ۔ ان لوگوں کو بھی دانشور نہیں کہتے ۔حالانکہ ان سب ہنر مندوں کے پاس اپنے اپنے حصے بخرے کی دانش موجود ہوتی ہے۔ جو بے شمار اطراف سے آدمیت کی کشتی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں اورساتھ ساتھ خود بھی اس میں سوار ہیں ۔ ہزاروں سال سے یہ کشتی رواں دواں ہے۔ کبھی یہ کشتی ڈوب جاتی ہے ،کبھی ٹکرا جاتی ہے اور کبھی کسی بھنور میںپھنس جاتی ہے۔ اس کی منزل بہت دُور ہے اور راستے بہت کٹھن ۔بہت کم لوگ ہیںجو کشتی کے انجن ،اس کے کل پرزوں ،سن ِ تعمیر اور ارض وطول سے واقف ہیں۔ جو واقف نہیںوہ واقف لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑتے ہیں اور جو یہ کام بھی نہیں کرسکتے وہی اصل میںخوش وخرم رہتے ہیں خوشی اور مسرت کی اس کیفیت میں ایک ایک کرکے کود جاتے ہیں یا گرادیئے جاتے ہیں ایک دھکم پیل کا سماں بندھا ہوا ہے اور زیادہ دھکے دینے والے کو ہی راستوں کے بیچ وخم کا ماہر سمجھا جاتاہے اور وقتی طورپر رہنما ۔چونکہ کشتی بہت لمبی اور سوار انگنت ہیں اسلئے بے شمار چپو مارنے والے اس کشتی یا گاڑی کو چلا رہے ہیں۔ اس مختلف النسل اور رنگ برنگی مخلوق میں سے ہم نے دانشور کو ڈھوندنا ہے ۔ اُسے پہنچاننا ہے کیونکہ وہ انہی کے اندر گم ہے۔ وہ اپنی شناخت کھوبیٹھا ہے اور مشکل سے نظر آتا ہے کیونکہ اسے خود نمائی کا شوق نہیں ۔ اُسے ڈھونڈنا ہے کیونکہ اس کی ضرورت ہے۔ اس بھیڑ میں اسے کیسے پہنچانا جائے؟ اسے پہچا ننے کے لئے پہلے اُسکا خاکہ ساتیار کرلیں تو بہتر ہوگا یعنی دانشور کے بارے میںرائے قائم کرلیں تاکہ اسے ڈھونڈنے میں آسانی ہو اور شناخت میںمشکل نا پڑے ۔کیا دانشورکمینہ ہوسکتا ہے؟ چور اچکا اورپر دھوکے باز ہوسکتاہے ؟ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سب سوالوں کاجواب ایک بہت بڑی ’’ہاں ‘‘ میںپوشیدہ ہے لیکن پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مندرجہ بالا اوصاف صرف اُن دانشوروں میں حسب ضرورت یا وراثناً موجودہوتے ہیں جنہیں ہم دانشورسمجھتے ہیں ۔ حقیقت میںایسا نہیں ہے کیونکہ دانائی بذات خود اُن باتو ں کی نفی ہوتی ہے۔ دانائی اور کمینگی کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ دانائی او ردرندگی ایک گھاٹ پرپانی نہیں پی سکتے ۔ دانائی اور دھوکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ دانائی اورظلم دوسوکنوں کی حیثیت سے بھی یک جا نہیں ہوسکتے۔دانائی اور جھوٹ سانپ اور نیولے کی طرح ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں۔ دانائی اور فساد، جبریل اور ابلس کی طرح بالکل جد اجدا ہیں کیونکہ دانائی کی بنیاد خوف خدا ہے۔ دانشور کبھی ہراساں نہیں کرتا۔ دانشور کبھی غلط راستہ نہیں دکھاتا ، دانشور کبھی حق نہیں مارتا ، دانشور کبھی اخلاق کے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ دانشور کبھی خلوص کے کپڑے نہیں اتارتا۔ دانشور کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور سچ کا کاروبار نہیں کرتا۔ دانشورکبھی خوف زدہ نہیں ہوتا اور ناہی رعب اور دبدبے کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ دانشورکبھی پردہ دری نہیںکرتا کیونکہ نفس کے ظلم سے آگاہ ہوتا ہے۔ کبھی رسوا نہیں کرتاکیونکہ خودار ہوتا ہے۔ کبھی اپنے کو ننگا نہیں کرتا کیونکہ غیرت مند ہوتا ہے۔ ہاتھ نہیں پھیلاتا کیونکہ بھرپور ہوتا ہے۔ دنگا فساد نہیں کرتا کیونکہ عظیم ہوتاہے۔ محبت پھیلاتا ہے کیونکہ لبالب ہو تاہے جوڑتا ہے کیونکہ ٹوٹ نہیں سکتا اور قربان ہوجاتا ہے کیونکہ مٹ نہیں سکتا۔ دانشورکو اس کا علم ہی ممتاز کرتا ہے اور اسے صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بناتا ہے اس کا علم ہی اسے مٹی کا تراشیدہ ہونے کے باوجود مسجود ملائیک بنادیتا ہے۔ جس سے علم کی عبادت پر فضیلت ڈنکے کی چوٹ پر ظاہر ہوتی ہے۔ جس نے آگ کو مٹی کا حاسد بنایا اور مٹی سے حسد نے رانداہ درگاہ رب العزت کیا۔ ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ آگ علم سے بے بہرہ ہے لیکن آگ علم سے دوطرح کا حسد ضرور رکھتی ہے ۔ ایک حسد آسمان سے نیچے گرادیتی ہے اور دوسری حسد آسمان پر چڑھنے نہیں دیتی۔ دانشور کی اصلی پہچان اس کی حسد سے طریقہ جنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی دانشمند ی کے طفیل حسد کو زیر کرنے میںکامیاب ہو گیا واپس آسمانوں پر چڑھ جائے گا اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہوئی تو اوپر چڑھنے والوں کی ٹانگیں کھنچے گا ۔ دانائی کا قرب اگر دل کو سوچنے اور دماغ کو دھڑکنے پر مجبور نہیں کرتا تو اس سے فقط جمود علمی بے نقاب ہوگا جبکہ دانش پوشیدہ ہی رہے گی ۔ دانش مردانگی کو کہتے ہیں۔ مردانگی جہاں جہاں دخول کرے گی حمل ضرور ٹھہرے گا۔مستونگ اور لنڈی کوتل میں غریب ولاچاربچوں کو الف ب پ پڑھانے والا جو بوریا نشین مگر غیور اسکول ماسٹر اپنی خو شی اور مرضی سے بے پناہ خلوص اور محنت کے ساتھ ایک زندگی کو آگے بڑھنے کے لئے تیار کرتا ہے، اُس دانشورسے کہیں برگزیدہ ہے جو اپنی عظیم تحقیق کے باوجود اس قابل بھی نہیں ہوتا۔ واضح ہوا کہ عمل دانائی کا جزولاینفک ہے۔ عمل سے جدا دانائی حیات طیبہؐ کے خلاف دلیل ہوگی۔ جبکہ اسے مدنظر رکھتے ہوئے عمل کو دانائی کا جزولاینفک سمجھنے کے اثرات اس قدر قوی اور انقلابی ہیں کہ سارے ڈاکو سجدے میں گر جا ئیں۔ سارے چور ایمان لے آئیں ۔ سارے بدمعاش متقی ہوجائیں ۔ نسل آدم ہر مقام پر آسودہ ہوجائے ۔ دنیا میں امن قائم ہوجائے اور شروفساد اس طرح غائب ہوجائیں جیسے تخلیق آدم سے پہلے غائب تھے۔ خد اہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
QOSHE - دانشور - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دانشور

19 0
17.02.2024




ـ’’آخر دانشور کون ہوتاہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیںجنتا نظر آتا ہے ۔آسان سا جواب تو یہی ہے کہ ہ دانشور علم رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ علم جو جسم اور روح کے ذرے ذرے میں سرایت کرجائے۔علم کی صرف ایسی ہی قسم کو دانش کہتے ہیں اور جو اس دانش کو اپنے پاس رکھ سکے اسے دانشور کہا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ علم کی یہ مخصوص قسم مروجہ علوم کا احاطہ کرنے کے باوجود اُن سے مبرا بھی ہے اور اعلیٰ بھی۔ بات کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ اسے پھیلا یا جائے اور کھول کررکھدیا جائے کیونکہ جو چیز کھول دی جاتی ہے واضح ہوجاتی ہے۔ علم کے میدان لاتعداد ہیں اور آگے اُن میدانوں کے بے شمار رستے ہیںجن کے الگ الگ ماہرین دندناتے پھر تے ہیں۔ مثال کے طور پر علم طب کے اندر مختلف اعضائے کے ماہرین اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں جبکہ مختلف بیماریوں کے ماہرین الگ سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ناک کے ماہرین کی مزید تقسیم موجود ہے ۔ یعنی دائیں نتھنے کے ماہرین یا بائیں نتھنے کے ماہرین ۔ لیکن انھیں ڈاکٹر یا اسپشلسٹ کہاجاتا ہے اور انگریزی زبان میں انھیں intellectual نہیں کہاجاتا۔ اسی طرح دوسرے علوم کے ماہرین کو بھی دانشور کہنے کی بجائے فلسفی ، سائینس دان ، کیمیادان ، ریاضی دان، وکیل،صحافی، دندان ساز ، مجسمہ ساز ، مصور ، شاعر ادیب یا مولوی کہاجاتا ہے اور دانشور نہیں کہا جاتاہے۔مختلف ہنروں کے ماہرین اپنے ہنر کی معرفت پہنچانے جاتے ہیں مثلاً درزی ، مکینک ، ترکھان ، نائی ، کمہا ر ، موچی ، وغیرہ۔ ان لوگوں کو بھی دانشور نہیں کہتے ۔حالانکہ ان سب ہنر مندوں کے پاس اپنے اپنے حصے بخرے کی دانش موجود ہوتی ہے۔ جو بے شمار اطراف........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play