میرے محبوب مولانا کا غصہ ایک بار پھر زمین گرم کر رہا تھا۔گفتگو حیران کن تھی جس کی توقع تو مولانا سے کی جا سکتی ہے لیکن حالیہ انتخابات کے تناظر میں کچھ تجاوز ہونے کا احساس ہوا۔مولانا ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں، اپنے مسلز دکھاتے ہیں اور حکومت میں اپنے مینڈیٹ سے زیادہ حصہ بٹور لیتے ہیں۔یہ درست ہے وہ گالی نہیں دیتے لیکن جلال دکھاتے ہیں ۔ایک ہوشیار سیاست دان اس بار عوام کی نبض نہ پڑھ سکا ،مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی زمین گرم کرنے کی کوشش کی ہے۔دیکھیں مولانا کو جواب کیا ملتا ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اسی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، وہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی جماعت مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیاور وہ صرف دوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں۔ جمعیت علما اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جو اپنی دائیں بازو کی سیاست کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے رہنما کے طور پر مولانا فضل الرحمان کی تقرری نے جمہوریت پسند حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا۔مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر ان کے ارشادات اسمبلی ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن اسمبلی سے باہر ان کے اقدامات کسی اور معیار پر آتے ہیں۔مولانا کی سیاست ترقی پسند، روادار اور لبرل پاکستان کے کسی بھی نظریے کے لیے شدید خطرہ ہے۔ تاریخی طور پرانہوں نے جمہوریت مخالف سیاست کر کے اپنا کیریئر بنایا ہے اور ان سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے دائیں بازو کے ووٹروں کو مزید مطمئن رکھ سکیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کے دوران، مولانا نے عمران خان پر "یہودی ایجنٹ" ہونے کا الزام لگایا۔ اسی مارچ میں، مولانا نے یہ بھی دلیل دی کہ ان کا احتجاج "آسیہ بی بی کو رہا کرنے والوں کے خلاف" ہے۔مولانا کسی زمانے میں مرحومہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں بھی افکار پیش کر چکے ہیں۔اب پتہ نہیں پی ڈی ایم کا وجود کہاں ہے ،مولانا اسکے سربراہ تھے ۔انہیں اندازہ کرنا چاہیئے کہ پی ڈی ایم کی پالیسیوں کا دفاع کرنے میں وہ خود اور ان کی جماعت کیوں ناکام رہی۔پی ڈی ایم پارٹیوں کی شکست ،خاص طور پر جے یو آئی کی ہار کے پیچھے اس کی قیادت کا ماضی کھڑا ہے،جو اقتدار سے باہر نہیں رہنا چاہتا۔انتخابات کے دوران ان کا ایک انٹرویو بہت گردش کرتا رہا جس میں انہوں نے اپنے ذرائع آمدن کے سوال پر غیبی مدد کا بتایا تھا۔وہ اندازہ نہیں کر سکے کہ لوگ اب باتوں سے نہیں پگھلتے۔ مولانا اور دوسرے سیاست دان جو انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، انہیں پاکستان کے عوام درحقیقت مسترد کر چکے ہیں اور یہ اب اپنی شکست کے لیے ’اسٹیبلشمنٹ‘ پر الزام لگا رہے ہیں، جو ان کے لیے آسان راہ فرار ہے۔اسٹیبلشمنٹ کچھ منصوبہ بندی کرتی ہو گی لیکن ان انتخابات میں مولانا کی خفگی صرف اس باعث ہے کہ انہیں پی ڈی ایم قیادت نے جو وعدے تھمائے تھے ،ان وعدوں کی تکمیل کا راستہ انتخابی شکست نے کھوٹا کر دیا ہے۔ گزشتہ چند برسوںکے دوران مولانا کئی بار پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں لیکن پھر اسی کی طرف جھکاو رکھا۔ ایک انٹرویو کے دوران، جے یو آئی-ایف کے ایک رہنما نے کھلے عام دعویٰ کیا تھا کہ عسکری قیادت نے جے یو آئی-ایف کے وفد کو مدعو کیا تھا اور انہیں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کو منسوخ کرنے کا کہا ۔ ایک اور بیانمیں، مولانا نے کہا تھا کہ ’’وہ خود کو اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران سے زیادہ قابل احترام سمجھتے ہیں۔‘‘ یہ بھی کہا کہ مجھے یا میری پارٹی کو چیلنج نہ کریں ۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے عوام نے 9 مئی کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے لیکن دراصل انتخابات 9 مئی کے بارے میں ریفرنڈم نہیں تھے ۔ 9 مئی کے مجرمآج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ انتخابات سے پہلے کھڑے تھے۔ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ گزارش ہے کہ نئے اتحاد بنا کر اپنی گنجائش پھر سے پیدا کرنا سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن اس کی آڑ میں بے چینی پیدا کرنا مناسب بات نہیں ہو گی۔مولانا کو جائزہ لینا چاہئے کہ مسلسل اقتدار میں رہ کر کوئی لیڈر عوام میں مقبول کیسے رہ سکتا ہے،انہیں جو مینڈیٹ ملا ہے اسے قبول کریں اور اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ مولانا کو شکست کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ مولا نا اور انکی جما عت اصل میں پی ٹی آئی جیسی نسبتا نئی جماعت اور اسکے بیانیے کا مقابلہ ہی نہیں کر سکے اور الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔ایم ایم اے سے لے کر پی ڈی ایم تک اقتدار میں رہ کر انہوں نے عام آدمی اور اپنے ووٹر کا اگر کوئی بھلا کیا ہے تو انہیں حلقہ میں جا کر بتانا چاہئے تھا۔وہاں وہ صرف یہودی ایجنٹ کے خلاف تقریر سے کام چلاتے رہے ۔لوگوں کا مسئلہ شہری ترقی،روزگار،سماجی امن ،صحت و تعلیمی سہولیات ہیں ۔وہ دھاندلی کا الزام لگا کر راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ لیک ہونے والی امریکی کیبل کے مطابق اسلام آباد میں امریکی سفارت کار کے اس مختصر تبصرے کے ساتھ ہوا: "مولانا فضل الرحمان جے یو آئی کی وجہ سے اپنے آپ کو کنگ میکر سمجھتے ہیں۔اس امریکی تبصرے کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا اس بار صدارت کے منصب پر فائز ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ مولانا جوڑ توڑ کے ذریعے اپنے سابقہ اتحاد پی ڈی ایم کی مدد سے ملک کی صدارت سمیت قومی اسمبلی کی 10 اور صوبائی اسمبلی کی 20 نشستیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ناکام رہے ۔پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے اعتراضات کی وجوہات الگ ہیں لیکن کیا مولانا سچی جمہوریت کے لئے انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول بجا رہے ہیں؟
QOSHE - مولانا کا الیکشن پر اعتراض - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مولانا کا الیکشن پر اعتراض

13 0
17.02.2024




میرے محبوب مولانا کا غصہ ایک بار پھر زمین گرم کر رہا تھا۔گفتگو حیران کن تھی جس کی توقع تو مولانا سے کی جا سکتی ہے لیکن حالیہ انتخابات کے تناظر میں کچھ تجاوز ہونے کا احساس ہوا۔مولانا ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں، اپنے مسلز دکھاتے ہیں اور حکومت میں اپنے مینڈیٹ سے زیادہ حصہ بٹور لیتے ہیں۔یہ درست ہے وہ گالی نہیں دیتے لیکن جلال دکھاتے ہیں ۔ایک ہوشیار سیاست دان اس بار عوام کی نبض نہ پڑھ سکا ،مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی زمین گرم کرنے کی کوشش کی ہے۔دیکھیں مولانا کو جواب کیا ملتا ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اسی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، وہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی جماعت مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیاور وہ صرف دوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں۔ جمعیت علما اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جو اپنی دائیں بازو کی سیاست کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے رہنما کے طور پر مولانا فضل الرحمان کی تقرری نے جمہوریت پسند حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا۔مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر ان کے ارشادات اسمبلی ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن اسمبلی سے باہر ان کے اقدامات کسی اور معیار پر آتے ہیں۔مولانا کی سیاست ترقی پسند، روادار اور لبرل پاکستان کے کسی بھی نظریے کے لیے شدید خطرہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play