بچپن سے دیکھتے ہیں‘ کسی رسی کو طویل عرصہ دونوں طرف سے کھینچے رکھیں تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔مشرقی و مغربی پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن جن کے ہاتھ میں رسی تھی وہ تنائو کم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ رسی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ہم ایسے ہی عاقل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی اغراض اور چند انچ کی انا کو قومی مفاد سے بڑا بنا بیٹھتے ہیں۔ یوں مذہبی مباحث ہوں‘ سماجی ترقی کا تصور ہو‘ معاشی بحالی کی خواہش ہو جمہوریت و سیاسی استحکام کی آرزو ہو یا پھر انتخابات کا انعقاد‘ ہم ایسے نئے تنائو پیدا کرتے رہتے ہیں جو قومی ہیجان کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں قوم تیزی سے ایسی تحریروں اور تقاریر کی لت میں گرفتار ہو رہی ہے جو غیر سنجیدہ اور غیر منطقی باتوں کو رواج دیتی ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کالم نگار اور اینکر اپنا بنیادی کام فراموش کر کے مارکیٹنگ میں پڑ گیا۔ حالیہ انتخابات سے پہلے‘ الیکشن کے دوران اور انتخابی نتائج آنے کے بعد جو پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے وہ سوچی سمجھی اور غیر جانبدار رائے نہیں۔اکثر صاحبان نے اپنا موقف بنا کر کسی دوسرے کا خیال ہمارے دماغ تک پہنچانے کا کرایہ لیا ہے۔ ذرا غور کریں۔ قائد مسلم لیگ ن کے پاس سادہ اکثریت تک نہیں لیکن انہوں نے حکومت بنانے کے لئے مشاورت کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی بتایا کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوئی لمبے چوڑے دعوے تو نہیں کئے لیکن 50 فیصد نتائج آتے ہی اس کے شریک چیئرمین اسلام آباد راولپنڈی پہنچے۔ پھر لاہور آ گئے۔آزاد جیتنے والے اگر تحریک انصاف کے وابستگان تسلیم کر لئے جائیں تو سب سے بڑی پارٹی وہی بنتے ہیں۔ وہ اسمبلی میں اپنی شناخت کس طرح رکھتے ہیں‘ آئینی تقاضے کیسے پورے کرتے ہیں یہ سب کچھ باہمی رابطوں میں طے پا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی خوش قسمت ہیں کہ ان کی لیڈر شپ ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ سیاست میں جوش و ولولہ آپ کو آگے لانے میںمدد دیتا ہے لیکن اگلی صف میں پہنچتے ہی لیڈر کو متنوع‘متحمل مزاج اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا کردار نبھانا ہوتا ہے۔آصف علی زرداری کو بھلے کوئی کتنا بھی ناپسند کرے انہوں نے متانت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے راستے ڈھونڈ لئے ہیں۔ان کی یہی خوبی انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ رہنے کے باوجود ہر طرح کے بحران میں کلیدی کردار کا مالک بنا دیتی ہے۔نواز لیگ کے پاس اچھی مینجمنٹ ہے۔ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے مطلوبہ سیڑھی تلاش کرتے ہیں۔سیڑھی کو اپنے ساتھ مختلف جگہوں پر لئے پھرتے ہیں۔ عزت دیتے ہیں‘ مالی فوائد کا خیال کرتے ہیں اور پھر ہدف حاصل کر کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ایسی سیڑھیوں کو لوگ ٹشو پیپر بھی کہہ دیتے ہیں۔ اخلاقی جواز بھلے نہ ہو لیکن یہ حکمت عملی پچھلے چالیس برس سے ان کو فائدہ دے رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں بشیر میمن کی سیڑھی نے ن لیگ کو سندھ میں کتنا فائدہ پہنچایا اس کا تجزیہ الگ سے کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ساڑھے تین سو ارکان قومی اسمبلی‘ پنجاب اسمبلی‘ خیبر پختونخوا اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ اگلے ماہ سینٹ کے نصف ارکان ریٹائر ہو رہے ہیں‘ ان کی جگہ جو نئے اراکین سینٹ منتخب ہوں گے ان کی اکثریت تحریک انصاف کے حمایت یافتگان کی ہو گی۔ اسی طرح صدر مملکت کا انتخاب ہو گا تو تحریک انصاف کے اراکین کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں گے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ملا کر مجموعی ووٹ بھی پی ٹی آئی سے کم بنیں گے۔یوں آزاد اراکین یا پی ٹی آئی کے حمایت یافتگان کے پاس ایک بڑی سودا بازی کی طاقت آ گئی ہے۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو بروئے کار لانے کا ان ارکان کو موقع بار بار پارلیمنٹ میں ملے گا۔کئی اہم اصلاحات کے متعلق قانون سازی کے لئے ان کی حمایت درکار ہو گی۔ گویا تحریک انصاف اگر اپنے منتخب اراکین کو سڑکوں پر ضائع کرنے اور احتجاج میں مصروف رکھنے کی بجائے ان کے سیاسی و پارلیمانی کردار کو مستحکم بنائے تو ناصرف پارٹی کی قانونی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے بلکہ برسوں سے ریاست کی رسی جس تنائو کا شکار ہے اس تنائو کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔تحریک انصاف کی نئی ٹیم میں بیرسٹر گوہر ‘لطیف کھوسہ، شیر افضل مروت آئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ اگر اسمبلی میں نہیں آیا تو انہیں سینٹ میں لایا جا سکتا ہے۔ علی محمد خان، شہر یار آفریدی‘ اسد قیصر‘ شاندانہ گلزار اپنا سابقہ تجربہ بروئے کار لا سکتے ہیں۔ اس حکمت عملی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری کا امکان بھی موجود ہے۔ حالیہ انتخابات نے ایک بار پھر ایک جماعت کے سوا سبھی کو دھاندلی کی شکایات کا موقع دیا ہے۔ دو ہزار تیرہ میں بھی مسلم لیگ کے سوا سبھی نے شکایت کی تھی۔2018ء میں آر ٹی ایس بند ہونے کا معاملہ جس طرح اگلے پانچ سال تک متنازع رہا۔ اس کا حل تلاش کر لیا جانا چاہیے تھا۔تحریک انصاف نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بابت کوشش کی تھی۔اس بار الیکشن کمشن ایک بار پھر ناکام ہوا بلکہ تاریخ کا ناکام ترین الیکشن کمشن ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے عوام کا ووٹنگ کے نظام پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کو انتخابی دفاتر نہیں بلکہ ووٹ کی شفافیت والی اصلاحات لانے کی ضرورت ہو گی۔ معاشی بحالی کے جس ایجنڈے کی کچی پکی تجاویز سنتے رہے ہیں وقت آ گیا ہے کہ ٹھوس منصوبہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور متفقہ منظوری کے بعد اسے آئینی تحفظ دیا جائے۔ انتخابات میں پاک فوج نے شہریوں کے لئے پرامن ماحول میں ووٹ ڈالنا ممکن بنایا۔ اس پر عسکری قیادت کی تعریف بنتی ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ بھی ہم نے دیکھا کہ بریانی والی پارٹی نے ہمارے حلقے کے ایک پولنگ سٹیشن پر تعینات پولیس اہلکاروں کو لنچ کے لئے بریانی دی تو اہلکاروں نے لینے سے انکار کر دیا کسی نے وجہ پوچھی تو کانسٹیبل بھائیوں نے کہا کہ ہم حرام نہیں کھاتے۔
QOSHE - آزاد ارکان اگلے صدر کا انتخاب کریں گے - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آزاد ارکان اگلے صدر کا انتخاب کریں گے

12 0
13.02.2024




بچپن سے دیکھتے ہیں‘ کسی رسی کو طویل عرصہ دونوں طرف سے کھینچے رکھیں تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔مشرقی و مغربی پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن جن کے ہاتھ میں رسی تھی وہ تنائو کم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ رسی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ہم ایسے ہی عاقل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی اغراض اور چند انچ کی انا کو قومی مفاد سے بڑا بنا بیٹھتے ہیں۔ یوں مذہبی مباحث ہوں‘ سماجی ترقی کا تصور ہو‘ معاشی بحالی کی خواہش ہو جمہوریت و سیاسی استحکام کی آرزو ہو یا پھر انتخابات کا انعقاد‘ ہم ایسے نئے تنائو پیدا کرتے رہتے ہیں جو قومی ہیجان کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں قوم تیزی سے ایسی تحریروں اور تقاریر کی لت میں گرفتار ہو رہی ہے جو غیر سنجیدہ اور غیر منطقی باتوں کو رواج دیتی ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کالم نگار اور اینکر اپنا بنیادی کام فراموش کر کے مارکیٹنگ میں پڑ گیا۔ حالیہ انتخابات سے پہلے‘ الیکشن کے دوران اور انتخابی نتائج آنے کے بعد جو پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے وہ سوچی سمجھی اور غیر جانبدار رائے نہیں۔اکثر صاحبان نے اپنا موقف بنا کر کسی دوسرے کا خیال ہمارے دماغ تک پہنچانے کا کرایہ لیا ہے۔ ذرا غور کریں۔ قائد مسلم لیگ ن کے پاس سادہ اکثریت تک نہیں لیکن انہوں نے حکومت بنانے کے لئے مشاورت کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی بتایا کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوئی لمبے چوڑے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play